تازہ ترین

پیر، 3 جون، 2024

...اب وہ مٹی کے گھر نہیں ملتے

...اب وہ مٹی کے گھر نہیں ملتے
جونپور ( حاجی ضیاء الدین) انسان ہویا چرند پرند ہر کوئی سکون کا متلاشی ہواکر تا ہے جس کے لئے تمام طرح کے حربے استعمال کئے جا تے ہیں انسانوں کے خوابوں میں جہاں ایک عدد آشیانہ کی تعمیر ہواکر تی ہے وہیں پرندے بھی بچوں کے لئے گھونسلا تیار کر تے ہیں انسان کواللہ تعالی نے اشراف المخلوقات بنا یا تو اس نے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے پہاڑوں کو تراش کر کے مکان بنا لیا تو کہیں اینٹ و غارے کی مدد سے مکان تیار کئے گئے تو کہیں پر گھاس وپوس سے مکان تیار کئے گئے ہیں۔


 ان مکانوں میں جہاں لوگوں کو قلبی سکون میسر ہوتا ہے تو وہیں ماضی کی تلخ یادیں انسان کو تاعمر گھیرتی رہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں انسان ہجرت کر لے لیکن وطن اور آشیانہ کی یادوں کو بھلا پانا اس کے لئے نا ممکن ہو تا ہے دہائیوں قبل تک گائوں میں مٹی کےمکان کثرت سے پائے جا تے تھے جن کی تعمیر تمام طرح کی سہولیات کو مد نظر رکھ کر کی جا تی تھی اس طرح کے مکانوں کے رکھ رکھائو کے لئے ہر سال موسم گر ما میں پھروٹی اور تر بندی کی جا تی تھی اس کے علاوہ مٹی کی دیواروں پر مٹی کے لیپ لگائے جا تے تھے تاکہ دیواروں کی مضبوطی قائم ہو نے کے ساتھ اس کی خوبصورت بھی باقی رہی زمانے نے ترقی کی تو دیہی علاقوں میں بھی مٹی کے مکان شاز ونادر ہی دکھائی دینے لگے ہیں۔


 اور کچے مکانوں کی جگہ پختہ مکان بن گئے تو کچے مکانوں میں پھروٹی و تر بندی کر نے والے کاریگروں کا ملنا بھی مشکل ہے تو وہیںا ن میں لگنے والے سامانوں کو تلاش کر پانا جوئے شیر لانے کے مترادف  ہے ۔ کچے مکان کی تعمیر کے لئے تھپو ا، نر یا ، لکڑی ، سر پت ، مٹی ، بانس وغیرہ کی ضرورت ہو تی ہےچند دہائی قبل تک مذکورہ تمام سامان گائوں میں آسانی سے مہیا ہو جا تے تھے ۔

کسان اپنے کھیتو ں کی میڑ کے کنارے سر پت ضرور لگا تے تھے تاکہ جانوروں سے فصل محفوظ رہ سکے اور میڑ پر تیار ہونے والے سر پت چھپرکا استعمال مکان کی تعمیر میں کیا جاسکے تھپو ا و گھر کے لئے تالاب خشک ہو جانے پر مٹی بیل گاڑی یا سر پر رکھ کر اکٹھا کر لی جا تی تھی تھپوا بنانے کے لئے مٹی کو پہلے باریک کر لیا جاتا تھا اس کے بعد اس کے اندر کے کنکر وغیرہ کو چھان لیا جا تا تھا پھر اسی مٹی کو پانی کے اندر تین چار دنوں تک بھگو کر رکھ دیا جا تا تھا مٹی نرم ہو نے پر پائوں سے اس کو نرم کیا جاتا تھا پھر اسی مٹی سے تھپوا و نریا تیار کر لینے کے بعد تین چار روز تک دھوپ میں خشک کیا جا تا تھا ۔پھر گوئٹھی کا الائو جلا کر اس کو پکا یا جا تا تھا ۔

ضرورت کے مطابق بانس، سر پت اور لکڑی اکٹھا کر لی جاتی تھی کچے مکان کی تعمیر میںلوہار اورکو نہارکی ضرورت خاص ہو تی ہے لوہار کہ ذمہ لکڑی کا ٹنا ہو تی تھی تو وہیں کونہا ر کے ذمہ تھپوا نر یا تیار کر نا ہو تا تھا۔ پوٹریا گائوں کے ماسٹر عبدالخالق نے بتا یا کہ میرے والد فیاض احمد اور چچا نیازاحمد بر ما رہتے تھے دونوں بھائیوں کی کمائی سے ۱۹۵۵ میں ۵۵ ہاتھ لمبا اور ۵۵ ہاتھ چوڑا بارہ کمروں کا مکان تقریبا دو ہزار رو پئے کی لاگت میں تمام طرح کی سہولت کا خیال رکھتے ہوئے تیار کرا یا گیا ۔


جس کی دیواریں دیڑھ گز موٹی تھیں بتاتے ہیں اس زمانے میں سو رو پئے میں پانچ سو بانس خرید کر لائے تھے تو ۹۰۰ رو پیہ مزدوری دی گئی تھی کچے مکان کو تیار کر نے کے لئے پہلے کم سے کم تین فٹ زیر زمین بنیاد کھودی جا تی تھی جس میں کنکری والی مٹی ڈال کر کٹائی کی جاتی تھی پھر اس کے اوپر چون رکھ کر مٹی کے سہارے دیواریں تیار کی جا تی تھی تقریبا ً دو فٹ مٹی کی دیوار تیار کر لینے کے بعدجب مٹی خشک ہوجاتی تھی تو آگے کی دیواریں بنائی جا تی تھی ۔


اس طرح دس ہاتھ اونچی دیوار کھڑی کی گئی تو اسی دیوار کڑی کے سہارے پہلا منزلہ( کوٹھا) تیارکیا جاتا تھاکوٹھا تک پہنچنے کے لئے بانس کی سیڑھی کے علاوہ مٹی کی سیڑھی بھی بنا ئی جا تی تھی دوسرے منزلہ میں دھرن ،(درخت کی شاخ یا موٹی لکٹی) جھکی ہو ئی شاخ دھرن کے استعمال کے لئے بہتر ہوتی تھی درمیان میں ایک سیدھی موٹی لکڑی جس کو بڑیری کہا جاتا ہے بڑیری لگا ئی جا تی تھی دیوار اور بڑیری پر بانس ( کانڑی ) رکھ کر رسی وغیرہ سے باندھ دینے کے بعدسرپت و ریہٹا ملا کر موٹھا رکھ کر باندھ دیا جا تا پھر اس کےاوپر مٹی کے سہارے دو نوں تھپوا کے درمیان خالی جگہوں کو مٹی بھر نے کے بعد نریا سے پر کر دیا جا تا تھا دولائن نر یا کے بعد الٹا تھپوا رکھا جا تا تھا ۔


جس کو اونہا کہا جاتا تھا تاکہ تر بندی کر نے اور چلنے پھر نےمیں آسانی ہو، کونا بن جانے پرا س کے اوپرگول مٹی کا کلاڑا رکھ دیا جا تا تھا اسکے علاوہ گول برج بھی بنائےجاتے تھے ۔ بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ کاریگری کونیا بنانے میں ہوا کر تی تھی۔ 

کوٹھا غلہ بھونسہ ودیگر اشیاء کے رکھنے میں کام آتا تھا تو وہیں کچھ لوگ مٹی کی ٹھیک بنا نا کر کےا سی میں غلہ رکھتے تھے جو دور حاضر میں گزرے زمانے کی بات ہے ۔ماسٹر عبدالخالق ۹۵  نے بتا یا کہ میرے لئے یہ صرف آشیانہ ہی نہیں بلکہ مجھ سمیت میرے اپنوں کی یادوں کا مسکن بھی ہے مکان کا بیشتر حصہ زمیں دوز ہو کر پختہ مکان تعمیر ہو چکا ہے صرف بیٹھک و دالان کا حصہ بچا ہے جب تک میں حیات سے ہوں میرے کوشش ہوگی کی میرے بچے اس آشیانہ کو بچاکر رکھیں گے۔ 


تر بندی کروارہے حافظ محمدراشد نے بتا یا کہ اس دور میں کچے مکانوں کا رکھ رکھائو ہی کافی مشکل ہو گیا ہے رپیرنگ کر نے والے کاریگر مشکل سے مل پاتے ہیں مجبور ہو کر مجھے خود ہی رپیرنگ کر نا پڑ رہا ہے کیو ں کہ میرے والد کے اس مکان سے جذبات جڑے ہیں جب تک وہ حیات سے ہیں مکان اپنے ہیئت پر قایم رہے گااس دور میں کاریگر نہ ملنے کے علاوہ کچے مکان کے لئے میٹریل بھی نہیں مل پاتا ہے۔


 جس کہ وجہ سے لوگ کچے مکان کوزمیں دوز کر کےاس کی جگہ پختہ مکان تعمیر کر نے لگے ہیںحالانکہ کچے مکانوںمیں موسم گرما اور سرما میں سکون ضرور ملتا ہے خاص طور پر موسم گر ما میں گرمی کی شدت کا احساس کم ہوتا ہے موسم باراں کی آمد سے قبل رپیرنگ کر لی جاتی ہے تاکہ بارش کے دنوںمیں کسی طرح کی پریشانی سے بچا جاسکے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad