تازہ ترین

پیر، 11 دسمبر، 2017

مولوی جائےتو جائے کہاں؟


مولوی جائےتو جائے کہاں؟ 
Image result for molvi cartoon
تحریر،شمس ربانی 
اگر کسی کی توند (پیٹ) باہر نکل آئے تو اس پر طرح طرح کے فقرہ کسے جانے لگتے ہیں، اور معاشرہ ایسے فرد کو بڑی بُری نگاہ سے دیکھتاہے،اور اگر کسی مولوی کی نکل آئے تو اس کا تو جینا دوبھر ہوجاتاہے طعنوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے، خدانخواستہ کسی مدرسہ کے مہتمم کی ہو تو پھر کیا کہنے جینا محال ۔۔ طعنہ زنی کرنےوالا طبقہ وہی ہوتاہے جو نفسیاتی طور پو مہلک مرض میں مبتلاہے محسوس ہوتاہے کہ ان لوگوں کا پیشہ ہی یہی ہو ۔مسئلہ صرف مولوی کے پیٹ ہی تک محدود نہیں، بلکہ اگر مولوی ذرا سی ترقی کرلے لوگوں کی آنکھ میں کانٹا بن کر چبھنے لگتاہے اور اسے عیب سے تعبیر کیا جاتاہے ۔کہ مولوی کے پاس عمدہ لباس کہاں سے آیا؟ نفیس گھر کیسے بنالیا؟ گاڑی کہاں سے آگئی؟ اور یہ لیپ ٹاپ کیوں ہے؟ اتنے مہنگے موبائیل کی مولوی کو کیا ضررورت؟ وغیرہ وغیرہ ۔اگر ان کا بس چلے مولوی کو شادی بھی نہ کرنے دیں، کہ مولوی اور شادی یہ کہاں جائز ہوسکتاہے، جیسا کہ آئے دن طرح طرح کے فتووں کی بھرمار ہے مولویوں پر شوسل کی دنیا پر ۔گویا مولوی ایک انوکھی مخلوق ہو جس کا دنیاوی ضروریات سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ ایک طبقہ تو یہی چاہتاہے کہ مولوی ایک راہب بن کر رہے نہ بولے نہ ہنسے نہ کودے نہ دوڑے بس تکلفات کا مرکز بن کر رہ جائے اور اگر کوئی مولوی ورزش شروع کردے بے حیائی کے طمغے سے نواز دیا جاتاہے،کہ مولوی اور جِم یہ کسیے روا ہوسکتاہے، آج کے دور میں مولوی ایسی مخلوق بن کر رہ گیاہے جو کچھ بھی کرلے نقطہ چیں ہر میدان میں پائیگا ۔ اگر کوئی سیاست میں قدم رنجا ہوجائے اس کے تو مخالفین کی قطار لگ جاتی ہے گویا جرم عظیم کا مرتکب ہوگیا ہو ۔۔کاروباری بن جائے اس میں بھی آفت، کہ مولوی بھلا بز نس مین کیسے ہوسکتا ہے؟ اسے تو کسی مسجد یامدرسہ کے گھونٹے سے بندھا ہوناچاہیے ۔ ان تمام الزامات، چیرہ دستیوں، اور طعنہ زنیوں کے باوجود مولوی کے صبر کا امتحان تو دیکھیے ۔۔!! کبھی خودکشی جیسے کریہ عمل کا مرتکب نہیں ہوا ۔ ان ظلم اور زیادتیوں کو سہتے ہوئے آپ کے بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے، حدیث سکھاتاہے، اسلامی تعلیمات سے روشناس کراتا ہے، تمہارے جنازے اور نکاح پڑھاتاہے، تمہارے بچوں کے اچھے اچھے اسلامی نام بتاتاہے ۔ان خدمات سے کبھی سرموانحراف نہیں کرتا ۔اور اس کے عوض کیا پاتا ہے چند ٹکے،،، جو سرمایہ داروں کی عیاشی میں بھی خرچ نہیں ہوپاتے کم رہ جاتے ہیں، اور مولوی اُسی سات، یا دس ہزار کی تنخواہ پر صبر وشکر کے ساتھ رات دن محنت میں لگا ہے۔جبکہ ہوناتو یہ چاہیے تھا آنکھوں میں سجایا جاتا، دل میں بسایا جاتا، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے، معاشرہ کا سب سے گندہ اور پلید فرد اگر کسی کو تصور کیاجاتاہے وہ ہے مولوی ۔کوئی عزت نہیں، کوئی وقار نہیں، کہیں عظمت نہیں، کہیں سر بلندی نہیں، جہاں تہاں رسوائیاں ہی رسوائیاں ہیں ۔ 
آخر معاشرہ کا یہ مظلوم ترین طبقہ جائے تو جائے کہاں؟؟؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad