تازہ ترین

اتوار، 26 نومبر، 2017

میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعاء کا ثمرہ ہوں


میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعاء کا ثمرہ ہوں
 ازقلم: محمد ولی اللہ ابن محمد زبیر صدیقی قاسمی
Image result for muhammad
فرمان نبی تاجدار مدینہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: *_میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعاء کا ثمرہ ہوں
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں یہ دعاء کی تھی کہ اے ہمارے پروردگار! _ان لوگوں کے درمیان ایک ایسا نبی مبعوث فرما جو انہیں میں سے ہوں اور وہ رسول تیری آیتیں انکے سامنے تلاوت کرے اور ان کو کتاب و دانائی کی باتیں سکھائے اور ان کو پاک و صاف کرے، بے شک تو بڑا زبردست اور بڑی حکمت والا ہے -_ 
یہ ماہ ربیع الاول اسلامی مہینوں کے اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس ماہ میں بے قراری کو قرار آیا تھا، بی بی آمنہ کے صحن میں ایک جگمگاتا مہکتا پھول کھلا تھا، جسے خوشبو سے دنیا معطر ہو گئی تھی، اولاد آدم کا وقار بلند ہوا تھا، ذرات کو آفتاب کی چمک، سیاروں کی دمک اور بدر کی روشنی ملی تھی، یہ آنے والی بہار، کھلتے ہوئے پھول در حقیقت فخر موجودات تاجدار مدینہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی -
*ولادت اور یتیمی*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم جناب عبد اللہ بن عبد المطلب نے بی بی آمنہ سے نکاح کیا، بقضائے الہی بی بی آمنہ کی گود بھر آئی اور نکاح کے چند دن بعد خواجہ عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ کو کھجور کے لئے مدینہ بھیجا، مدینہ میں ہی پچیس سال کی عمر میں دار فانی کو الوداع کہہ گئے، انکے انتقال کے کچھ دن بعد 8, 9 یا 12 ربیع الاول کو پیر کے دن صبح صادق کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، آپ کی ولادت واقعۂ فیل کے ٹھیک پچاس دن بعد ہوئی، والد محترم کی وفات ہو چکی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا محترم خواجہ ابو طالب نے آپ کی کفالت میں چند سال پرورش پائی-
*اصحاب فیل کا واقعہ* 
مختصر واقعہ یہ ہیکہ ابرہہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ، ہاتھیوں کی جھنڈ لے کر بیت اللہ کو ڈھانے کے لئے نکلا تھا اور اس نے مکہ کی پاس ایک وادی میں پہنچ کر خواجہ عبدالمطلب کے اونٹوں کو ضبط کر لیا، چنانچہ خواجہ عبدالمطلب ابرہہ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ یہ اونٹ میرے ہیں لہذا مجھے دے دیں، بیت اللہ کا مالک اللہ ہے اور وہ اسکی حفاظت کرے گا، تم ڈھاؤگے تو ہم کوئی مزاحمت نہیں کریں گے، اونٹ لے کر لوٹنے کے بعد سردار مکہ خواجہ عبد المطلب مکہ والوں کے ہمراہ بیت اللہ کی دیوار پکڑ کر خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعاء کی کہ _اے خدا! اس گھر کا مالک تو ہی ہے، ہم کمزور ہیں، لہذا تو ہی اس کی حفاظت فرما_ - بالآخر رب ذوالجلال نے پرندوں کا لشکر بھیج کر اصحاب فیل کے لشکر کو نیست ونابود کر دیا، پھر کیا تھا اہل دنیا میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی، مکہ والوں کا رعب دنیا کے ہر کونے میں چھا گیا -
*رضاعت*
پیدائش کے بعد کئی دن تک آپ کے چچا ابو لہب کی لونڈی "ثوبیہ "نے دودھ پلایا "ثوبیہ کا لڑکا جس کے ساتھ آپ نے دودھ پیا اسکا نام مسروح تھا -
شرفاء قریش کا ایک اصول تھا کہ وہ اپنے نومولود بچوں کو دودھ پلانے کے لئے دیہات کی عورتوں کا انتخاب کرتے تھے، چنانچہ انہیں عورتوں میں سے ایک خوش نصیب عورت دائی _حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا_ ہیں، جنہوں نے *خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ* وسلم کو دودھ پلانے کے لئے لے گئی تھیں -
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلنے پھرنے لگے تو شق صدر کا واقعہ پیش آیا تھا، اسکے بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ کی خدمت میں لا کر سپرد کر دیا -
*یتیمی کا سفر( والدہ ماجدہ اور دادا محترم کا انتقال)*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو والدہ ماجدہ کی خدمت مین سپردگی کے کچھ دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ اپنے ہمراہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو والدہ محترمہ مدینہ سے واپسی میں " _مقام ابواء_ " کے اندر دار فانی سے رخصت ہو کر مالک حقیقی سے جا ملیں، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل یتیم ہو گئے، ولادت سے قبل والد کی رحلت اور چھ سال کی عمر میں والدہ کی رخصت، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دادا محترم خواجہ عبد المطلب کی کفالت میں آگئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ سال دو مہینہ دس دن کی ہوئی تو آپ کے دادا جان بھی اس دنیا سے چل بسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حقیقی چچا محسن ومربی خواجہ ابوطالب کی کفالت میں آ گئے-

*سفر شام اور بحیری راہب*
ہمارے نبی ختم المرسلین تاجدار مدینہ سردار انبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک جب 12 سال دو مہینہ کی ہوئی تو عم محترم خواجہ ابوطالب نے تجارت کے خاطر شام کا سفر کیا اور اپنے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی لے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مع قافلہ دوران سفر مقام "تیما "میں پہنچے تو "بحیری "نامی راہب نے سبھی لوگوں کی دعوت کی، لیکن اس قافلۂ دعوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ پاکر" بحیری راہب" نے پوچھا کہ ایک بچہ کم ہے، وہ کہاں ہے؟ جواب دینے والے نے جواب دیا کہ وہ تجارت کے سامان کی نگرانی کر رہا ہے، راہب نے کہا کہ یہ دعوت اسی بچہ کی طفیل ہوئی ہے لہذا اسے مدعو کیا جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لایا گیا، اس نے دیکھ کر خواجہ ابو طالب سے کہا کہ یہ بچہ کون ہے؟ خواجہ ابو طالب نے جوابا کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے، پوچھا کہ آپ کو ان سے محبت و انسیت ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں، راہب نے کہا کہ اگر آپ اس بچہ کو شام لے کر جائیں گے تو شام کے یہود ونصاری انکے دشمن ہو جائیں گے، انکی جان کو خطرہ ہے کیونکہ یہ خاتم النبیین والمرسلین بننے والے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا خواجہ ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر واپس مکہ آ گئے 
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عقد مبارک خدیجہ بنت خویلد سے*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال دو مہینہ دس دن کی عمر میں ام المؤمنین حضرت "خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا"سے نکاح کیا -
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مکہ کی ایک خوبصورت، حسین اور دولت مند عورت تھیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے مکہ کے بڑے بڑے سردار ورئیس نکاح کے خواہش مند تھے اور ان لوگوں نے نکاح کا پیغام بھی دیا تھالیکن ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سب کو منع کر دیا کیونکہ انکی رغبت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و صداقت کا چرچہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کا بول بالا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت کا ڈنکا بج رہا تھا لہذا بطور امتحان کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مال تجارت دے کر اپنے غلام میسرہ کے ہمراہ شام بھیجا، اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت، امانت، صداقت، حلم وبردباری اور صفات عالیہ کا ان کو کافی زیادہ تسلی بخش ثبوت ملا لہذا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے "نفیسہ بنت امیہ "کے ذریعہ اپنے نکاح کا پیغام بھیجا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی اطلاع اپنے بزرگوار، غمخوار عم محترم خواجہ ابوطالب کو دی، انہوں نے اس پیغام کو بخوشی قبول کیا اور خود ہی رؤساء وسرداران مکہ کو لے کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مکان تشریف لے گئے اور نبی اکرم صلی اللہ و حضرت خدیجہ کا نکاح پڑھایا-
*اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم*
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی اولاد ہوئیں سب کی سب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئیں سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جو ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے تھے -
*اسماء اولاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم* 
قاسم، زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ، عبداللہ، ابراہیم رضی اللہ عنہم وعنہن 
*بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر استغراق ومحویت کے عالم میں رزو بروز اضافہ ہوتا گیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو بھی پہاڑ کی شعب میں گزار دیتے، پھر آپ کی حالت یہ ہو گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا پینا بھی کم کر دیا، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر بہت کم جانے لگے، ستو و جو پر اکتفا کرنے لگے، بسااوقات توشہ ختم ہوجاتا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پہاڑوں کی شعب میں تلاش کر کے خود ہی پہنچا دیا کرتی تھیں، چنانچہ کچھ آثار وعلامتیں ہدایت و وحی کے ظاہر ہوئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس کی ہوئی تو حضرت جبرئیل علیہ السلام خدا کے حکم سے پہلی وحی اقرأ غار حرا میں لے کر آئے، بعدہ برابر وحی کی آمد ہوتی رہی جس میں وحدانیت، صفات باری تعالی کی تعلیم تھی، خدائے وحدہ لاشریک لہ کی طرف رجوع، شرک سے اجتناب اور شرک کے نقصانات بیان کیے گئے تھے -
*انک لعلی خلق عظیم*
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عظمت، شان و وقار اور مقام و مرتبہ کے اعتبار تمام انبیاء سے منفرد، جدا، و اعلی وارفع ہیں، باری تعالی نے خود اسکی گواہی " *انک لعلی خلق عظیم* " ( یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی اخلاق والے ہیں) ، بزبان خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں -
حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ عنہ نے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کیسے تھے؟ اماں عائیشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جوابا کہا کہ آپ نے قرآن نہیں پڑھا؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جی ہاں؛ پڑھا ہے، سن کر اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق قرآن ہے یعنی سراپا رشد و ہدایت، قرآن میں جس قدر اچھے اخلاق، قابل تعریف افعال کا ذکر ہے وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے 
*وفات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم* 
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس فانی دنیا میں تشریف لانا صرف خلق خدا کی ہدایت، رہنمائی وارشاد کے لئے تھا، خدا کے آخری پیغام، قطعی احکام کو بندوں تک پہنچانے کے لئے تھا، خدا کی حجت ودلالت اسکے بندوں پر تمام کرنے کے لئے تھا -
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل وبعد اس عالم فناء میں جو بھی آئے خواہ انبیاء ورسل کی جماعت ہو یا امت کی، یکے بعد دیگرے آئے تھے، آئیں گے اور جائیں گے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہ جانتے تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دنیا سے تشریف لے جائیں گے-
تاجدار مکہ ومدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قریب الوفات تمام انبیاء ورسل کی طرح یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اس دنیا کے خزانے کو پسند کریں یا خداوند قدوس کی ملاقات کو، چناچہ حجۃ الوداع سے واپسی کے "غدیر خم "پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس میں پورے صاف اور واضح طور پر اس بات کی خبر دی کہ شاید میرا رب اب مجھے جلدی بلا لیں -
الغرض جب وقت وصال محبوب آیا تو آپ کی بیماری میں اضافہ ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن سے اجازت چاہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں قیام فرمانے کی اور باری کے حساب سے گھومنا موقوف کر دیں - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے صحابی کے کندھوں کے سہارے اماں "عائشہ " رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھتا گیا حتی کہ نماز کی امامت کی ذمہ داری صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئی، الغرض بارہ ربیع الاول پیر کے دن وقت متعینہ آگیا اور آپ صلی اللہ اس دار فانی سے مالک حقیقی کے پاس جا ملے-
_پہنچے بلندی پر اپنے کمال سے
کھول دیا اندھیروں کو اپنے جمال سے
اچھی ہے آپ کی تمام عادتیں
درود ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد پر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad