تازہ ترین

جمعہ، 18 ستمبر، 2020

دعوت دین : نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

تحریر___صدیقی محمد اویس، میراروڈ، ممبئی۔

صبح کا دوسرا لیکچر پولیٹیکل سائنس فری تھا اور تیسرا لیکچر شروع ہونے میں لگ بھگ 45 منٹ تھے۔ وقت بِتانے کے لئے میں اور روی کینٹین جا پہنچے اور گپے لڑانے لگے۔۔۔ باتوں باتوں میں مذہب کی بات چِھڑ گئی۔ روی سلجھا ہوا لڑکا ہے، لیکن اس دوران اس نے مسلمانوں کے کردار اور جہاد جیسی بعض اصطلاحات کے تعلق سے نِہتے برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ روی بہت حد تک اسلام کے تعلق سے گمراہی کا شکار تھا۔ میں نے اسے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کراتے ہوئے اس کی کئی غلط فہمیوں کو بھی دور کیا۔ اس کے بر عکس روی نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔۔ " ارے یار !! اسلام تو میری سوچ سے بالکل الگ ہے، لیکن آج تک کسی نے بتایا ہی نہیں اور میں نہ جانے کیا کیا سوچ بیٹھا " یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کہ ہم اتنے بہترین، پریٹکل اور آسان دین کے ماننے والے ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنے قریبی دوستوں کو قریبی ساتھیوں کو، پڑوسیوں کو دین حق سے کوسوں دور رکھتے ہیں !


کیا ہمیں برادران وطن تک حق کی دعوت کو نہیں پہنچانا چاہیے ؟ 

امت مسلمہ ہونے کی حیثیت سے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے ؟



ضرور پہنچانا چاہیے، یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہمارا فرض منصبی ہے۔ اللہ نے نبیوں کے بعد یہ ذمہ داری ہم پر، آپ پر اور ان تمام لوگوں پر عائد کی ہے جو اپنے آپ کو امت مسلمہ کہتے ہیں۔ " اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امّتِ وَسَط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ " ( سورۃ البقرۃ ۱۴۳ )۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت محمدؑ نے لاکھوں صحابہ اکرام کے سامنے اللہ کو گواہ رکھ کر تین مرتبہ پوچھا کیا میں نے تم تک مکمل دین پہچا دیا۔۔ ؟ جواب میں صحابہ اکرام نے کہا 'ہاں' یا رسول اللہ آپ نے ہم تک دین پہنچا دیا۔ پھر اللہ کے رسول فرماتے ہیں کہ اب میرے بعد دعوت دین کی یہ اہم ذمہ داری میری امت پر عائد ہوتی ہے۔ اسی مذکورہ آیت میں کہا گیا کہ امت مسلمہ، امت وسط ہے، رسول امت پر گواہ ہیں اور امت لوگوں پر۔ اس حیثیت سے ہمارا فرض منصبی ہے کہ اسلام کی دعوت کو عام کریں۔ 


"اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔" ( سورۃ آل عمران ۱۱۰ ) اللہ نے امت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی دعوت دین کی یہ اہم ذمہ داری ڈالی ہے۔ لیکن کیا آج ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کررہے ہیں ؟ یہ ہمارے لئے سوچنے کا مقام ہے۔ ایک جانب ہم اپنے آپ کو امت مسلمہ کہتے ہیں، کلمہ شہادت پڑھتے ہیں لیکن اس شہادت کا صحیح مطلب نہیں سمجھتے۔ جب ہم کلمہ شہادت پڑھتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ہم دین حق کی شہادت ان لوگوں کے سامنے دیں جو دین کی عظیم دولت سے محروم ہیں۔ لیکن آج کلمہ محض زبانی اور روایتی طور پر پڑھا جاتا ہے ناکہ اس کا صحیح حق ادا کیا جارہا ہے۔ آج دنیا بھر میں ملت اسلامیہ اور مسلمان سینکڑوں مسائل سے دوچار ہیں، جبکہ ہم دیکھیں تو یہ مسائل بھی دعوت کے ذریعے سے حل کئے جاسکتے ہیں بشرطیکہ کہ ہم لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کریں۔ معاشی بہران کے چلتے یہ بتائیں کہ کس طرح اسلام کے ذریعے معیشیت بہترین انداز میں چل سکتی ہے، غلط سیاست کے برعکس اسلام کا سیاسی نظام کتنا اعلی ترین ہے، عدل و انصاف کا عمدہ تصور ہے، کیسی عادل سوسائیٹی کی تشکیل دی جاسکتی ہے، اچھا تعلیمی نظام قائم ہو سکتا ہے، فرد کے ذاتی معاملات تک میں اسلام بہترین رہنمائی کا نمونہ ہے، لوگ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کو لے پریشان رہتے ہیں، انہیں یہ کہ اسلام میں بچوں کی تربیت کس انداز میں ہوتی ہے، حسن کردار کا معاملہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی جب تک اسکام کی تعلیمات واضح طور پر برادران وطن کے سامنے نہیں رکھیں گے تب تک نہ ہمارے مسائل کا حل نکلے گا اور لوگ غفلت سے باہر آئیں گے۔ ہم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی  سیرت کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی دعوت دین کے اہم کاز کے لئے صرف کردی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹوں کی گھنٹوں کی آواز سنتے تو فوری دوڑے چلے جاتے کہ خوئی قافلہ آیا ہے، انہیں اللہ کے دین کا پیغام پہنچا دوں۔ اور تو اور آج امت مسلمہ، بالخصوص ملک عزیز میں یہ کہنا ہوتا ہے کہ ہم تو اقلیت میں ہیں بھلا ہم کیا کریں ؟ لیکن یہ ایک بہانہ ہے۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس وقت کے مسلمان بھی اقلیت میں تھے لیکن وہ حوصلہ وہ جذبہ ایمانی اللہ کے دین کی سربلندی کا خواب شرمندہ تعبیر کر دکھایا تھا اور مدینہ اسٹیٹ قائم ہوا۔ جو اپنے آپ میں اسلامی نظام کی عملی حیثیت کا عمدہ نمونہ تھا، جنہیں اسلام کو جاننا پرکھنا ہوتا وہ مدینہ آتے اور اسلام کے نظام حیات سے خوب متاثر ہوتے۔ یہ تھا وہ نمونہ جو اس وقت مسلمانوں نے اپنی دعوت کے ذریعے سے پیش کیا۔ 


اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ یا اس ذمہ داری کو کسطرح ادا کیا جاسکتا ہے ؟


اس ضمن دو کاموں کی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ۔۔ ملت اسلامیہ کے عام لوگوں تک دعوت دین کی اس اہم ترین ذمہ داری کا احساس دلائیں۔ دوسرے یہ کہ اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے آس پڑوس میں، اپنے دوستوں ساتھیوں وغیرہ میں اسلام کی دعوت کو عام کریں۔ آج کئی علماء اکرام کا یہ کہنا ہے کہ ملت کے مسائل اب دعوت کے ذریعے ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔ "پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ “ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ”  انہوں نے عرض کیا  “کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرےگا ؟ آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کےلیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں فرمایا “میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے۔" ( القرآن 2 : 30 ) اللہ نے ہمیں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے، یعنی اللہ کے احکامات کو کوگوں تک پہنچانا۔ اور یہی کام دعوت دین کے ذریعے انجام پا سکتا ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کبھی اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا اور پھر مایوسی افسردگی کا شکار ہوگئے، تو اس بات کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سے پچھلی باتوں کو بھول کر آگے کی حکمت عملی تیار کرتے اور صحابہ اکرام کو بھی اسی بات کی تلقین کرتے۔ تو ہمیں بھی گزشتہ باتوں کو کوتاہیوں کو بھول کر اللہ سے توبہ کرکے آگے کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اقبال کا ایک شعر ہے کہ؂ 


سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 


اس ضمن میں چند قابل غور باتیں : 

1) دعوت کا کام کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے، حالانکہ اس کے لئے وقت درکار ہے لیکن یہ کام ہم اپنے دیگر کاموں کے ساتھ روز مرہ زندگی میں بھی انجام دے سکتے ہیں۔

2) ہم اگر دفاتر وغیرہ میں ملازمت کرتے ہیں تو وہاں اپنے عمل کے ذریعے، اپنے اخلاق کے اپنے کردار کے ذریعے عملی دعوت پیش کریں۔

3) اگر ہم کالج یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں تو وہاں مختلف اخلاقی برائیوں، نفسیاتی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ مثلا کالج ڈرگز کے معاملات، گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کلچر اور مغربی تہذیب وغیرہ۔

4) اگر ہم کہیں سوسائیٹی میں رہائش پذیر ہیں تو وہاں حسن سلوک سے لوگوں کا دل جیتیں۔ 

5) اسکے علاوہ اگر کسی مقام پر کوئی حادثہ پیش آجائے یا کوئی قدرتی آفات سے لوگ متاثر ہوں تو وہاں بھی صاحب حیثیت حضرات مالی امداد اور خدمت خلق کے ذریعے اسلام کی دعوت کو عام کریں۔ 

6) بالخصوص مسلم نوجوانوں کو کیمپسیس میں اور دیگر تعلیمی اداروں میں عملی دعوت پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ کیمپسیس میں جو اسلاموفوبیا کی ہوا بنی ہوئی ہے اور مغربی تہذیب کی کئی برائیاں عام ہے ایسے میں ایک مسلم نوجوان کو چاہئے کہ وہ اپنے کردار سے اس جگہ کو منور کردے۔ بالکل مندرجہ ذیل شعر کی مانند؂


حسن کردار سے نور مجسم ہو جا

کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہوجائے


اور تو اور دعوت کے معاملے میں عملی دعوت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور زیادہ متاثر کن ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ جب تک عمل کے ذریعے لوگوں کو اسلام کے متعلق معلوم نہیں ہوگا تب تک قولی دعوت اتنا اثر انداز نہیں ہوگی۔ 


اب وقت ہے کہ امت مسلمہ اپنے اصل کام کی طرف پیش قدمی کرے۔۔۔ برادران وطن جو نفرت پھیلا رہے انہیں دکھادیں کہ اسلام کیا ہے ! اپنے قول کے ذریعے عمل ذریعے کردار و اخلاق کے ذریعے معاملات کے ذریعے خاندانی نظام کے ذریعے یہاں تک کہ اپنی بقا کے ذریعے سے۔۔ ہر محاذ پر بحیثیت مجموعی اسلام کا عملی نمونہ بن جائیں۔  


آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس اہم ترین ذمہ داری کو سمجھنے اور بخوبی انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔ اور امت کے تمام مسائل کو دور فرمائے۔۔۔۔آمین۔



وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے 

نورے توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad