عام طورپر تقریروں میں یہ سُنا جاتاہے کہ مسلمان تعلیم کے شعبے میں آگے آئیں،مسلمانوں کی تعلیمی حالات بہت ہی بُرے ہیں،مسلم نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے ملک وقوم کی قیادت کریں۔دیکھاجائے تو موجودہ دورمیں اعلیٰ تعلیم کیلئے جابجا تعلیمی ادارے ہیں،سرکاری اداروں سے زیادہ پرائیوئٹ تعلیمی اداروں میں زیادہ تر بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرائیوئٹ تعلیمی اداروں میں تعلیمی معیار بہتر رہتاہے ،ایسے میں مسلمانوں کے بچے بھی ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔جیساکہ اعداد وشمارات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں میں مالداروں کاتناسب15 سے20 فیصدہے جبکہ متوسط طبقے کے لوگ40 فیصد تک ہیں،50 فیصد کا حصہ سطح غربت سے نیچے کا ہے۔اس لحاظ سے مسلمانوں کو تعلیم کے شعبے میں آگے لانے کیلئے متوسط اور مالدار طبقے کو ہی پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ان حالات کو کیسے بہتر بنایاجاسکتاہے یہ سوال عام طورپر عوام کاہوتاہے۔
اس کام کو بڑی تحریک یا بڑی تنظیم کے ذریعے سے انجام دینا مشکل ہے،لیکن انفرادی پیش رفت اور محنت سے مسلمان تعلیم کے شعبے کو بہتر بناسکتے ہیں۔اوسطاًس اس وقت ایک مڈل کلاس فیملی کی آمدنی 30-25 ہزار روپئے ہوتی ہے جبکہ مالداروں کی اوسط آمدنی ماہانہ تین چار لاکھ روپئے ہوتی ہے،مڈل کلاس اور اپر کلاس دونوں ہی کم وبیش زکوٰۃ نکالتے ہیں،اس زکوٰۃ پر عام لوگ تو اپنی حصہ داری کا دعویٰ تو نہیں کرسکتے ،البتہ عام لوگوں کی مددکیلئے ایک اہم قدم اٹھایاجاسکتاہے۔جن کی آمدنی ماہانہ25 ہزار روپئے کے قریب ہو وہ اگر اپنے مال میں سے پانچ فیصد رقم ایجوکیشن بجٹ کے نام پر نکالتے ہیں اور اس رقم کو اپنے بچوں کے علاوہ ضرورتمندوں کے بچوں پر خرچ کرتے ہیں تو بہت بڑا فائدہ ہوسکتاہے۔
ویسے بھی مڈل کلاس اور اپرکلاس کے لوگوں کو تعلیم کیلئے مالی مشکلات کم ہی ہوتے ہیں،اگر کوئی ایک شخص25 ہزار روپئے میں سےپانچ فیصد رقم ایجوکیشن بجٹ کے نام پر نکالتاہے تو یہ رقم سالانہ15 ہزار روپئے ہوجاتی ہے اور اس 15 ہزار روپئے کی رقم کسی ایک بچے کی سالانہ فیس ہوسکتی ہے،اسی طرح سے ماہانہ لاکھوں روپئے کمانےوالےمالدار بھی پانچ فیصد رقم ایک لاکھ روپئے کی رقم پر نکالتے ہیں تو یہ رقم سالانہ 60 ہزار روپئے کی ہوجاتی ہے اور اس رقم سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کیلئے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔اکثر دیکھاجاتاہے کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کئی بچے پریشان رہتے ہیں،انہیں سرکاری سطح پر کبھی اسکالرشپ ملتی ہے تو کبھی نہیں ملتی،ایسے میں ان کی تعلیم میں روکاٹیں پیداہوجاتی ہیں،ایسے میں یہ بچے یا تو تعلیم چھوڑ دیتے ہیں یاپھر تنظیموں واداروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔
ویسے مسلمانوں کے پاس بہت ہی محدود پیمانے پر تنظیمیں ہیں اور ان تنظیموں کے پاس شادی بیاہ اور جلسے کرنے کیلئے تو خاصی رقم موجود رہتی ہے،لیکن تعلیم کیلئے ان کے پاس فنڈس نہیں رہتے۔100 شادیوں پر ایک کروڑ روپئے خرچ کرنے سے اچھاہے کہ ایک کروڑ روپئے خرچ کرکے200طلباء جو میڈیکل،لاء یا پھر یوپی ایس سی کی تیاری کرناچاہتے ہیں انہیں اچھی تعلیم دلوائی جائے تاکہ یہ بچے آگے چل کر اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں اور شادی کیلئے محتاج نہ بنیں۔کتنا آسان ہے کہ ہر شخص اپنی کمائی کا پانچ فیصد حصہ تعلیم کے بجٹ کیلئے مختص کرے اور قوم کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی پہل کریں۔کسی شہرمیں سولوگ بھی اس کام کو انجام دینگے تو وہاں پر سوطلباء کی تعلیم کی گیارنٹی مل جائیگی،سرکاری گیارنٹیوں پراُمید لگانے کے بجائے اپنی گیارنٹی پر ایک ایک بچے کو تعلیم دی جاسکتی ہے۔ہمارے یہاں یہ بھی دیکھاگیاہےکہ جب کوئی طالب العلم فیس کی بھرپائی کیلئے کسی سے رجوع کرتاہے تو وہ شخص پہلے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالنے کے بجائے دوسروں کی جھولیوں او رتجوریوں کی طرف اشارہ کرتاہے۔جوتنظیمیں ہمارے یہاں ہیں اُن کیلئے بھی تو مال آسمان سے نہیں اترتاہے بلکہ ہم اور آپ جیسے لوگ ہی ان تنظیموں کی آمدنی کے اسباب ہیں۔حقیقی خوشی محسوس کرنا چاہتے ہیں تو کسی ضرورتمندکی ضرورت کو پوراکرکے دیکھیں تو کیسے اپنے آپ کو مطمئن محسوس کرینگے،اپنے آپ میں ایک فخر محسوس کرینگے۔ہمارے یہاں زکوٰۃ کا جومال ہے اُس مال پر تو ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جو سیدھے جنت پہنچانا چاہتے ہیں،جنت صرف اُن لوگوں کے ہاتھ میں مال دینے سے نہیں ملتی بلکہ ضرورتمندوں کی ضرورت کو پوراکرنے سے بھی ملتی ہے۔کچھ دن بعد اسکول وکالج شروع ہوجائینگے،داخلوں کا سلسلہ شروع ہوجائیگا،پھر سے داخلوں کیلئے ضرورتمند ماں باپ پریشان گھومتے رہینگے،ان حالات میں مسلمان اپنے بجٹ میں سے پانچ فیصد حصہ تعلیم کیلئے مختص کرینگے تو بہت بڑا کام ہوسکتاہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں