تازہ ترین

منگل، 4 اگست، 2020

بابری مسجد , مسجد تھی اور ہمیشہ مسجد ہی رہے گی ، غاصبانہ قبضہ سے حقیت ختم نہیں ہوتی! سپریم کورٹ نے فیصلہ ضرور دیا ہے مگر انصاف کو شرمسار کیا ہے : آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

نئی دہلی(یو این اے نیوز 4اگست 2020) آج جب کہ بابری مسجد کے مقام پر ایک مندر کی بنیاد کی جارہی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے دیرینہ موقف کو دہرانہ ضروری سمجھتا ہے کہ شریعت کی روشنی میں جہاں ایک بار مسجد قائم ہو جاتی ہے وہ تاقیامت مسجد رہتی ہے۔ لہذا بابری مسجد کل بھی مسجد تھی آج بھی مسجد ہے اورانشاء اللہ‎ آئندہ بھی مسجد رہے گی ۔ مسجد میں مورتیاں رکھ دینے سے ، پوجا پاٹ شروع کر دینے سے ایک لمبے عرصہ تک نماز پر روک لگا دینے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہو جاتی۔پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے اپنے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ ہمارا ہمیشہ سے ہی موقف رہا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر یا کسی ہندو عبادت گاہ کو توڑ کر نہیں بنائی گی الحمد الله سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ (نومبر 2019 میں ہمارے اس موقف کی تصدیق کردی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ بابری مسجد کے نیچے کھدائی میں جو آثار ملے وہ 12 ویں صدی کی کی عمارت کے تھے بابری مسجد کی تمیر سے چار سو سال قبل لہذا کسی مندر کوتوڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔

 سپریم کورٹ نے صاف طور پر کہا کہ بابری مسجد میں 22 دسمبر 1949 کی رات تک نماز ہوتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ 22 دسمبر 1949 میں مورتیوں کا رکھا جانا ایک غیر قانونی اور غیر دستوری عمل تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی مانتا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری کی شہادت ایک غیرقانونی غیر دستوری اور جرمانہ فعل تھا۔ افسوس کہ ان تمام واضح حقائق کوتسلیم کرنے کے باوجودکورٹ نے ایک انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ دیا مسجد کی زمین ان لوگوں کے حوالے کر دی جنہوں نے مجرمانی طریقہ پر اس میں مورتیاں رکھیں اور اس کی شہادت کے مرتکب ہوئے۔بورڈ کے جنرل سکریٹری نے آگئے کہا چونکہ عدالت عظمی ملک کی اعلی ترین عدالت ہے لہذا اس کے حتمی فیصلہ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چار نہیں ہے تاہم ہم یہ ضرور کہیں گے یہ ایک ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ ہے

 جو اکثریتی زعم میں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2015 کو فیصلہ ضرور دیا ہے مگر انصاف کو شرمسار کیا ہے۔ الحمداللہ ہندستانی مسلمانوں کے نمائندہ اجتماعی پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگرفریقوں نے بھی عدالتی لڑائی میں کوئی وقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔یہاں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ ہندتو اعناصر کی یہ پوری تھریک ظلم پر جبرً دھونس دھاندلی، کذب اور افترا پر مبنی تحریک تھی۔ یہ سراسر ایک سیاسی تحریک تھی جس کامذہب مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ جھوٹ اور ظلم پر مبنی عمارت کسی بھی پائیدار نہیں ہوتی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad