تازہ ترین

بدھ، 5 فروری، 2020

آہ !!! ناؤ بھنور میں ہے اور ناخدا کوئی نہیں

تحریر: وزیر احمد مصباحی (بانکا)شعبہ تحقیق : جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ

صاحب! مکتب کے وہ ایام بھی کیا خوب تھے، جب میں پہلی فارسی، منہاج العربیہ اور تسہیل المصادر جیسے بنیادی کتابوں کا ایک ادنی سا طالب علم ہوا کرتا تھا. زندگی کے وہ فرخندہ فال شام بھی کتنے مستانہ وار تھے، جس کے دامن سے لپٹ کر میں معلم من کی بارگاہ بافیض میں املا خوانی کیا کرتا تھا،ایک دن کی بات ہے. معلم صاحب املا کرانے کے لئے کوئی دو چند صفحات پر مشتمل دیدہ زیب کتابچہ ساتھ لے کر آئے تھے. وہ دوران املا آئندہ چند سطریں بھی لکھا گیے کہ:"جو قوم اپنی مقصدیت، ہدف اور نصب العین سے ہٹ کر غیر ضروری امور میں اپنی صلاحیت بگھارنے لگ جائے ،محض ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے، انگشت نمائی کرنے میں لگ جائے اور دوسروں پر طعن و تشنیع ہی کو مقصد اولیں درجہ دے دے تو پھر وہ قوم شور و غوغا کے بھنور میں پھنس کر صفحہ ہستی سے ایسے گمنام ہو جاتی ہے کہ پھر لاکھ جتن اور تلاش بسیار کے باوجود بھی اس کا کوئی سراغ کبھی نہیں مل سکتا ہے"محترم قارئین! سچ پوچھیں تو یہ متذکرہ چند سطریں مجھے بہت دنوں تک ہضم ہی نہیں ہو پائی تھی، کہ آخر کوئی قوم اپنے اعلی مقصد اور دلکش نصب العین سے انحراف کیسے کر سکتی ہے. یہ سوال ذہنی دریچے میں واقعی بار بار کچوکے لگاتا رہا کہ آخر کیوں کر کوئی ہستی مسکراتی قوم اسی شئی سے (جس کی وجہ سے اسے زندگی کی رمق اور کیف و مستی سے ڈھلی دلفریبی و دلکشی بہاریں ہاتھ لگتی ہو) دامن دل کھینچ کر اپنے منہ کو اس زاویہ پر موڑ لے کہ پھر وہ کبھی اس کی طرف پلٹ کر نہارنا بھی گوارا نہ کرے. واقعی اس چند فقرے پر سوچتا اور تنہائی کے عالم میں تو خوب خوب سوچتا. استاذ من کی عدالت میں اس سے متعلق تو میں نے کئی سوالات بھی داخل کیے اور اپنے خلجان کی دفع چاہی، مگر افسوس کہ ذہنی مقبرے میں ایک نہ سمائی...........خیر زندگی کے صبح و مسا گردش ایام کے تھپیڑوں سے بچ بچا کر لیل و نہار کی دامن میں جوان ہوتے رہے. یہاں تک کہ آج مجھے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی شاہین صفت طلبہ کی جھرمٹ میں رہ کر دورہ حدیث کا طالب علم بننے کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا. اب تو فضل مولی سے کچھ ایسے دوست بھی میسر آ گیے ہیں جو اپنی علمی استعداد کی گنج گراں مایہ کے ساتھ ساتھ سواد اعظم کے ما بین جاری سرگرمیوں پر بھی اچھی خاصی معلومات رکھتے ہیں. درسگاہی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد جب کبھی فرصت کے لمحات میسر ہوتے ہیں تو علمی مذاکرہ کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے اندرونی و خارجی حالات سے بھی واقفیت حاصل ہو جایا کرتی ہے. لیکن باتوں ہی باتوں میں جب کبھی جماعت حقہ کی گود میں پاؤں پسارے آپسی اختلاف و انتشار کی بات آتی ہے تو واقعی کافی قلق ہوتا ہے کہ یا اللہ!!! آج ہم جماعت اہل سنت اپنے اعلی نصب العین سے کیوں دور ہوتے چلے جا رہے ہیں. آخر ہماری پھلتی ،پھولتی اور پھیلتی جماعت کو تخریب کاریوں نے اس قدر اپنے چپیٹ میں کب سے لے لیا ہے؟ آخر ہماری نگاہوں پر فروعیت کا وہ گہرا رنگ کیوں چڑھ گیا کہ ہم دوسروں کے لیے خارج از اسلام کی سرٹیفیکیٹ عطا کرتے نہیں تھکتے،ہو سکتا ہے، کوئی خیر اندیش و بہی خواہ مجھے یہ کہ کر خاموش کرنا چاہے کہ "عزیزم ابھی تو آپ کا دور طالب علمی کا دور ہے، اس لیے اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ ان ساری باتوں میں نہ پڑ کر اپنی تعلیمی سفر پر دھیان دیتے"تو یقیناً ایسے مشفقوں کا یہ عمدہ مشورہ میرے سر آنکھوں پر ہے، لیکن کیا بھی کیا جائے؟؟؟ کب تک اپنی بربادیوں کے نظارے بچشم خود تکتا رہوں؟یہ خاک دان گیتی ہی کیا؟ آسمانوں پر بھی تو ہماری ناکامیوں کے چرچے ہیں. ہماری قسمت کی بکھری لکیروں کو تو آج یہ چشم فلک بھی جھانک جھانک کر دیکھ رہی ہے کہ شائد ہم بیدار ہو جائیں، لیکن ہم ہیں کہ کروٹ بدلنے تک کو اپنی سبب توہین جان رہے ہیں. جی! مجھے تو لگتا ہے کہ یہی وہ مذکورہ حالات ہیں جو آج میری گزشتہ نو سالہ قدیم خلجان کی عمدہ تفہیم پیش کر رہے ہیں، کہ جناب دیکھ! تو نے برسوں پہلے جس معمہ کی عقدہ کشائی چاہی تھی، اور گاہے بگاہے جس سوال کو تم اکثر اعلی عدالتوں میں رکھ چکے ہوں، آج اس کی عمدہ نقاب کشائی خود تمھارے اپنے حالات کر رہے ہیں. ہاں! آپ کی نگری میں تو ایسے بھی لوگ بستے ہیں جو دوسروں پر انگشت نمائی ہی کو اپنی ذریں خدمات گردانتے ہیں. جی! کچھ ایسے بھی ابن الوقت ہیں جو ہر آن کسی نہ کسی چولھے پر اپنے توے کو اس قدر گرم کیے رہتے ہیں کہ مفاد کی روٹی بغیر کسی اثر سوخت کے دستیاب ہو جائے. ہر ایک کے پاس تو اپنی الگ الگ ٹولی بھی ہے الگ تھلگ خانقاہیں بھی. مریدوں کی ایک جم غفیر بھی ہیں جو اپنے پیر کے ایک ادنی اشارے پر مر مٹنے کے لیے تیار ہیں، اگرچہ پیر صاحب... .... .. .. لیکن پھر بھی خدا کے فضل سے ابھی چند خانقاہیں ایسی ہیں جو اس مطلب پرستی کے دور میں بھی دین و سنیت کا چراغ لیے ہر آن آگے ہی بڑھتی جا رہی ہیں. مگر افسوس کہ وہ انگلیوں کے پوروں پر گنے جا سکتے ہیں،یقین نہیں آتا تو آپ اپنے سماج و معاشرہ پر بغرض سروے ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں یا پھر ہو سکے تو مزید طمانیت کے لیے چند قدم آگے بڑھیں اور فیسبک و واٹشپ ایپ وغیرہ دیگر جدید ذرائع ابلاغ کی خاک چھانیں، حقیقتیں خود بخود عیاں ہوتی چلی جائیں گی اور سارے سیاہ و سفید فارمولے آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہو جائیں گے. سچ پوچھیں تو آج تخریب پرستی نے ایسا گہرا وار کیا ہے کہ ہماری صفوں سے تعمیر کا حسن وجود ہی غائب ہے. جی! مزاج تو یہ بن گیا ہے کہ ہم شریعت کو اسی وقت خاطر میں لائیں گے جب وہ ہماری طبیعت کے رنگ سے بھی رنگتی دکھائی دے،ابھی حال ہی کی بات ہے کہ میں مادر علمی جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ایک روز  طلبہ کی جھرمٹ میں بیٹھا محقق مسائل جدیدہ، سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی مد ظلہ العالی کی درسگاہ با فیض میں بخاری شریف کی ورق گردانی کر رہا تھا. دوران درس باتوں ہی باتوں میں فقہ و فتاوی کی بات چل پڑی. حضرت فرمانے لگے :"عزیز طلبہ!!! دیکھیے آج کا یہ دور مطلب پرستی کا دور بن چکا ہے. یہ قوم حق سننا ہی نہیں چاہتی. بس وہ اسی پر کان دھرتی اور اسی سے دل لگاتی ہے جو اس کی طبیعت اور مزاج عالی سے میل کھاتی ہو". پھر لگے ہاتھ بطور مثالایک واقعہ سے بھی روشناس کرایا کہ :"ایک دفعہ ایک عالم صاحب میرے پاس ایسا فقہی مسئلہ لے کر آئے جس کا جواب ماضی قریب کی ایک شش جہات شخصیت فقیہ ملت مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ دے چکے ہیں. وہ صاحب کہنے لگے کہ آپ اس مسئلہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟؟؟ مفتی صاحب قبلہ کہتے ہیں کہ اس پر میں نے عرض کیا کہ :اپنے بزرگوں کے خلاف میں نہیں جا سکتا، جو وہ فرما چکے ہیں وہی حق ہے، اور پھر مستزاد یہ کہ فاضل بریلوی الشاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی فقہی ذخیرہ فتاوی رضویہ شریف میں بھی ایسا ہی فرمایا ہیں ". حضرت مفتی صاحب قبلہ فرماتے ہیں کہ اس پر وہ شخص ایسا برہم ہوا کہ آج تک وہ مجھ سے سلام تک نہیں کرتا ہے اور اگر اتفاق سے کہیں راہ چلتے دیکھ بھی لیتا ہے تو پھر وہ دور ہی سے اپنا رخ موڑ لیتا ہے چہ جائے کہ پاس آئے"قارئین! واقعی اگر مثال ھذا کی روشنی میں نگاہ انصاف کا دامن تھامیں اور حالات کے نبض پر ہاتھ رکھ کر تہ تک پہنچنے کی کوشش کریں تو شائد معلوم ہو جائے کہ آج ہماری روش محاورہ" انظر الی ما قال و لا تنظر الى من قال "سے دس پرسینٹ بھی میل نہیں کھاتی. ہم تو دوسروں کی بہتری کے لئے آئے تھے نا، پھر بھی ہم نے اپنے انداز مصلحانہ کو وہ جارحانہ رنگ کیوں فراہم کر دیا کہ غیر تو غیر خود اپنے بھی ہم سے کوسوں دور ہوتے چلے گئے. آخر یہ فکری زوال ادھر ہی کیوں پاؤں پھیلائے ہوا ہے کہ آج ایک پڑھا لکھا انسان بھی کسی ایسے شخص ( جو قرآن و حدیث سے میل کھاتا اپنے بزرگوں کے فتوی کی محض تصدیق کر دے) اس گھناؤنی نوعیت کا سلوک کیا جائے کہ پھر کبھی سلام تک نہ کیا جائے. جی اس جسارت پر صد معذرت...... آپ فیسبک یونیورسٹی ہی میں دیکھ لیں کہ ہم ہر آئے دن دوسروں پر طعن و تشنیع و انگشت نمائی کے کتنے تیر برساتے ہیں اور اس کے بالمقابل اخوت و بھائی چارگی، پیار و محبت، تعمیری کاموں کی جانب رہنمائی اور جماعتی مفاد کے لئے عمدہ طریقہ کار کی دودھیا روشنی سے کتنوں کو سرفراز کیا؟ آخر قول لین کی وہ خوبصورت پونجی کہاں کھو گئی جو کبھی ہمارا طرہ امتیاز رہا کرتا تھا؟اے میرے قائدین! اے ہماری جماعت کے بر سر آوردہ ہستیاں! اے ہم سے بڑے، بوڑھے اور جانکار اشخاص! اے معلوماتی ذہنوں کو کائناتی رنگ عطا کرنے والے جہاں دیدہ افراد! اے سلم و سلامتی کے راگ الاپنے والی ذات بابرکات!!! آخر کب تک ہم آپسی خانہ جنگی کے شکار رہیں گے. دوسروں پر اپنی ناپسندیدگی و کراہت کا مہرہ کب تک ڈالتے رہیں گے؟ خدا کے واسطے! ایسے پرفتن دور میں جب کہ ہر ایک جماعت اپنے آپ کو حق و صداقت کا پاسبان بتا رہی ہو، مل بیٹھ کر کوئی ایسی سبیل نکالیں کہ ہم سادہ دل بندے منزل مقصود تک بآسانی رسائی پا سکیں. قبل اس کے کہ یہ قوم مزید انتشار کے گہرے زخموں سے کراہ کراہ کر اپنی موت آپ مر جائے، ایک پلیٹ فارم کے سہارے آپ کچھ ایسی حکمت عملی اختیار کر جائیں جو اس کی غمزدہ سسکیوں کو فرحت و انبساط کی پر کیف صداؤں سے تبدیل کر سکیں. ہو سکے تو چند برساتی حشرات الارض کا بھی انتظام اور جماعتی بائیکاٹ کرتے چلیں جائیں، تا کہ ان کی فتنہ سامانیوں سے ہمارا سماج و معاشرہ اورمزید تعفن زدہ ہونے سے بچ جائیں،ہاں! ہو سکتا ہے کوئی صاحب یہ کہے کہ :"جناب یہاں رونے دھونے سے کچھ ہونے والا نہیں،اس طرح مگرمچھ کے آنسو ہم نے بہت دیکھے ہیں، اور سن! اس طرح دوسروں پر عریضہ کے روپ میں نصیحت کے بادل مت برسائیے، ذرا خود میدان عمل کی پر خوار شاہراہوں کا مقابلہ کیجیے تو دیکھیں، اور ہاں الفاظ کی بازیگری سے دوسروں پر اوندھے سیدھے جملوں کی بمباری ہرگز نہ کیجیے".تو ایسے لوگوں سے بصد احترام عرض ہے کہ اے میرے معترضین!!! کروں بھی تو کیا کروں؟ یہ محض میری ذاتی نہیں بلکہ بھولے بھالے ان سادہ دل عوام الناس کی دلی پکار ہے جو جماعتی اختلافات سے تو بلکل ہی جاہل تھے. یہ کوئی بناؤٹی آنسو اور فرضی بمباری نہیں ہے، بلکہ یہ تو کسی زخم خوردہ دل کی لڑکھڑاتی آواز ہے. یہ فتنہ گران فیسبکی مو لویوں ہی کی دین ہے کہ آج وہ بھی ہماری آپسی خانہ جنگی سے، ہم سےکہیں زیادہ واقف ہیں. وہ الگ الگ ٹولیوں کا انتخاب کر چکے ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر ایک دوسرے کے خاطر نفرت و حمایت کی محفلیں جمائے بیٹھے ہیں.
         اس لیے اے عظیم علمی شخصیتیں!!! خدا کے واسطے؛ زمام قیادت کو سنبھالہ دیں،نئی دستور اساسی کو وجود بخشیں اور بیچ بھنور میں ہچکولے کھاتی جماعتی کشتی کو کسی ساحل سمندر سے جا لگائیں کہ؛ اللہ کریم آپ کو کل بروزِ قیامت اس فعل عظیم پر ضرور ضرور اجر جزیل سے ہم کنار فرمائے گا. بس اسی امید پر کہ-
اب قوم کے بیڑے کا خدا ہی حافظ
ناؤ بھنور میں ہے اور ناخدا کوئی نہیں

(اللہ آپ کا اقبال بلند کرے، آمین ثم آمین)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad