تازہ ترین

پیر، 1 جون، 2020

کرونا سے متاثرہ امریکہ اب نسلی تشدد کی آگ میں جھلسا

 گذشتہ دو ڈھائی مہینوں سے کورونا کی گرفت میں آئے امریکہ نے اپنے ایک لاکھ سے زیادہ شہریوں کو کھو دیا ہے. امریکہ میں اب بھی لاکھوں افراد زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ان دنوں ریاستہائے متحدہ میں جس طرح سے نسلی فسادات کا بازار گرم ہوا ہے اور جس طرح سے امریکہ کی قریب 16 ریاستوں کے 40 شہروں میں ان فسادات کو روکنے کے لیے کرفیو نافذ کیا گیا ہے وہ یقینا وسیع پیمانے پر پھیلے تشدد کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکہ میں برپا ہنگامہ آرائی نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ اس کے طرز حکومت پر بھی سوالات کئی طرح کے سوال اٹھائے ہیں۔
ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ نسلی تشدد کے پھیلاؤ کی اصل وجہ جارج فلائیڈ کی موت ہے۔ لیکن کیوں کہ اس سال نومبر میں ملک میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں اس لیے ان نسلی فسادات کے پس پردہ کسی دوسری گہری سازش کے خیال کو بھی درکنار نہیں کیا جا سکتا
.

 خبروں کے مطابق گزشتہ دنوں 46 سالہ افریقی نژاد امریکی جارج فلائیڈ کا مینیپولیس میں پولیس حراست میں لینے کے دوران بد قسمتی سے انتقال ہوگیا تھا۔

 جیسے ہی پولیس کی تحویل میں ہوئی اس موت کی خبر امریکی لوگوں تک پہنچی. تو اس کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا. اسی بیچ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہونے لگیں. نسلی فسادات کو روکنے کے لئے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے متعدد شہروں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی 44 سالہ سابق پولیس افسر ڈیرک شاون پر قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مظاہرین نے متعدد شہروں میں توڑ پھوڑ کی کارروائیاں شروع کردیں اور پولیس کی گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا۔ صورتحال پر قابو پانے کے لئے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کی غرض سے پولیس نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا بھی استعمال کیا. 

 در اصل یہ سب واقعات اس وقت شروع ہوئے جب پولیس کو پیر کے روز ایک جنرل اسٹور کا فون آیا کہ جارج فلائیڈ نے جعلی 20 نوٹ دیا ہے۔ اس کے بعد پولیس نے اپنی وین میں فلائیڈ کو اپنی حراست میں لینے کی کوشش کی۔ پولیس کے مطابق اس نے پولیس سے ہاتھا پائی کی جس کے بعد اسے ہتھکڑی لگائی گئی۔ اس دوران فلائیڈ زمین پر لیٹ گیا، شاید اس نے ایسا تحویل میں لئے جانے سے بچنے کے لیے کیا۔ویسے مذکورہ واقعے کی وائرل ویڈیو میں تصادم کے آغاز کی ریکارڈنگ موجود نہیں ہے۔ لیکن ویڈیو میں پولیس اہلکار شاون فلائیڈ کی گردن کو اپنے گھٹنے نیچے دبائے ہوئے ہے اور فلائیڈ تکلیف کی شدت سے "میں سانس نہیں لے سکتا "، "مجھے مت مارو" کہہ رہا ہے لیکن پولیس والا اس کی گردن کو مسلسل اپنے گھٹنے کے نیچے تھامے دبائے ہوئے ہے۔ اسی بیچ تقریبا 3 منٹ کے بعد، فلائیڈ نے حرکت کرنا چھوڑ دی اور جب شاون نامی پولیس نے اسے چھوڑا تو فلائیڈ بے سدھ ہو چکا تھا جسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ایک گھنٹے بعد اسے مردہ قرار دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم کی پہلی رپورٹ کے مطابق، شاون نے اپنا گھٹنے 8 منٹ 46 سیکنڈ کے لئے فلائیڈ کی گردن پر رکھا تھا. جس دوران اس کی موت واقع ہوئی. شاون ساتھ اس وقت موقع پر موجود تین دیگر پولیس اہلکاروں کو بھی برخاست کردیا گیا. 

 لیکن جیسے ہی فلائیڈ کے ساتھ ہوئے پولیس تشدد کا ویڈیو وائرل ہوا اور فلائیڈ کی ہلاکت کی خبر پھیلی. تو کچھ ہی دنوں میں کم از کم دو درجن امریکی شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا۔ اس دوران مظاہرین نے پتھر بازی کی. اس دوران پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور بہت سے لوگوں کو اپنی حراست میں لے لیا. یہاں تک کہ لاس اینجلس میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں داغیں. یہاں مظاہرین نے بوتلیں پھینکتے ہوئے گاڑیوں میں جم کر آگزنی کی. 

 جبکہ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین کے بڑے ہجوم جمع ہوگئے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، سینکڑوں مظاہرین وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہونے کے بعد، امریکی صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کے بنکر میں لے جایا گیا جہاں انہوں نے تقریبا ایک گھنٹہ گزارا۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ یہ بنکر عام طور پر صرف دہشت گردی کے حملوں کے خطرہ جیسے نازک حالات میں استعمال میں لایا جا تا ہے. کیونکہ اسی بنکر کو ڈیزائن ہی اس مقصد کے لیے کیا گیا ہے۔

 اس کے علاوہ ہزاروں افراد منیپولس، نیو یارک، میامی اور فلاڈیلفیا کی سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلے۔ پورٹ لینڈ، لوئس ول، مینی پیولس، نیویارک، میامی اور فلاڈیلفیا سمیت متعدد دیگر شہروں میں نائٹ کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے شہروں میں، لوگ کرفیو کی مسلسل خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ شہروں میں لوٹ مار کے معاملات بھی منظرعام پر آ رہے ہیں۔

 ان فسادات کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ فلائیڈ کی موت سے ملک میں "خوف، غصہ اور غم" پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار فلوریڈا میں ناسا کے ایک پروگرام کے بعد کیا. انہوں نے کہا کہ وہ امن کی دعا کر رہے ہیں اور لوگوں کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں۔ انہوں نے مظاہرین کو "لٹیرے اور فسادی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "میں تشدد کو پھیلانے والوں کو اپنی من مرضی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دوں گا۔" انہوں نے مظاہرین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس خطرناک کتے اور مہلک ہتھیار موجود ہیں۔ ٹرمپ نے مینیپولیس کے میئر کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس پہ مظاہروں پر قابو پانے میں ناکامی کا الزام عائد کیا۔

 یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں کالے لوگوں کے قتل کی تاریخ کوئی نئی بات نہیں ہے. یعنی جو ملک دنیا کو حقوق انسانی کی پاسداری رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے،اس ملک میں بھی انسانی حقوق کے ساتھ ہونے والی خلاف ورزی کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ وہ چاہے 1963 کا نیویارک کا تشدد ہو جس کی دھوئیں کی آنچ 1992 تک سلگتی رہی یاپھر وہ 1921 کے ٹلسا فسادات ہوں چاہے وہ 1919 کے شکاگو فسادات کے واقعات ہوں یا پھر 1943 میں ڈیٹڈرائٹ کے فسادات وغیرہ ہوں یعنی امریکی تاریخ میں نسلی فسادات کی ایک لمبی فہرست ہے. 

 یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پولیس حراست میں کالے لوگوں کی ہلاکت کی کہانی بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔اخبار کی رپورٹوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں معمولی معاملے پر پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 1980 کے بعد سے یہ سلسلہ تیز ی سے بڑھا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ریاستہائے متحدہ میں ہر سال پولیس کے ذریعہ 500 کے قریب بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار ا جاتا ہے، جس میں بلیک لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے۔

 اگر ہم امریکہ کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی امریکی سرمایہ داری کسی بحران کا شکار ہو تی ہے تو ایسے نازک اوقات میں کسی نہ کسی طرح سے نسلی فسادات رونما ہوتے محسوس ہوتے ہیں. مثال کے طور 1920، 1943، 1963، 1968 اور 1992 وغیرہ کے فسادات اس کی شہادت دیتے ہوئے محسوس ہوتے. 

 محمد عباس دھالیوال،
 مالیر کوٹلہ۔پنجاب 
 رابطہ: 9855259650

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad