تازہ ترین

بدھ، 20 ستمبر، 2023

ملک میں اپنی موجودگی کا احساس کرائیے,مسلمان اپنی افادیت کھوچکے ہیں،اس لیے حاشیہ پر چلے گئے ہیں,عبدالغفار صدیقی

بھارت میں مسلمانوں کی آبادی حکومت کے اعدادو شمار کے مطابق 15فیصد اور خود مسلمانوں کے اندازے کے مطابق 22فیصد ہے۔ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ بھارت میں مسلمان اگرچہ اقلیت میں ہیں لیکن تمام ممالک کے مقابلہ میں سب سے زیادہ مسلمان بھارت میں ہی رہتے ہیں۔البتہ بھارت میں مسلمانوں کی پوزیشن منصب امامت سے معزول کردہ قوم کی ہے۔ہزاروں عالیشان مساجد،وسیع وعریض اور عالمی شہرت یافتہ مدارس،نیشنل و انٹر نیشنل سماجی،ادبی،ملی اور مذہبی تنظیمیں رکھنے کے باوجود اس وقت مسلمان تقریباً حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔ کسی بھی دربار میں ان کی عزت نہیں ہے۔حکمراں جماعت تو ڈنکے کی چوٹ پر ان سے برأت کا اظہار کرتی ہی ہے۔اپوزیشن بھی کچھ زیادہ گھاس نہیں ڈالتی۔اپوزیشن کی 28جماعتوں پر مشتمل گٹھ بندھن میں سے کشمیر کی جماعتوں کو الگ کردیجیے تو مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے صرف انڈین یونین مسلم لیگ رہ جاتی ہے جس کا دائرہ عمل کیرالہ تک محدود ہے۔سیاست کے علاوہ دوسرے میدانوں میں بھی بھارتی مسلمانوں کی حصہ داری ناگفتہ بہ ہے۔حصہ داری کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ حکومت ملکی وسائل میں ہمیں آبادی کے تناسب سے شریک کرے اور حصہ داری دے،لیکن اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ بھارتی مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنی حصہ داری اداکریں۔


دنیا میں کسی شئی کی بقاکا دارومدار اس کی افادیت پر ہے۔اس بات کو قرآن مجید میں ایک مثال کے ذریعہ سمجھانے کے بعد فرمایاگیا:”جو لوگوں کو فائدہ دے وہ زمین میں ٹھہر جاتا ہے،(الرعد آیت 17)“یعنی جو چیز نفع بخش ہوتی ہے،جس سے عوام بہرہ مند ہوتی ہے اس کی جڑوں کو زمین کی تہوں میں اس طرح پیوست کردیا جاتا ہے کہ آندھی اور طوفان بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔وہ افراد یا وہ قومیں جو انسانیت کو نفع پہنچاتی ہیں،ان کے مسائل حل کرتی ہیں،ان کو اللہ تعالیٰ غلبہ و عزت عطا فرماتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو ان سب سے زیادہ نفع مند ہے اور پسندیدہ اعمال میں سے رب تعالیٰ کے ہاں وہ خوشی ہے جسے تو کسی مسلمان کو مہیا کردے یا اس کی کوئی تنگی دور کردے یا اس کی طرف سے قرض ادا کردے یا اس سے بھوک کو بھگائے۔ میں اپنے مسلمان بھائی کے کسی کام کے لیے چلوں، یہ مجھے مسجد میں ایک ماہ تک اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔“(الجامع الصغیر)مذکورہ حدیث میں آخری بات ”میں اپنے مسلمان بھائی کے کسی کام کے لیے چلوں، یہ مجھے مسجد میں ایک ماہ تک اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔“ قابل توجہ ہے۔اس وقت مسلمانوں کے اندر دین کے نام پر جو نوافل رواج دیے جارہے ہیں،نبی اکرم ﷺکی اس ہدایت کو بالائے طاق رکھ کر دیے جارہے ہیں۔ہر جگہ مسلمان مسائل کے جنگل میں گھرے ہوئے ہیں،لیکن ہر جگہ ایک بڑی تعداد ہاتھوں میں تسبیح لیے مسجد میں معتکف ہے۔کاش یہ لوگ انسانیت کی جہالت اور غربت دور کرنے میں کوئی رول اداکرتے۔

ملک کے موجودہ حالات اور قرآن و احادیث کی تعلیمات کی روشنی میں ذرا ہم اپنا جائزہ لیں کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں ہماراکیا رول ہے؟جس کو خیر امت کا لقب عطا کرتے ہوئے مقصد تخلیق نفع رسانی خلق بیان کیا گیا ہو،جس کو ساری انسانیت کے لیے برپا کیا گیا ہو،جس کو ساری دنیا کا ہادی و رہنما بنایا گیا ہو،جس کو وہ کتاب دی گئی ہو جس کے بارے میں خود ان کا یقین ہے کہ اس میں تمام مسائل کا حل ہے۔آخر وہ امت بے سود ہوکر کیوں رہ گئی ہے۔دینے والے ہاتھ لینے والے کیسے بن گئے ہیں؟رسوم کو مٹانے والے نئی رسموں کے موجد کیسے بن گئے ہیں،تنگ دستی،فاقہ کشی کو قرب الٰہی کا ذیعہ سمجھنے والے دولت و عیش و عشرت میں کیوں مگن ہوگئے؟ایمان تو یہ ہے کہ ”اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔(حدیث)“ لیکن عمل یہ ہے کہ قوم کی اکثریت ہر وقت حکومتی اداروں کی طرف امید بھری سے نظروں سے دیکھنے لگی ہے،مفت غلہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بول کراہل مال بھی خود کوغریبی کی سطح سے نیچے لے گئے ہیں۔علاج معالجہ میں دو پیسے بچانے کے چکر میں فرضی آیوشمان کارڈ بنوائے جارہے ہیں۔

ذرا سوچئے!ہم نے ملک کو کیا دیا؟جن عمارتوں پر ہم ناز کرتے ہیں وہ صدیوں پہلے ہمارے اسلاف کے کارنامے ہیں،ہمارا تو ان میں کوئی رول ہی نہیں ہے۔حالانکہ ان کی افادیت پر بھی گفتگو کی جاسکتی ہے۔آخر تاج محل کی جگہ کوئی سائنسی رصد گاہ کیوں نہ بنادی گئی؟شاہ جہاں کا نام تو اس سے بھی قائم رہ سکتا تھا؟قلعوں کی جگہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ کیوں نہ انجام دیا گیا کہ ہر انسان مملکت کا محافظ بن جاتا؟قطب مینار کی جگہ یونیورسٹی کیوں نہ قائم کی گئی کہ اہل ملک تعلیم یافتہ ہوجاتے۔جو عالیشان اور خوبصورت عمارتیں اپنے بنانے والوں کو کچھ نہ دے سکیں وہ ہمیں کیا عطا کریں گی؟ آج ہمارا نوجوان مختلف قسم کے نشہ میں مست ہے،یعنی ہم ملک کو نشہ خوری دے رہے ہیں،آپ جس اسپتال میں چلے جائیں وہاں اسی فیصد مریض مسلمان ملیں گے چنانچہ ہم ملک کو بیمار دے رہے ہیں،ہم نے سماج کوبے ایمان تاجر،نکمے اور کام چور مزدور دیے،ایک مسلمان بھی کسی مسلمان تاجر سے سامان خریدتے ہوئے اور مسلم مزدور سے کام کراتے ہوئے ڈرنے لگا ہے۔ہم نے تلاوت ”اقراٗ“ کی کی لیکن اس ملک کو جہالت دی،مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جو آبادی کا تقریباً اسی فیصد ہے ایسی جہالت میں ملوث ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔ ہم کسی کا مسئلہ کیا حل کرتے خود مسئلہ بن گئے ہیں۔

ہماری بیشتر تنظیمیں اور زیادہ تر رہنما مسلمانوں کی بات کرتے ہیں۔زیادہ تر جماعتوں کے ایجنڈے میں مسلمانوں کے دینی و مذہبی مسائل ہی ہیں۔جب دیکھیے نکاح،طلاق،مسجد،مدرسے ہی زیر بحث ہیں۔ہمارے مذہبی طبقہ کا سالانہ شیڈول کچھ اس طرح ہے۔شعبانمیں ختم بخاری اوردستار بندی،(دستار بندی میں بھی ہم ڈنڈی مارتے نظر آتے ہیں،جن بچوں نے کئی سال پہلے حفظ مکمل کرلیا ہوتا ہے ان کو بھی صرف تعداد میں اضافہ دکھانے کے لیے بلایا جاتا ہے؟جس نے ہمارے یہاں ایک دو پارے حفظ کیے ہوتے ہیں،ان کو بھی ہم اپنا عظیم الشان کارنامہ بتاتے ہیں)رمضان میں زکاۃ کی فراہمی،شوال میں یتیم بچوں کی تلاش،ذی الحج میں قربانی کے بکروں کی جستجو،ربیع الاول میں جلوس محمدی و سیرت کانفرنس،درمیان میں عظمت صحابہ و اصلاح معاشرہ کانفرنسیں،وقت ملا تو گمراہ فرقوں کے خلاف مناظرے۔ملی اور سماجی جماعتیں سال میں ایک کتاب کا اجراء،اپنے ہی لوگوں کو ایوارڈز،(جو یا تو بہت قریبی ہیں،یا انھوں نے چندہ میں بڑی رقم دی ہے)ایک دو سمینار جس میں مقررین کی تعداد سامعین سے زیادہ ہوتی ہے اس کےعلاوہ مجھے بتائیے ان کی سالانہ رپورٹ میں کیا ہے۔شعراء اس فکر میں گھلے جارہے ہیں کہ ان کو مشاعروں میں مدعو نہیں کیا جارہا ہے اور جسے بلالیا جاتا ہے اسے یہ شکایت کہ اعزازیہ کم دیا جارہاہے۔سیاست کا حال سب سے بُرا ہے جو لوگ اپنے محلہbمیں نہیں جیت سکتے وہ بھی قومی رہنما ہونے کے مدعی ہیں۔ہماری نئی نسل کے رول ماڈل قادر خان،شاہ رخ خان اور عامر خان ہیں،ہم ابن سینا،امام رازی،امام غزالی کے نام تک نہیں جانتے اور تواور اے پی جے عبدالکلام کو بھی پارسی کہہ کر نظر اندازکردیتے ہیں۔

ملک کا کوئی ایشو ہمارے ایجنڈے میں نہیں ہے۔وہ جماعتیں بھی جو بڑے طمطراق سے ملکی مسائل کو اپنی پالیسی و پروگرام کاحصہ بناتی ہیں ان کی طرف سے بھی کوئی قابل ذکر خدمات سامنے نہیں آتیں۔آخر جب ہم ملک کی فکر نہیں کریں گے،اس کی ترقی میں کوئی رول ادا نہیں کریں گے،اہل ملک کے مسائل پر بات تک نہیں کریں گے تو ملک کے وسائل میں حصہ کیوں ملے گا یہ کوئی باپ کا ترکہ نہیں ہے کہ خود ہی اکاؤنٹ میں چلا آئے گا۔ملک میں مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے،عوام مخالف پالیسیاں بنائی جارہی ہیں،سرکاری نظام تعلیم اندھیر نگری چوپٹ راجہ کا منظر پیش کررہا ہے۔مذہبی منافرت نے انسانوں کو جانوروں کی سطح سے نیچے گرادیا ہے۔مگران موضوعات پر ہماری جماعتوں،تنظیموں اور رہنماؤں کی جانب سے کوئی قابل ذکر آوازنہیں اٹھتی،ایسی آواز جو ملک بھر میں سنائی دے،جس کے نتیجہ میں عوام یہ سمجھے کہ مسلمان صرف اپنی بات ہی نہیں کرتے بلکہ ملک کے عام انسانوں کے مسائل پر لب کو بھی جنبش دیتے ہیں۔ان ایشو ز پر ہم نے کوئی دھرنا نہیں دیا،کوئی جلوس نہیں نکالا،ہمارے کسی سیاست دان نے استعفیٰ نہیں دیا۔کیا یہ تمام مسائل انسانوں کا مسئلہ نہیں ہیں۔انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جہنم کی طرف رواں دواں ہے مگر ہماری جبینوں پر کوئی شکن نہیں ہے۔نبی اکرم ﷺ کو سب سے زیادہ مددگار کمزور طبقات سے اس لیے ملے تھے کیوں کہ آپ نے بعثت سے قبل اپنی زندگی کو ان کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردیا تھا۔پہلی وحی کے بعدحضرت خدیجہؓ کا بیان اس پر شاہد ہے۔کاش ہم اپنا دکھ بھول کر دوسروں کے دکھ دور کرنے کی جد جہد کرتے،اپنے مسائل کو بھول کر انسانوں کے مسائل حل کرتے،اپنے حقوق مانگنے کے بجائے اپنے فرائض کما حقہ ادا کرتے تو ہماری دنیا نہ سہی آخرت تو بن جاتی۔

میرے عزیزو! ہمیں چاہئے کہ ہم سماج میں اپنی افادیت ثابت کریں۔کچھ دینے والے بنیں،ہمارے اساتذہ اپنے خالی اوقات میں انسانوں کی جہالت دور کریں،ہمارے دوچار ڈاکٹرس مل کر بڑے اسپتال قائم کریں جہاں مناسب قیمت میں اچھا علاج میسر ہو،جہاں مریض کی جیب نہ کاٹی جاتی ہو،ہمارے کچھ نوجوان تحقیق کے میدان میں اپنی زندگیاں لگائیں۔ہمارے ہاتھ کسی کمزور کو سہارا دیں،ہمارے مال سے ضرورت مندوں کو فیض پہنچے،ہمارے تاجر کم منافع پر اچھا سامان فراہم کرائیں،ہمارے مزدور اپنے وقت سے زیادہ خدمت کریں،اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق کے ہمیں سرخ روئی عطا کرے گا۔ورنہ انتظار کیجیے اس سے بھی برے دن کا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad