تازہ ترین

منگل، 4 اگست، 2020

پانچ اگست کےدن یومِ سیاہ‌کاعہد!

بابری مسجدکی جگہ مندرکابھومی پوجن
سمیع اللہ خان
 ایسے وقت میں جبکہ رام مندر کے نام پر کانگریس کی لیڈرشپ نے کھل کر ہندوتوا رنگ زیب تن کر لیا ہے، زعفرانی آہنگ میں ڈوب کر بابری مسجد کے ملبے کو روندنے میں کانگریسی دوغلےسب سے آگے آگے دوڑ رہے ہیں، مسلم۔دلت حقوق کے نام پر لڑنے کا ڈھونگ کرنے والی خوبصورت ڈائن پرینکا گاندھی بھگوادھاری رخ اختیار کرچکی ہے، کیا بھاجپا اور شیوسینا کیا سپا اور کانگریسی سارے ہندو ایک صف میں آکر بابری کے ڈھانچے پر ہندواحیاء پرستی کے جام ٹکرانا چاہتےہیں ایسے میں کم از کم اب ہمیں یہ اعلان کرنا ہے کہ ۵ اگست ہندوستانی جمہوریت میں ہمیشہ یومِ سیاہ رہےگا جو جمہوریت کے کھوکھلے دوغلے اور استحصالی چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے، اور آج ہی یہ وقت ہیکہ ہندوستان میں موجود ہر ہر نام نہاد سیکولر پارٹی سے مسلمان باہر نکلیں، کانگریس میں ہو کہ سماجوادی، شیوسینا یا جنتا دل میں یا کسی میں بھی، ممبر ہوں کہ عہدیدار، یا کسی بھی طرح وابستہ ہوں، آج سے انہیں توبہ کرکے ان ہندوتوا کے جالوں سے خود کو آزاد کردینا چاہیے، وہ ہماری مسجد پر قبضہ کر بےشرم ناچ کرتے ہوئے شرک کا مندر شروع کررہے ہیں بذات خود یہ ایک منحوس ناانصافی والا ظلم اور اس میں تقریباﹰ ہر ہندو ہندوتوائی ہوچکاہے، اگر ایسے صریح ظالمانہ موقع پر جبکہ اُن لوگوں میں انسانیت اور انصاف پر ہندواحیاء پرستی بہرصورت غالب آچکی ہے اب بھی مسلمان بیدار ہوکر اپنی شناخت کی بنیادوں پر سفر شروع کرنے کا اعلان نہیں کرتاہے اور جو بھی مسلمان انہی پارٹیوں میں رہ کر ایسی کھلی اسلام دشمن طاقتوں کا غلام ہی بنے رہنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ذلت و خواری کے لیے مزید کیا ہے؟ 

 ان کے پاس طاقت ہے انہیں مندر بنانا ہے، درآں حالیکہ وہ ظلم کی تاریخ رقم کررہےہیں، ہمیں کیا کرنا ہے؟ اگر ہم مایوس ہوچکےہیں تو گھر بیٹھ جائیں، اگر بوکھلا چکے ہیں تو غصے کا تماشا کرتے پھریں، البتہ اگر زندہ دل، غیور اور چنار کے درخت کی طرح خود کی توسیع کا اہل سمجھتے ہیں تو ہمیں تعمیرِ نو کا عزم کرنا ہوگا، اس کی شروعات اسی سے ہیکہ آپکے محلے، گاؤں، تحصیل، تعلقہ، پنچایت ضلع اور شہری سطح پر سیاسی بیداری کی تحریک کا آغاز کیجیۓ، ہر مسلمان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی ممبرشپ سے علیحدگی درج کرائے، اگر کوئي ممبر یا عہدیدار باقی رہتاہے تو مطلب یہی ہیکہ وہ مسلمانوں کی ذلّت چاہتاہے، البتہ آپ بیدار ہیں تو آپ مسلم نوجوانوں میں یہ عہد کروائیں کہ اب وہ کسی بھی سیکولر سیاسی پارٹی کا نہ حصہ ہوں گے، نہ ان کی مجالس ریلی اور کسی بھی طرح کے پروگرام کا حصہ بنیں گے، ان کو ڈونیشن اور فنڈنگ کرنے والے تاجروں سے بھی دوری اختیار کرلیں گے، اس سیاسی بیداری تحریک کی ایسی فضا بنادیجیے کہ سیکولر پارٹی کا لفظ ایک گالی اور ذلت کا نشان بن جائے، آئندہ کوئی ماسٹر، پروفیسر، مولوی مولانا یا مفتی کسی بھی سیاسی پارٹی کا نمائندہ یا وکیل بن کر آپکے علاقے میں کھڑا ہونے کی جسارت نہ کرے، ہم آپکو اس کے ذریعے محض نمونہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اگر آپ ضلعی سطح پر اپنے فیصلوں میں دہلی بمبئی کے دباؤ کے بغیر خودمختار ہوتے گئے تو دیکھتے جائیں کیسے آپکا وجود ثابت ہوگا، آپ یہ کرکے دیکھیں اور باعزت حریت کی اس ادنی جھلک سے حاصل ہونے والی شوکت و سطوت کا نظارہ خود کیجیے، آپکی اس خودکفیل ہونے کی تحریک کو کوئی بھی سیکولر دانشور انتہاپسندی یا جذباتیت کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا، بس آپ کسی سے بھی الجھے بغیر، کسی سے بھی تصادم کے بغیر اپنا فیصلہ سنانا شروع کیجیے، اور یاد رکھیے ظالموں کے خلاف صبر کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونا کامیابی کی شاہ کلید ہے، آپ اس عمل کے دوران اپنے کسی بھی بھائی سے بحث نہیں کرینگے آپ صرف اقتدار میں حصے داری کے لیے سیاسی خودکفیل ہونے کی دعوت ایسے محبتانہ درد سے پیش کرینگے جیسے اپنے خاندان کے بکھرے خیموں کی ایک ایک رسی جوڑنا چاہتے ہوں اس کام میں کامیابی کے لیے یہ امرلازمی ہے، بابری پر ناانصافی کے بعد یہ تحریک اور کام ہرلحاظ سے آئینی ہے جو ایسا سبق آموز ہوگا کہ اب تک بھاجپا کے ہندوتوا کا ڈر دکھا کر آپکو لوٹنے اور استحصال کرنے والے ہر ہندوتوائی پر اس کی زد پڑےگی یہ ایک کامل ضرب ہوگی ، جب آپ ہر ہندو پارٹی سے عدمِ تعاون کا عہد لے لیں گے تو یہ اپنی شناخت کا آغاز ہوگا، اگر آج بابری مسجد سے کچھ سیکھنا یا عہد کرنا ہے تو، وہ یہی ہے، اگر آپ نوجوانوں کی محض تین افراد پر مشتمل ٹیم بناکر اس کام کو اپنے اپنے مقام پر شروع کردیں تو یہی ٹیم آگے چلکر تعمیرِ نو کا ایندھن ہوگی، کامیابی باذن اللّٰہ  اگر آپ نے سیکولر سیاسی پارٹیوں سے عدم تعاون تحریک کا یہ اعلان کیا تو ہمیں بھی  درج ذیل جی  میل ایڈریس پر خبر کریں، ہماری جدوجہد خوشحالی لائے… آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad