تازہ ترین

پیر، 8 جون، 2020

اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا؟

ازقلم-----انعام الرحمن اعظمی
خادم دارالعلوم تحفیظ القرآن سکھٹی مبارک پور

احقر اپنی زندگی کے 22/سالہ عمر مکمل کرنے کو ہے جس میں بچپن کے 9/10سال تو ایسے گزرے کہ اس میں عقل و شعور کا فقدان تھا، لیکن جب سے عقل و شعور پیداہوا اس وقت سے آج تک نہ جانے کیسے کیسے حالات دیکھنے اورسننے کوملے اور نہ معلوم اور کتنے حوادث سے سابقہ پڑے گا،
لیکن جب بھی ماضی کی تاریخ پڑھنے کا موقع ملا تو بے ساختہ زبان سے یہ جملے نکل پڑے کہ ( اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا)
کیوں کہ ہندوستان کا ماضی مرور ایام کے ساتھ ساتھ حوادث وواقعات سے بھرا پڑاہے اگر واقعی زمانہ گزشتہ کے حالات قلم بند کیے جائیں تو اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا،
آج کی موجودہ صورتحال دیکھ کر یہ بات بار بار ذہن و دماغ میں گردش کرتی ہیں کہ کیا آزادی ھند کی قربانیاں ہماری حب الوطنی کے لئے کافی نہیں تھیں؟
کیا ہمارے اسلاف کی قربانیاں آنے والی نسلوں کے لیے کافی نہیں تھیں؟
اگر تھیں تو آج پھر ہمیں کیوں دوسرے درجے کاشہری بنایاجارہاہے؟
کیا وطن عزیز میں مسلمان ہونا ہمارے لئے جرم کی بات ہے؟
اگر نہیں تو پھر کیوں کر ہمیں شکوک وشبہات کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے؟
اگر تاریخ کے اوراق کامطالعہ کیا جائے تو یہ اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ اگر آزادی ھند کی تحریک میں مسلمانوں نے بالخصوص علماء کرام نے حصہ نہ لیا ہوتا تو آج بھی ملک غلامی کی زنجیروں سے آزاد نہ ہوتا،
لیکن قربان جاؤں اسلاف کی قربانیوں پر کہ انہوں نے سب کچھ قربان کر کے اس ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا جو صدیوں پر مشتمل ایک لمبی تاریخ ہے جس کو مؤرخین نے بڑی امانت اور صداقت کے ساتھ روم کیاہے جس کا مختصر جائزہ پیش کرنا چاہونگا۔
میرے ناقص علم کے مطابق سب سے پہلے جو معرکہ جہاد ہوا وہ جون 1757/ء  میسور میں سراج الدولہ کی قیادت میں عمل میں آیا، آخر کار اس کے وزیر میر جعفر کی غداری کی وجہ سے سراج الدولہ کو شکست ہوئی، 
اس کے بعد دوسرا معرکہ 1780/ء میں شروع ہوا جو 1784/ء تک جاری رہا، اس جنگ میں معاملہ مساویانہ رہا اور آخر میں چند شرائط طے پائی، اسی درمیان میں حیدر علی رحمہ اللہ کا 1782/ء میں انتقال ہوگیا اور ان کے جانشین  ان کے جانباز بیٹے سلطان ٹیپو  ہوۓ،
اس بعد کے تیسری مرتبہ 1205/ھ مطابق 1790/ء میں انگریزوں اور میسور کی سلطنت خداداد سلطان ٹیپو کے درمیان زبردست معرکہ ہوا لیکن اس میں بھی چند وجوہ کی وجہ سے صلح مقدر بن گئی
بالآخر فیصلہ کن معرکہ 4/مئ 1799/ء کا تھا یہ وہ دن تھا جس میں وزیر خاص میر صادق کی غداری کی وجہ سے سلطان ٹیپو رحمہ اللہ کو شہید کردیا گیا اور  انگریز نے یہ اعلان کیا 

آج سے ہندوستان ہمارا

کیوں کہ سلطان ٹیپو رحمہ اللہ کو شہید کرنے کے بعد انگریز یہ سمجھ رہا تھا کہ اب یہ ملک ہمارا لیکن ان کی شہادت کے بعد سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ کے ساتھیوں نے میدان کارزار کو سنبھالا اور وہ پاک نفوس بھی شہید ہوگئے جو عالم انسانیت کے لیے رونق و زینت اور مسلمانوں کے لیے شرف و عزت اور خیر و برکت کے باعث تھے،
مردانگی و جواں مردی، پاگیزگی و پاک بازی، تقدس و تقویٰ، اتباع سنت و شریعت اور دینی حمیت و شجاعت کے وہ عطر تھے ، خداجانے کتنے باغوں کے پھولوں سے بنایاگیاتھا اور انسانیت اور اسلام کے باغ کا جیسا "عطر مجموعہ" صدیوں سے تیار نہیں ہواتھاجو ساری دنیاکو معطر کرنے کے لیے کافی تھا۔
بالآخر 24/ذی قعدہ 1246ھ مطابق 31/مئی 1831/ء کو بالاکوٹ کی مٹی میں مل کر رہ گیا-
گویا مسلمانوں کی نئی تاریخ بنتے بنتے رک گئی اور شرعی حکومت ایک عرصہ تک کے لیے خواب تعبیر ہوگئی، 
نیز بالاکوٹ کی زمین اس پاک خون سے لالہ زار اور اس گنج شہیداں سے گلزار بنی، جن کے اخلاص و للہیت، جن کی بلند ہمتی و استقامت، جن کی جرأت و ہمت اور جن کے جذبۂ جہاد و شوق شہادت کی نظیر پچھلی صدیوں میں ملنی مشکل ہے، بالاکوٹ کی سنگلاخ و ناہموار زمین پر چلنے والے بے خبر مسافر کو کیا معلوم کہ یہ سر زمین کن عشاق کا مدفن اور اسلام کی کس متاع گراں مایہ کا مخزن ہے،

یہ بلبلوں کا صبا مشہد مقدس ہے

قدم سنبھال کے رکھیو یہ تیرا باغ نہیں


اس کے علاوہ 1857/ء میں صرف دہلی میں 33/ہزار علماء کو شہید کیا گیا اور 1863/ء سے 1867/ء تک چودہ ہزار علماء کرام کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تھا،
یہ اسلاف کی قربانیوں کی مختصر تاریخ ہے۔
لیکن افسوس کہ ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں سے واقف نہیں ہیں اگر کچھ لوگ واقف ہیں بھی تو وہ صرف 1857/ء کے کچھ حالات سے یا 1857/ء سے 1947/ء تک کے درمیانی احوال سے واقف ہیں،
 ورنہ 1857/ء سے پہلے کے حالات سے بہت کم لوگ واقف ہیں، بالخصوص  نسل نو تو آزادی ہند کی تاریخ سے مکمل طور پر ناآشنا ہے،  اس سے کہیں زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے نسل نو کو اس کی طرف بالکل توجہ نہیں دلائی، 
آج نسل نو کا اکثر حصہ ایک ایسے ڈرامہ کو دیکھنے میں مشغول ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں محض ایک واقعہ کو ڈرامہ کی شکل دے دیا گیا ہے اور نسل نو بہت دل چسپی سے اس کو دیکھ رہی ہے اور لوگوں کی زبان پر یہ جملہ ہے کہ اس کو دیکھنے سے شوق شہادت یا جذبہ جہاد پیدا ہوگا،
میں کہتا ہوں کہ اگر نسل نو اس کو چھوڑ کر آزادی وطن کی داستان پڑھ لیں تو موجودہ حالات سے لڑنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہوگا،
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان حالات میں بھی ہم اپنے کو محفوظ سمجھ رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بار پھر آزادی وطن کی تاریخ دہرانے کی ضرورت ہے اور اسلاف کے ذریعے دی گئی قربانیوں کو زندہ کرنے اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ملک کو انگریزوں کی چھوڑی ہوئی اولادوں سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے،
جیسا کہ اس پرفتن حالات میں جامعہ ملیہ کے ہونہار طالب علموں نے دستور بچاؤ تحریک کو لیکر صفحہ تاریخ میں ایک طویل احتجاج درج کرایا، اگر دیکھا جائے تو یہ حضرت شیخ الہند کی روحانی اولاد ہیں جنہوں نے اپنے اسلاف کی یاد گار کو تازہ کردیا لیکن جس طرح آزادی ہند کے وقت صدائے احتجاج بلند کرنے کے جرم میں انہیں قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑاتھا بلکل اسی طرح آج  حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی اولادوں کو دستور بچاؤ تحریک کے جرم میں انگریزوں کی چھوڑی ہوئی اولادوں نے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرنا شروع کردیا ہے، 
موصولہ اطلاعات کے مطابق اب 4/ہزار سے زائد افراد کو قید کیا جاچکا ہے، 
نیز آج  کی موجودہ صورتحال اور حکومت ہند کی طرف سے مسلسل مسلمانوں کو نشانہ بناۓ جانے پر یہی  بات بار بار ذہن میں گردش کرتی ہے کہ"اے خاک وطن" کیا ہمارے اسلاف کی قربانیاں اس لائق نہیں تھیں کہ آنے والی نسلوں کا قرض ادا ہوجائے، اگر ان کی قربانیوں سے ہمارا قرض ادا نہیں   ہوا ہے تو کوئی بات نہیں، ایک مرتبہ پھر ہم اپنے مدارس و مکاتب، مساجد واپنے تشخص کی حفاظت اور ملک کو فرقہ پرستوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے اپنی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں لیکن ملک میں کسی ایسے قانون اور ضابطوں کو نافذ نہیں ہونے دیں گے جو ملک کی سیکولرزم اور گنگا جمنی تہذیب کو ختم کردے یا پھر  ایک مرتبہ پھر ملک کو تقسیم کا منھ دیکھنا پڑے،
اس لئے آخر میں ایک مرتبہ پھر نسل نو سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر ارطغرل دیکھنے سے تمہارے اندر جذبہ جہاد پیدا ہوتا ہے تو وطن عزیز کی تاریخ پڑھنے سے بھی ہمارے اندر جذبہ جہاداور شوق شہادت پیدا ہو سکتا ہے،

اللہ تعالیٰ فرقہ پرست طاقتوں سے ملک کی حفاظت فرمائے نیز ملک کے اندر چین و سکون عطاء فرمائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad