تازہ ترین

جمعرات، 23 جنوری، 2020

ایک تصویر احتجاج کے البم سے

 سینے سے چمٹا معصوم بچہ، ایک ہاتھ میں مائک اور دوسرے ہاتھ میں لٹکتی دودھ کی شیشی ہے، زبان پر آزادی آزادی ہے اور شہادت کی انگلیاں بار بار آسمان کی طرف اٹھ رہی ہیں۔۔۔ ظلم و جبر کی سلطنت کو للکارتی یہ ایک بہادر مسلم ماں کی تصویر ہے جو لکھنؤ کے تاریخی گھنٹہ گھر میں ہورے شاہینی احتجاج کا حصہ ہے، ایک جذباتی آواز کے ساتھ مسلسل نعرے لگارہی ہے اور احتجاجیوں میں نئی روح پھونک رہی ہے، ایک ایسی آواز جس میں جذبات سنجیدگی، متانت، غیرت،  ہمت اور عزم و استقلال کے تمام رنگ ایک ساتھ۔شامل ہیں ، اس ماں کی گرجتی آواز میں سرد رگوں میں بھی بجلیاں دوڑا دینے کی طاقت ہے اور اس کے منھ سے نکلنے والے آزادی کے نعرے مردہ دلوں میں بھی جذبات کا جوالا دہکا دیتے ہیں۔۔۔۔۔ 

 یہ لکھنو کا اپنا شاہین باغ ہے جو اس تاریخی شھر کے ایک تاریخی مقام پر تعمیر ہوا ہے ۔ ویڈیو یا تصویر میں یہ تاریخی منظر  دیکھئے اور مجھے بتائیے کہ کیا یہ اس بات کی زندہ شہادت نہیں ہے کہ جہاں ایمان کی آخری چنگاری بھی موجود ہوگی وہاں باطل طاقتیں، خواہ کتنی ہی خوفناک ہوں، ہمارے دلوں کو کبھی خوف زدہ نہیں کر سکتیں؟  پھر مودی و امت کی کیا اوقات؟ 

    یہ ہندوستان میں سنگھی فسطائیت اور  مذہبی تعصب و نسل پرستی پر مبنی اس کے تازہ سیاہ قوانین کے خلاف چل رہے ملک گیر احتجاج کی ایک تصویر ہے جس کی ایک جھلک میں نے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواہ وہ جامعہ ہو، یا شاہین باغ یا لکھنؤ کا گھنٹہ گھر ، پندوستانی عرب بہاریہ کی ایسی سیکڑوں تصویریں ہیں جنھیں محسوس تو کیا جاسکتا ہے مگر  لفظوں کی قید میں لانا ممکن نہیں۔۔۔۔ مجھے یا آپ کو ہی نہیں، جذبات کو جھنجھوڑنے والے یہ انوکھے منظر اور ناقابل شکست احتجاج کی یہ تصویریں مستقبل کے کسی بھی مورخ کی آنکھیں اشکبار کرنے کے لیئے کافی ہیں۔
موقع احتجاج: گھنٹہ گھر، لکھنؤ،  یوپی۔
ایاز احمد اصلاحی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad