تازہ ترین

ہفتہ، 27 اپریل، 2024

اے طائر لاہوتی ! اس رزق سے موت اچھی !

اے طائر لاہوتی ! اس رزق سے موت اچھی ! 

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

    اولاد یقینا انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور اور آنکھوں کی قرار ہے ، خیر ،بھلائی ،کامرانی،
  نیک بختی اور سعادت کا سرچشمہ ہے اور فرحت و شادمانی کا ذریعہ بھی ،بچے زندگی کو خوشگوار بناتے ہیں، رزق میں برکت اور کشادگی کا سبب بنتے ہیں ،ایک باپ اپنی اولاد کو مستقبل کی امید اور بڑھاپے کا سہارا تصور کرتا ہے ،بڑھاپے میں یہ بچے والدین کے لئے رحمت ثابت ہوتے ہیں ،اولاد اور بچوں سے خاندان میں افرادی  قوت میں اضافہ ہوتا ہے ،ماں اولاد کی شکل میں اپنی زندگی کی نیک تمناؤں ،خوشیوں ،آرزؤں،امیدوں ،دل کی فرحتوں اور مستقبل کی امیدوں کا مشاہدہ کرتی ہے ۔۔


   لیکن یہ یاد رہے کہ ان کی یہ امیدیں اور آرزوئیں اسی وقت بر آتی ہیں اور ان کا یہ خواب اسی وقت شرمندئہ تعبیر ہوتا ہے، جب والدین اپنی اولاد کے تئیں اپنے اوپر عائد حقوق اور ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہیں، ان کی صحیح تعلیم و تربیت اور پرورش و پرداخت پر پوری توجہ دیتے ہیں ،ان کے لئے حلال روزی کا انتظام کرتے ہیں ،حرام اور مشتبہ لقمہ سے ان کو بچاتے اور محفوظ رکھتے ہیں ۔۔اگر وہ اپنے حقوق اور اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے ،ان کی تعلیم سے کہیں زیادہ ان کی دینی تربیت کی فکر نہیں کرتے، ان کو حرام اور مشتبہ لقمہ اور روزی سے نہیں بچاتے، تو یہی اولاد اور بچے خود والدین کے لئے دنیا میں وبال جان بن جاتے ہیں ۔۔ 


والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں اور خاص طور پر ان کو حرام اور مشتبہ روزی  سے بچائیں، ان کو خوشحال بنانے کی فکر میں اپنی دنیا اور آخرت کو خراب نہ کریں ۔۔آج ہماری اولاد میں جو وفا داری،خوف خدا اور دین داری نہیں پائی جاتی اور وہ والدین کو بے حال اور بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں، ان میں بہت بڑا قصور والدین کی صحیح تربیت نہ کرنا ہے اور ان کے مستقبل کو بنانے کے چکر میں حلال و حرام کی تمیز نہ کرنا ہے ۔۔۔


    ہم یہاں عبرت کے لئے پڑوس ملک کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں ،جس میں ہم سب کے عبرت و موعظت ہے اور جس میں ہماری نصیحت کے لئے کافی کچھ ہے ،اس یاد دہانی کیساتھ کہ اس دنیا میں مکافات عمل کا قانون ہے اور یہ نظام اللّٰہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے، کہ آپ جیسا سلوک اپنے والدین کیساتھ کریں گے آپ کی اولاد بھی آپ کیساتھ وہی سلوک کرے گی ،یہ عام مشاہدہ ہے ،لیکن اس کے باوجود ہم لوگ عبرت اور نصیحت حاصل نہیں کرتے ،  ۔۔۔

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    راوی صادق بیان کہتے ہیں ،،
ایڈووکیٹ سرفراز احمد چیمہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھا , ملکوال اور منڈی بہاوالدین کی عدالتوں میں لوگوں کی پہلی ترجیح وہ ہی ہوتا تھا.
فیس لاکھوں میں لیتا اور قتل عمد کے ملزموں ہی کو نہیں بلکہ مجرموں کو بھی بری کروا لیا کرتا تھا. 
پھر وقت بدلتا ہے، اس کی عمر ڈھل جاتی ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے.


آنکھوں کی بینائی اس حد تک کم پڑ جاتی ہے کہ سامنے کھڑی اپنی سگی بیٹی تک کو نہیں پہچان سکتا , سارا روپیہ پیسہ اولاد بانٹ لیتی ہے.
بیٹے اپنی بیویوں بچوں کو لے کر یورپ سیٹ ہو جاتے ہیں، جبکہ بیٹی کی شادی کسی جاگیردار گھرانے میں ہو جاتی ہے.


ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ صاحب گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں.اولاد چونکہ مظلوموں کی دھوکے سے ہتھیائی گئی دولت پر پلی بڑھی یا ظالموں کے ظلم چھپانے کے لئے دی گئی دولت پر جوان ہوئی ہوتی ہے.
لہذا اس میں مروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی , باپ کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا.


پھر متفقہ فیصلہ ہوتا ہے کہ والد صاحب کے لئے چوبیس گھنٹے کا ملازم اور ایک سیکورٹی گارڈ کا انتظام کیا جائے.ظالموں کے لئیے ڈھال بن کر مظلوموں کو انصاف کی دہلیز سے خالی ہاتھ واپس موڑ دینے والا ایڈووکیٹ سرفراز چیمہ یوں ملازمین کے سہارے پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے.
پچھلے دنوں ان کا بڑا بیٹا بیوی بچوں کے ہمراہ اپنی سالی کی شادی پر پاکستان آیا ہوا تھا , رشتہ داروں نے اس کو شرمندہ کرکے اپنے والد صاحب کو ملنے پر مجبور کر دیا.


وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ اپنے باپ کو ملنے اس کے گھر چلا آیا , جس وقت وکیل صاحب کا بیٹا اپنے باپ کو ملنے آیا اس وقت میں بھی وہیں موجود تھا.
ان کے باپ کے کمرے سے شدید بدبو آ رہی تھی کیونکہ کئی بار رات کو اٹھ کر ٹائلٹ نہیں جا پاتے تھے.
ملازمین کو آواز دیتے تو وہ سنی ان سنی کر دیتے اور یوں پیشاب بستر پر ہی نکل جاتا تھا.


بستر دھونا تو دور کی بات ملازمین بستر بدلنا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے.یوں چیمہ صاحب اسی بدبودار گیلے بستر پر پڑے زندگی گزارنے پر مجبور تھے.جب ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا تو ناک پر رومال رکھ کر بنا باپ کو ملے ہی واپس مڑ گیا , میں حیرت سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا.


چونکہ سرفراز چیمہ صاحب کو نظر نہیں آتا تھا، لہذا ان کا بیٹا باہر گیا اور سیکورٹی گارڈ کو سمجھا بجھا کر کمرے کے اندر داخل کیا.خود ناک پر رومال رکھے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر باپ کو سلام کیا اور اپنی جگہ پر ملازم کو آگے بڑھا دیا.


ملازم نے جا کر بوڑھے وکیل کو گلے لگا لیا اور بوڑھا بیچارا نوکر کو ہی اپنا بیٹا سمجھ کر چومتا رہا.
بعد ازاں بیوی بچوں کی باری آئی تو ایسے ہی بیوی بچے دہلیز میں کھڑے رہے اور ملازمہ اور اس کے بچے وکیل صاحب کی بہو اور پوتے پوتیاں بن کر ان کو ملتے رہے ،وکیل صاحب انہیں اپنا خون سمجھ کر دعائیں دیتے رہے.


زیادہ سے زیادہ دس منٹ وکیل کا بیٹا بہو بچے گھر میں رکے اور پھر نکل گئے , نہ انہوں نے جاتے ہوئے باپ کو الوداعی نظر دیکھا اور  نہ ہی کوئی بات کی، باپ کو کوئی چیز بھی نہیں دی.


میں حیرت سے بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کل کلاں کو جب یہ شخص اپنےباپ کی جگہ پر ہو گا تو اس کے بچے اس کے ساتھ کیا رویہ اپنائیں گے ؟  چاہنے کے باوجود بھی میں سرفراز چیمہ صاحب کو حقیقت نہ بتا سکا کہ جن لوگوں کو وہ بہو بیٹا اور پوتے پوتیاں سمجھ کر مل رہے تھے، وہ در حقیقت ان کے گھر کے ملازمین  تھے، ان کے بیٹے نے تو باپ کے قریب جانا بھی مناسب نہیں سمجھا.


بیٹے کے اس طرح کا رویہ اپنانے میں کسی اور کا نہیں، بلاشبہ  وکیل صاحب کا اپنا ہی ہاتھ تھا.  
خیر میں تھوڑی دیر وکیل صاحب کے پاس بیٹھا، ان کی بیمار پرسی کی اور پھر بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے چلا آیا.


مگر یہ واقعہ مجھے بہت کچھ سمجھا گیا.
*مجھے سب سے پہلی چیز یہ سمجھ آئی کہ مال اور اولاد آزمائش اور فتنہ کیسے بنتے ہیں۔


دوسری چیز یہ سمجھ آئی کہ  پیشہ کوئی بھی اپناؤ مگر کبھی ظالم کے ساتھ کھڑے نہ ہو اور
تیسری اور سب سے اہم بات یہ سمجھ آئی کہ اپنی اولاد کو رشتوں سے محبت اور دوسروں کا احترام کرنا ضرور سکھاؤ ان کے دل میں کبھی دولت اور عہدے کا لالچ پیدا نہ کرو۔


یقینا یہ تینوں کام وکیل صاحب نہیں کر سکے مگر میری خواہش ہے کہ اس سچے واقعہ کو پڑھنے والے لوگ ضرور ان حقائق کا خیال کر لیں، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے.وکیل صاحب کا وقت تو گزر گیا مگر ہمارا اور آپ کا وقت آج شروع ہو رہا ہے-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad