تازہ ترین

پیر، 4 دسمبر، 2017

بابری مسجد کی شہادت .....ا من وانصاف کا قتل


بابری مسجد کی شہادت .....ا من وانصاف کا قتل
 
تحریر:امیر سندھی
قلمی نام:صحرائی درویش
کالم ٹائٹل:صدائے درویش

تاریخ میں کچھ ایام ایسے بھی ہیں، جنہیں بھلانا، ذہن سے نکالنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔ ہزار کوششیں کریں، یالاکھ جتن مگر وہ وحشت بھرے مناظر آنکھوں کے سامنے سربریت کا ننگا رقص کرتے نظر آتے ہیں ۔ انہیں میں سے ۶ دسمبر ہے، جسے ۲۵ سال کا عرصہ بیت چکاہے، اس وقت کے بچے جوان، جوان بوڑھے اور بوڑھے قبروں کوسدھار گئے، مگر وہ دن ابھی تک اسی طرح اداسیاں، سسکیاں، آہیں بے بسی اور بے حسی لیے حاضر ہوتاہے۔ پچیس سال قبل یہی دن تھا اور ہرطرف آہ و بکا کی صداؤں، دل خراش چیخوں سے ہند دہل گیاتھا، بکھرے ہوئے انسانی اعضاء سڑی ہوئی لاشوں اور جلے ہوئے انسانوں سے شہر کی فضائیں متعفن ہوگئی تھیں، گھروں اور دکانوں پر دوڑتے رولر اور بلڈوزر قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے، گاؤں ، دیہاتوں اور قصبوں سے اٹھتے دھوئیں کے مرغولے انسانیت کا منہ چڑا رہے تھے، حیوانیت عریاں ناچ رہی تھی، لاقانونیت کا عفریت سراپا رقص تھا۔ یہ سب ۶ دسمبر ؁۱۹۹۲ کو میرے پیارے ملک ہندوستان میں ہورہاتھا۔ مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ کو ملک دشمن عناصر نے شہید کردیا تھا، جی ہاں اللہ الجبار کے مقدس گھر کو گرایا گیاتھا۔ 
یہ وہی مسجد ہے جسے میر باقی نے ظہیر الدین بابر کے حکم پر یوپی کے ضلع فیض آباد کے مقام ایودھیا میں ؁۱۵۲۸ میں تعمیر کرایاتھا۔ واضح رہے یہ تعمیر ایک غیر آباد بنجر ٹیلے پر کی گئی تھی، بابر کی طرف نسبت سے یہ بابری مسجد کہلاتی ہے۔ یہ اسلامی فن تعمیر کی شاہکار اور نایاب مسجد تھی، جس پر تین گنبد تھے، درمیانی گنبد قدرے بڑا اور طرفین میں دونوں چھوٹے گنبد تھے، جن کی تعمیر میں چھوٹی اینٹوں کو استعمال کرکے اس پر چونے سے پلستر کیا گیا تھا، مسجد کی تعمیر پتھروں سے کی گئی تھی، چھت قدرے بلند، ہوا اور روشنی کے لیے بڑی جالی دار، خوبصورت کھڑکیاں اور صحن میں ایک کنواں تھا، مسجد حسن، دل کشی میں اپنی مثال آپ تھی،خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کی جانے والی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی کونے میں باآسانی سنا جاسکتاتھا۔۱۵۲۸ سے لیکر ؁۱۸۵۰ تک ہندوستان میں نہ کسی کا عقیدہ تھا نہ دعوی، کہ بابری مسجد جنم بھومی یا مندر توڑ کر بنائی گئی ہے، تین صدیوںتک کسی نے بھی آواز تک نہ اٹھائی اکبر جیسے لچک دار حکمراں بھی آئے، ہندؤوں میں کئی نام ور افراد بھی ہوئے، شیواجی، سورج مل، مرہٹہ۔ ان میں سے کسی نے بھی نہ دعوی کیا نہ مطالبہ نہ کوشش۔ حقیقت یہ ہے کہ رام کی پیدائش میں شدید اختلاف ہے اور تاریخ اور زمانہ بھی مشتبہ ہے۔ بابری مسجد، رام جنم بھومی کا قضیہ انگریزوں کی دین ہے۔۱۸۵۷ کا بدلہ لینے کے لیے پہلے انگریز نے ہنومان گڑھی مسجد کوشہادت کے بعد ہندوﺅں کے حوالے کیا جب مسلمانوں نے اسے بھلا دیا تو پھر گورے کافر نے ایک منظم شازش کے تحت ؁۱۸۷۱ میں بابری مسجد کا مسئلہ کھڑا کیا۔ حالانکہ ہندو مسجد کے مقابل پڑی صدہا سال سے ویران جگہ کو جنم استھان مانتے تھے۔ ؁۱۸۶۳ سے باقاعدہ پوجا پاٹ جاری تھی بعد میں اسے رام چبوترے کا نام سے جانا جانے لگا تھا۔ ؁۱۸۸۵ میں مہنت رگھویرداس نے عدالت سے درخواست کی تھی، جس میں مسجد پر دعوی نہیں کیا گیا تھا بلکہ مسجد کو تسلیم کرتے ہوئے عرض کیا گیا تھا کہ چبوترے کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے، مگر عدالت نے ۲۴ دسمبر کو یہ درخواست مسترد کردی، کہتے ہیں کہ یہ جگہ بھی وقف کی تھی مگر مسلمانوں نے ان کو دے دی تھی۔ دسمبر ؁۱۹۴۹ کی ۲۲ و ۲۳ کے درمیانی اندھیری رات میں فرقہ پرستوں نے مسجد میں زبردستی گھس کر، غیر قانونی اللہ کے گھر کے منبر پر مورتیاں رکھ دیں، دوسرے روز مسجد کے صدر دروازے پر تالا جڑ دیا گیا۔ متعصب سیاست دانوں نے اس مسئلے کو طول دیکر سیاسی روٹیاں سینکنا شروع کیا ، ؁۱۹۸۴ میں بی جے پی نے نعرہ لگایا کہ "مسجد کی جگہ ہی رام مندر بنے گا" جس کا فوری اور حد سے بھی زیادہ فائدہ الیکش میں ہوا، اسی طرز پر سیاست آج تک جاری ہے۔یکم فروری ؁۱۹۸۶ میں ایک ایسے شخص کی عرضی پر جس کا اس زمین پر قبضے سے کوئی سروکار نہیں تھا، فیض آباد کے ڈسٹرکٹ جج نے بابری مسجد پر لگے تالے کھولنے کا حکم دے دیا۔ پوجا اور درشن کی کھلی چھوٹ دے دی۔ مسلمانوں کی بات تک سننے سے انکار کردیا، اس پر فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ؁۱۹۹۰ میں مسجد کے گنبد پر چڑھ گئے اور مسجد کو ڈھانے لگے، مگر وزیر اعلی ملائم سنگھ کے سخت اقدامات کے تحت ان سولہ افراد پر گولی چلادی گئی، یوں مسجد محفوظ رہی۔
ایڈوانی کی رتھ یاترا ایودھیا پہنچی شیو سینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد. اور آر ایس ایس کے ڈیڑھ لاکھ کار سیوک ۶ دسمبر کوساڑھے گیارہ بجے مسجد پر حملہ آور ہوئے آئین، قانون سے کھیلتے ہوئے صرف پانچ گھنٹوں میں ۴۶۵ سال پرانی مسجد کو زمین بوس کردیا۔ یہ صرف مسجد کا گرنا نہیں تھا بلکہ بہت کچھ ہم نے کھویا جسے بیان کرنا بس میں نہیں۔ یہ زخم آج بھی مسلمانوں کے سینے میں ہراہے، اللہ کے مقدس گھر کو ناپاک، غلیظ اور بدبودار لوگوں نے توڑا۔پیاری مسجد کے اصل دشمن وہ متعصب فرقہ پرست عسکریت پسند جماعتوں کے نوجوان ہیں۔ ان کو اکسانے اور تخریبی کوششوں پر ڈھیل دینے والے انتظامیہ بھی برابر کے شریک ہیں، کانگریس کی سیکیولری کے تسبیح خواہ بتائیں کہ مسجد میں ناجائز مورتیاں رکھی گئیں تب کس کی حکومت تھی? جب مسجد کا تالا کھول کر پوجا ودرشن کی اجازت دی گئی تب کس پارٹی کی حکومت تھی? ہم سب کی پیاری مسجد کو شہید کیا گیا تب کون منصوبہ ساز تھا? کون زمامِ اقتدار پر قابض تھا? اس حادثے پر مسلمان سراپا احتجاج بن اٹھے، ٹوٹے ہوئے دلوں کو سہارا دینے، زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے پولیس اور حکومت نمک پاشی میں لگ گئی۔ جو گولیاں بابری مسجد کے قاتلوں پر برسنی چاہیے تھی وہ نہتے مسلمانوں کا سینہ چیرنے لگی، بمبئی، سورت، بھروچ، بھوپال اور جےپور میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ پولیس بجرنگ دل کے خبیثوں، وشوا ہندو پریشد کے ہیجڑوں اور آر ایس ایس کے گنڈوں کے ساتھ مسلمانوں پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی۔ کھربوں کے مالی نقصان کے علاوہ سینکڑوں گھر اور دکانیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، یہ ہند کی معیشت پر شدید ضربیں تھی۔ ان ماؤں اور بہنوں کی عصمت سے کھیلا گیا جن کے تقدس وحیا کی قسمیں کھائی جاسکتی تھی۔ مسلمان عورتوں کو عریاں، برہنہ کرکے جلایا گیا۔ آہ شہدائے بابری مسجد، مظلومینِ بابری مسجد۔ یہ سب کانگریس کے ناک کے نیچے ہوتا رہا، وہ اپنے منافقانہ خول میں مست رہی، بلکہ یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ یہ سب کانگریس نے ہی کروایا وہ پس پردہ شریک تھی۔ مسجد کی شہادت کے بعد چالیس گھنٹے کا وقت دہشتگردوں کو پہلے سے طے منصوبے کے تحت دیا گیا کہ وہ عارضی مندر اور تمام کام کرلیں۔ہم یقین رکھتے ہیں کہ مسجد کسی غصب شدہ زمین یا مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی، تاریخ گواہ ہے اس پر۔ یہ ایک شرعی مسجد تھی، ہے اور رہے گی، مولانا رابع صاحب حسنی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: ۔"(بابری مسجد) شرعا مسجد ہےاور قیامت تک مسجد رہے گی۔ عمارت گرادینے سے یاناجائز طور پر مورتیوں کو رکھ دینے سے اور جبر کے ساتھ پوجا جاری کردینے سے مسجد کا مسجد ہونا ختم نہیں ہوتا۔ کسی مسجد میں ایک مدت تک خواہ یہ مدت کتنی کیوں نہ ہو، نماز کا نہ پڑھا جانا مسجد کی شرعی حیثیت کو ختم نہیں کرتا۔ کوئی بھی مسلمان کسی بھی حال میں کسی مسجد کو کلی یا جزی مندر بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا"آگے لکھتے ہیں کہ مسجد کا انہدام مسجد کے تقدس کو مجروح کرتاہے اور یہ اسلام کے مذہبی شعائر کی توہین ہے۔بابری مسجد کا مسئلہ ابھی بھی سنگین ہے، مسجد سے دست برداری کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عدلیہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی نہ کہ آستھا واندھی عقیدت پر۔ ہم مسجد کی حفاظت نہ کرسکے اس پر اللہ تعالی سے استغفار، معافی اور مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اب ہم تیرے گھر کی تعمیر کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے، یہ اللہ کا گھر اور تمام مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ کسی ایک مسلک یافرقے کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ مفاد پرستوں کو چھوڑ کر باقی تمام امت سے دست بستہ التجاء ہے کہ اس کے حل کے لیے پر امن قانون اور فطرتِ دین کے دائرے میں رہ کر جہدِ مسلسل جاری رکھیں۔ ان شاءاللہ ایک دن پھر اذانیں گونجے گیں، تکبیریں کڑکے گیں، اور اللہ اکبر کی صدائیں برسے گیں۔ 
ان شاءاللہ، ان شاءاللہ، ان شاءاللہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad