تازہ ترین

جمعہ، 6 نومبر، 2020

“ کیا جو بائیڈن کے وہائٹ ہاؤس میں داخل ہونے اور ٹرمپ نکلنے کا راستہ صاف ہوگا..! "

 عباس دھالیوال. ملیرکوٹلہ ،پنجاب 

رابطہ 9855259650 

Abbasdhaliwal72@gmail.com 


گزشتہ کئی مہینوں سے دنیا کے مختلف دیشوں کے لوگوں کی نظریں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات پہ لگی ہوئی تھیں. تین نومبر کو جیسے ہی امریکہ میں ووٹنگ کا کام مکمل ہوا. تو امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے لوگوں کی نگاہیں ان آنیوالے نتائج پہ لگی ہوئی تھیں کہ آخر اس الیکشن میں جیت درج کر ٹرمپ کیا وہائٹ ہاؤس میں بنے رہیں گے یا پھر جو بائیڈن جیت درج کر وہائٹ ہاوس میں داخل ہو نگے. جیسے ہی کل ووٹوں کی گنتی کا کام شروع ہوا تو گزشتہ روز سے ہی لگاتار ٹونٹی ٹونٹی کی طرح مقابلہ بے حد دلچسپ بنا ہوا تھا. کل جہاں پہلے کچھ گھنٹوں کے دوران جو بائیڈن نے مذکورہ ووٹوں کی گنتی کے دوران سبقت حاصل کر لی تھی 



وہیں کچھ گھنٹوں بعد ہی ٹرمپ مقابلہ میں دوبارہ واپسی لوٹتے ہوئے نظر آئے. اسی بیچ انھوں نے رات قریب دو بجے اپنے حمایتیوں سے جیت درج کرنے کی پیشین گوئی کی. لیکن جیسے ہی یہاں انڈیا میں 5 نومبر کی صبح کو نتائج کو دیکھا تو ایسا لگا کہ امریکی صدارت کے لیے ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن اب وائٹ ہاؤس سےمحض چند قدم کی دوری پر ہیں


جبکہ شکست کی شکل میں نتائج نہ تسلیم کرنے کی دھمکی دینے والے امریکی صدر ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کی راہیں دشوار ہوتی جارہی ہیں۔


 5 نومبر کو بعد دوپہر 2 بجے تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق جوبائیڈن 264 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے جبکہ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ کافی حد تک پچھڑے ہوئے نظر آ رہے تھے. 


یہاں قابل ذکر ہے کہ 538والے امریکی ایوان میں امیدوار کو فتح حاصل کرنے کے لیے 270 ووٹس درکار ہوتی ہیں. یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو بائیڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ 7 کروڑ ووٹ لینے والے پہلے امیدوار بن  گئے ہیں. 


جو بائیڈن نے اب تک 7 کروڑ 20 لاکھ 38 ہزار 30 ووٹس حاصل کر تے ہوئے. امریکہ کی تاریخ میں اس سے پہلے سب سے زیادہ  امریکی صدر کو اب تک 6 کروڑ 85 لاکھ 825 ووٹس مل چکے ہیں۔


جوبائیڈن نے اپنی نائب صدارتی امیدوار کمالا ہیرس کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ایک امریکی صدر کی طرح حکومت کروں گا، جب ہم جیت جائیں گے تو کوئی نیلی یا سرخ (دونوں جماعتوں سے منسوب رنگ) ریاست نہیں ہوگی صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا ہوگا‘


اس سے پہلے کل رات ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم جیت چکے ہیں اب پوسٹ بیلٹ ووٹ پیپرز کی گنتی کی ضرورت نہیں ہے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مذکورہ ووٹس نہ گنے جائیں تاہم بائیڈن یہ کہتے ہوئے اپنے حامیوں کو صبر کی تلقین کرتے نظر آئے کہ انتخاب ’ابھی ختم نہیں ہوا جب تک ہر ووٹ کا شمار نہ ہوجائے، ہر ووٹ گنا جائے گا‘۔


اس سے پہلے ٹرمپ کی پارٹی نے پینسلوینا کے معاملے میں سپریم کورٹ کی مداخلت حاصل کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے جو اس بات سے متعلق ہے کہ کیا ڈاک سے موصول ہونے والے بیلٹس انتخاب کے دن کے 3 روز بعد تک گنے جاسکتے ہیں۔


دوسری جانب جو بائیڈن کے ہزاروں حامیوں نے نیویارک میں احتجاجی مارچ نکالا جس میں ہر ووٹ گننے کا مطالبہ کیا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی مشی گن ریاست میں ووٹوں کی گنتی رکوانے کے لیے ڈیٹروئیٹ میں مظاہرہ کرتے نظر آئے۔


اس کے علاوہ مذکورہ الیکشن میں جو بائیڈن کی جیت کے لیے کچھ ریاستیں ٹرننگ پوئنٹ ثابت ہوئیں ان مشی گن، وِسکونسن اور ایریزونا وہ ریاستیں قابل ذکر ہیں. جنہوں نے 2016 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا تاہم حالیہ انتخاب میں یہاں سے بازی جو بائیڈن کے نام رہی۔ کل ملا کر جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں ان سے جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس جانے کا راستہ جہاں صاف ہوتا نظر آرہا ہے وہیں ٹرمپ کے لیے اب وہائٹ ہاوس دور کی کوڈ ی بنتا جا رہا ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad