تازہ ترین

بدھ، 1 مئی، 2024

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

بقلم: قاری محمد عالم فرقانی 
چیئرمین فرقانی چیریٹیبل ٹرسٹ مقیم جدہ سعودی عرب 

آج جلسہ ارباب مکتب کی ڈگڈگی بجاکر چند نام و نہاد پیشہ ور گوئے و چرب زبانی سے کام لینے والے مداریوں کا سرکس میں تماشا دکھا کر پیسہ اینٹھنے کا اڈہ بن چکا ہے۔ قرآن و حدیث کا سہارا لےکر فرزندان توحید کے جذبات سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ دینی اصلاحی و دعوتی اتحاد کانفرنس کا نام لے کر امت مسلمہ کو گمراہ کیا جارہاہے ۔


 ایسے نام و نہاد پیشہ ور مقرروں کو مدعو کیا جاتاہے جو ایک رات میں رشوت کو نذرانہ کہہ کر 20000 ہزارسے لے کر 50000 ہزار نقد ، فرسٹ A/C کا ٹکٹ اور کھانے میں بکرا  کی فرمائش کرتے ہیں۔  مكتب جو گاؤں کے چودھری ، ڈاکٹر صاحب یا کسی سرکاری عہدے پر فائز یا پھر سیٹھ صاحب کی ذمّہ داری میں ہوتا ہے ان میں سے اکثر لوگوں کو تو دین کا علم بھی نہیں ہوتا بس روپیہ کی فراوانی ہونے کی وجہ سے ان کو مسند نظامت پر متمکن کر دیا جاتا ہے ۔


 موجودہ وقت میں جلسہ کا مشن مفقود و مردود ہو چکا ہے۔ بےحیائی کو گلے لگا لیا ہے۔دیندار گھرانے کی چند عورتیں و لڑکیاں بھی جلسہ سننے کے نام پر اترنگی و فرنگی ڈریس پہن کر مانو حسن کی نمائش کرنے جا رہی ہوں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ جلسہ سے قوم کے نونہالوں کو دماغی الجھنوں میں پھنسا کر ان کو سینٹمینٹ کیا جاتا ہے تو شاید بیجا نہ ہوگا۔ جلسہ کے نام پر رنگرلیاں منائی جاتی ہیں۔ اٹھکھیلیاں اور گلچھرے اڑائے جاتے ہیں۔ 

بعض احباب سے پتہ چلا ہے کہ جس جلسہ سے ایک رہنے اور نیک بننے کی تقریریں کی جاتی ہوں۔ جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو کی راگ الاپی جاتی ہو آج اسی پروگرام میں دو طرح کے کھانے پکوائے جاتے ہیں۔ پہلا عوام کا کھانا جو بوائلر مرغے پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا بکرا جو نام و نہاد شاعروں یا مسحور کن خطیبوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ جلسہ شیطانی غول کا آماجگاہ بن چکا ہے  جہاں سے اکابر پرستی یا بہتان تراشی کی کھلے طور پر دعوت دی جاتی ہے۔ چنده اکٹھا کرنے کے نام پر قوم کے صدقات و زکوٰۃ کے پیسے سے رنگین اشتہار چھپواکر گاڑیوں پر لاؤڈ اسپیکر باندھ کر بھیک منگوانے کی مشق کرائی جاتی ہے۔


 نونہالوں کو تعلیم یافتہ نہیں  بلکہ بھکاری بنایا جاتا ہے۔ گاؤں گاؤں میں مکتب کھول کر دھن اگائی کی جاتی ہے۔ حال یہ ہے کی مکتب کے ذمّہ داروں کے بچوں کی پروفیشنل ڈگری حاصل کرنے کے لئے اسمارٹ ایجوکیشن کے نام پر دھڑلے سے اپنی جاگیر سمجھ کر قوم کے روپیوں کو اڑایا جاتا ہے جبکہ محلے/گاؤں میں مفلسی و قلاشی کی زندگی گزارنے والے پیار کے مارے بچے انہیں لوگوں کے ذریعہ احساس کمتری میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں اور زندگی بھر سسکیاں لے کر اپنے آپ کو کوستے رہتے ہیں باوجود اس کے کہ ان کے اندر ٹائلنٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔

 اگر قوم کی زکوٰۃ انہیں پیار کے بھوکوں پر اخلاص کے ساتھ صرف کیا جائے تو یہی ذریعہ نجات اور ہماری بخشش کا پروانہ بنیں گے۔ دنیا میں بھی انقلاب کی نمائندگی بحسن خوبي انجام دیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو پرموٹ کیا جائے۔ 


اصل زکوٰۃ و صدقات کے یہی مستحق ہے۔ انہیں کو دینے سے رب راضی ہوتا ہے نہ کہ مکتب کے لٹیروں کو ۔ ہر ایک دو گاؤں کے بیچ ایک نہ ایک مکتب مل ہی جاتا ہے جہاں خدمت انجام دینے والے نائب رسول کی تنخواہ بمشکل 5000 ہزار سے لےکر 10000 ہوتی ہے جس كو گاؤں والے مل کر بغیر چندہ کے چلا سکتے ہیں اور تعمیری کام بھی بلا تعاون کر سکتے ہیں لیکن ارباب مکتب/سیٹھ صاحب ایسا نہیں ہونے دیں گے چونکہ ان کے منہ میں شیر کی طرح خون لگ چکا ہے جو مرنے کے بعد یا اس پوسٹ سے ہٹنے کے بعد ہی ممکن ہے ختم ہو۔ 


رہا سوال جھوٹی سستی شہرت یافتہ اداکار مقرروں کا تو ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ان کے مکرو فریب سے سب کو آگاہ کیا جائے۔ اور ایک رات کی جلسہ میں حاضری کی رشوت بطور نذرانہ سے عوام کو آگاہ کیا جائے جس سے عوام اپنی زکوٰۃ کی رقم کسی مشہور ادارہ جیسے دار العلوم فیض محمدی ، اشرف العلوم کرتھیا ، ابن قيم کولہو وغیرہ میں دیں ۔ حقیقت میں مذکورہ بالا ادارہ یا اس جیسے دوسرے ادارہ ہی صدقات و زکوٰۃ کے اہل ہیں۔

 میرا مقصد علمائے حق کی عزت افزائی اور علمائے سوء کو ایکسپوز کرنا ہے۔ جس سے حق اور ناحق میں امتیاز ہو سکے ۔ آج جو میں کہہ رہا ہوں شاید کچھ لوگوں کو پسند نہ آئے کوئی پرواہ نہیں ، لوگ ناراض ہوں ہوجاۓ کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ صرف میرا رب مجھ سے راضی ہوجاۓ بس میرے لیے یہی سب کچھ ہے اور میری زندگی کا مقصد بھی یہی ہے۔ میری قوم کے مخلص حضرات آپ لوگوں کو بار الہ کا واسطہ آج جتنی رقمیں جلسوں میں گویوں اور مداریوں پر خرچ کی جاتی ہی اگر میں بات کروں صرف ضلع مہراج گنج کی تو ایک سیزن کی خرچ کی ہوئی رقم سے کئی غریب بچیوں کے ہاتھ پیلے ہو جاتے۔ 


ایک اقلیت کا ہسپتال وجود میں آجاتا یا ایک بہترین دینیات کے ساتھ ساتھ ملت کی شہزادیوں کے لیے عصری علوم کا مرکز بن جاتا جس سے اسلام کی صنف نازک غیروں کے چنگل سے آزاد ہو جاتیں ۔ اگر بات کی جائے مہراج گنج کی تو بہت سارے ایسے جید علماء موجود ہیں جو اشتہار میں موجود چند مداریوں سے لاکھ گنا بہتر ہیں۔ لیکن حال یہ ہے کہ پوسٹر میں جگہ دینا تو درکنار ان کا نام لینا تک جرم سمجھا جاتا ہے۔ ان کی نظروں کے سامنے نام و نہاد کو بکرا جبکہ ان بیچاروں کو بوائلر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی ياد رکھئے کہ جب بھی ان مکاتب پر کوئی آنچ آن پڑے گی  تو یہیں قرب جوار کے علماء ہی کھڑے ہوں گے۔ اس لئے ان کو زینت اسٹیج بنانے کی کوشش کریں۔ میں مکتب کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں اصلاح چاہتا ہوں۔

 آج مکتب کے چلانے والے خود اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے نام پر کانونٹ میں بھیج رہے ہیں۔ اور فخریہ انداز میں سینہ چوڑا کرکے کہتے ہیں کہ میں مکتب کا رکھوالا ہوں جو مکتب کی اہمیت نہیں سمجھ سکتا وہ کیا دیکھ ریکھ کر سکتا ہے۔ اس لیے علماء اور اداروں سے اپنا ناطہ مضبوط کیجئے ، علماء حق کو محبت کی نظر سے دیکھئے ۔ 

گویوں اور پیشہ ور مقرروں سے اپنا دامن بچائیے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ آر ایس ایس و دیگر تنظیموں نے نہ ہی کوئی جلسہ کیا اور نہ ہی کوئی بڑا سبھا بلکہ زمینی استر  پر قابل و صلاحیت مند افراد تیار کئے جو آج پورے ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور ہم نے کیا کیا ۔ بڑے بڑے حضرات کی تقاریر سماعت کرنے و بلبل نعت خواں کی بے معنی بے ترتیب نعت سننے و چندہ اکٹھا کرنے کے لیے قوم کے پیسوں کو تو اپنی جاگیر سمجھ کر اڑایا ہی ایسے افراد تیار کئے جو حکومت کے سامنے اپنی بات رکھنے کی صلاحیت سے بھی کوسوں دور ہیں۔ زکوٰۃ کو صحیح جگہ خرچ کریں۔  یاد رکھئے اگر آپ نے آج سے ہی بیداری کا ثبوت پیش نہیں کیا تو اس ملک کو اسپین بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

 جلسہ جلوس بند ہونے چاہیے اور علماء حق کو اب وقت آگیا ہے کہ جلسوں کی کھل کر مخالفت کریں۔ اور اس میں خود نہ جائیں اور پوری جرات مندی سے دوسروں کو بھی نہ جانے دیں۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad