تازہ ترین

ہفتہ، 13 جون، 2020

کچھ دیر شیراز ہند جون پور میں(قسط دوم)

محمد سالم سریانوی
 جامع الشرق میں: جون پور کے سفر کے تعلق سے ہم نے سابق میں لکھا تھا کہ یہ سفر 21/ ربیع الثانی 1440ء مطابق 29/ دسمبر 2011ء کو ہوا تھا، جس میں بطور خاص مدرسہ حسینیہ لال دروازہ ہی جانا تھا، لیکن واپسی میں ’’جامع الشرق‘‘ راستہ میں پڑ رہی تھی، اس لیے دل کا میلان ہوا کہ اس کی بھی زیارت کرتے چلیں، اور مولانا توفیق صاحب نے بھی ارشاد فرمایا تھا کہ دیکھ لیں، چناں چہ مدرسہ حسینیہ میں ملاقات وتعزیت سے فراغت کے بعد ہم لوگ ’’جامع الشرق‘‘ پہنچے، یہ مسجد ’’شرقی حکومت‘‘ کی نہایت ہی شاندار وعظیم الشان یادگار ہے، مسجد بہت زیادہ بلندی پر بنائی گئی ہے، مسجد کافی وسیع وعریض ہے، اس کی لمبائی چوڑائی کو دیکھ کر دہلی کی ’’جامع مسجد‘‘ ذہن میں ابھرنے لگتی ہے، اس مسجد کے تین دروازے ہیں جن میں سب سے بڑا دروازہ جنوبی سمت میں واقع ہے، اس مسجد کی تعمیر پندرہوں صدی عیسوی میں ہوئی ہے، یہ مسجد اپنی خصوصیات کے ساتھ جون پور کی ایک تاریخی دیدہ زیب مسجد ہے۔

اس کو ’’جامع مسجد‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا کہ قاضی اطہر صاحب مبارک پوریؒ کے سفر جون پور کا ایک اقتباس نقل کردیا جائے جو انھوں نے اس مسجد کے تعلق سے لکھا ہے، تاکہ اس کی حیثیت سے ہمارے قارئین کو ایک گونہ واقفیت حاصل ہوجائے، چوں کہ ہمارا وقفہ مسجد میں بہت مختصر رہا اس لیے زیادہ کچھ دیکھا اور جانا نہیں جاسکا، قاضی صاحبؒ لکھتے ہیں: ’’اس مسجد کو یہاں کے ہر دلعزیز اور کامیاب حکمراں سلطان ابراہیم شرقی نے شہر کے شمالی حصہ میں بنوایا ہے، جامع الشرق بلندی اور شان وشوکت میں دہلی کی جامع مسجد کی ہم پلہ معلوم ہوتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مٹی کے پہاڑ پر پتھر کا قلعہ بنا ہوا ہے، جامع الشرق اپنے عظیم بانی کے ایمانی جذبات واحساسات کی آج بھی ترجمانی کرتی ہے، بڑا دروازہ بیسیوں سیڑھیوں کے بعد بلندی پر دکھن کی طرف بنا ہوا ہے، سڑک سے اس دروازہ اور اس کے تینوں طرف وسیع وعریض سیڑھیوں کو دیکھ کر اس کی عظمت واہمیت کا سکہ دل میں بیٹھ جاتا ہے، لمبا چوڑا صحن، کنارے حجرے اور پتھر کی اکھم اور بلند عمارت بڑی پر شکوہ اور پر عظمت معلوم ہوتی ہے۔

 مسجد کے بام ودر، نقش ونگار، احادیث وآیات، اشعار وعبارات یہ سب کہنگی کا باوجود ایمان میں تازگی بخشتے ہیں‘‘۔ (قاضی اطہر مبارک پوری کے سفر نامے ص:148-147) اس اقتباس سے مسجد کی اہمیت بخوبی معلوم ہوتی ہے، ساتھ ہی قاضی صاحب نے کچھ اور بھی خصوصیات نقل کی ہیں، جو ان کے سفر نامے میں پڑھی جاسکتی ہیں، لیکن چوں کہ ہمارے پاس وقت بہت تنگ تھا اس لیے زیادہ دیر تک نہ رک سکے، اس جامع مسجد میں صحن کے بعد جو محرابی گیٹ ہے وہ اپنے اندر خصوصی شان رکھتا ہے، یہ اس مسجد کو دیگر شاہی مساجد سے ممتاز کرتا ہے، یہ کافی بلند ہے، اور بڑے پتھروں کو تراش خراش کر کے بنایا گیا ہے، اس میں مختلف قسم کی باریک وعمدہ نقاشی کی گئی ہے، جو دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتی ہے، ہم نے دیکھا کہ اس دروازے کے اوپر ایک بڑا سا سبز جھنڈا لہرا رہا ہے، لیکن نہیں معلوم کہ وہ جھنڈا کیوں لگایا گیا ہے، شاید ہمارے بریلوی حضرات کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ ہم نے مسجد کے اندرونی حصہ کو دیکھا، چھوٹے چھوٹے بام ودر بنائے گئے ہیں، ان میں پتھروں پر نقاشی کی گئی ہے، اندرونی حصہ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ابھی حال ہی میں مسجد کے اندر مرمت کا کام ہوا ہے، بہر حال یہ مسجد اپنے اندر بہت کچھ خصوصیات رکھتی ہے۔

اس مسجد میں سہ طرفہ کمرے بنے ہوئے ہیں، اور نیچے بھی کمرے ہیں جس میں دینی واسلامی تعلیم کا نظم ہے، غالبا اس میں دو مدرسہ چل رہے ہیں، اس میں بچیوں کی بھی تعلیم کا نظم ہے۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے جلد ہی مسجد سے فارغ ہوگئے، جب کہ ابھی تشنگی باقی تھی، واقعی یہ مسجد ایسی ہے کہ خوب اطمینان کے ساتھ اس کا دیدار کیا جائے، اپنی جبینوں کو اس میں سجدہ سے سجایا جائے اور اسلامی شان وشوکت کا ظاہری وباطنی آنکھوں سے دیدار کیا جائے۔ یہاں سے فراغت کے بعد ہم جون پور کو حیرت واستعجاب اور قلق وافسوس کے ساتھ الوداع کہتے ہوئے اپنے شہر روانہ ہوئے، دو گھنٹے کے بعد مدرسہ اشاعت العلوم کوٹلہ اعظم گڑھ پہنچے، وہیں پر نماز عصر اور پھر نماز مغرب پڑھی، اس کے بعد سٹھیاؤں پہنچے، جہاں پر حضرت ناظم صاحب وحضرت مفتی محمد امین صاحب دامت برکاتہما کا حفظ قرآن کی مناسبت سے ایک جلسے کا پروگرام تھا۔

 ٹھنڈک میں اضافہ تو ہوہی گیا تھا، لیکن ان حضرات کی کرم فرمائی پر ہم بھی جلسے میں شریک ہوئے، قبیل عشاء کھانے وغیرہ سے فراغت ہوگئی، بعد نماز عشاء فورا جلسہ تھا، الحمد للہ جلسہ عمدہ رہا، موسم اور علاقہ کی مناسبت سے کافی لوگ موجود تھے، ہمارے دونوں بزرگ حضرات کا بڑا ہی اہم، عمدہ اور پر مغز خطاب ہوا، اور قریب دس بجے جلسہ ختم ہوگیا، اس کے بعد وہاں سے ہم جامعہ کے لیے روانہ ہوئے اور اپنی اپنی قیام گاہوں پر بخیر وعافیت پہنچ گئے۔ ہمارا یہ سفر مختصر ہونے کے باوجود بڑا قیمتی رہا، جہاں مختلف اکابر سے ملاقاتیں رہیں، وہیں پر ’’شیراز ہند‘‘جون پور کے کچھ اسلامی آثار کی زیارت بھی نصیب ہوئی، پھر اگر قسمت نے یاری کی تو ان شاء اللہ ایک بار ضرور جون پور کا تفصیلی سفر کیا جائے گا۔ واللہ الموفق۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad