تازہ ترین

جمعرات، 5 مارچ، 2020

خون کی ہولی کھیلنے والے اب کیوں ہولی کھیلیں گے؟

محمد قاسم ٹانڈؔوی
سب جانتے ہیں کہ 24/25/26/فروری کو ملک کی راجدھانی دہلی جس کا شُمار مضبوط سکیورٹی اور سخت حفاظتی انتظامات کے اعتبار سے اِنتہائی حساس اور چاق و چوبند سمجھے جانے والے ماڈرن شہروں میں ہوتا ہے، اس لئے کہ تکثیری سماج کے درمیان یہاں کے باشندوں کا آپس میں رہنا سہنا اور ملک کی قدیم روایت 'گنگا جمنی' تہذیب کا حقیقی معنوں میں مشاہدہ ہوتا ہے۔ یہاں کا بےمثال ہندو مسلم اتحاد اور تمام اقسامِ مذاہب کے ماننے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اس کے باوجود مذہبی اجارہ داری اور مسلکی بالا دستی سے پاک سماج اور معاشرہ کا اس قدیم شہر میں ہونا اپنے آپ میں ایک مثال تھا؛ مگر کہتے ہیں نہ کہ جب ظالم کی نیت خراب ہوتی ہے اور اس کی حوس کی لپٹیں تیز سے تیز تر ہوتی ہیں تو اس نازک وقت میں قومی مصالح کافور اور حفاظتی تدابیر ناکام ہو جاتی ہیں، کچھ ایسا ہی دہلی فساد میں ہوا اور "دہلی جو ایک شہر تھا عالم میں اِنتخاب" یعنی تمام جدید سہولیات سے لیس جو کسی بھی انہونی سے نمٹنے اور حادثاتی طور پر پیش آمدہ واقعات کو وقت سے پہلے کنٹرول کرنے میں ممتاز سمجھا جاتا رہا ہے مگر افسوس ملک کی ترقی و سلامتی کے دشمنوں نے ہندوستان کے قلب و جاں تصور کئے جانے والے اس مصروف ترین شہر کو بھی برباد کرنے سے نہ بخشا اور اپنے شَرّی مزاج و ہٹ دھرمی کے باعث دنیا جہان کی نظروں میں اس کی روشن پیشانی پر کلنک لگا کر ہی چھوڑا۔

بھلا بتائے کوئ کہ جہاں کے لوگوں کی زندگی کثرتِ مشاغل میں منہمک رہتی ہو، جہاں ہر قِسم کے ٹریفک کی آمد و رفت مہیا ہو اور جہاں بشرِی تقاضوں کے پورا کرنے اور روز مرّہ کی ضروریات کے حصول و تکمیل کی خاطر دور دراز کے خِطوں سے آ کر بَسنے والوں کی زندگی ہروقت کی چہل پہل سے معمور و شاداب ہو بھلا کوئ ایسے مقام کو کیوں کر آگ و خون کے حوالے کرنا پسند کرےگا؟ مگر چند بدطینت اور ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں اس شہرِ دہلی کو خاکِستر کرکے رکھ دیا جاتا ہے اور منصوبہ بند سازش و منظّم پلانننگ کے تحت ہُڑدنگ اور بَلوا کیا جاتا ہے، فساد سے ایک دن قبل فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لیڈران کی طرف سے کی جانے والی زہر افشانی اور پولیس کی موجودگی میں کھلے عام دی جانے والی دھمکیوں کے طفیل مشرقی دہلی کے چاند باغ، کردم پوری، جعفرآباد اور مصطفیٰ باد جیسے دس سے زائد مسلم اکثریتی علاقوں اور بستیوں میں داخل ہو کر وہاں کے امن پسند عوام پر حملہ کرنا، کرایہ اور مزدوری پر لائے گئے دنگائیوں کے ساتھ پولیس کی موجودگی میں کھلے عام مسلمانوں کا قتل کرنا، ان کے گھر محلوں میں گُھس کر مسلم عورتوں کی عزت و ناموس کو پامال کرنے کی مذموم و ناپاک حرکت کرنا اور مسلم مکانوں کو نشان زد کرنے کے بعد انہیں آگ و خون کے حوالے کرنا، ان محلے میں آباد عوام کو جس بُری طرح سے مار مار کر لہو لہان اور وہاں پر قائم مدارِس و مساجِد میں داخل ہو کر ان کی توہین اور رکھے ہوئے قرآن مجید کی بےادبی کی گئی، ان کو نذرِ آتش کیا گیا اور فرشوں کو معصوموں کے لہو سے خون آلود کیا گیا۔ اب اگر اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد ملک کے وزیرِاعظم، وزیرِداخلہ اور دوسری مرتبہ دہلی کےلئے منتخب ہونے والے وزیرِاعلی اور عآپ پارٹی کے رہنما 'اروند کیجریوال' جن کی اصل حقیقت اس موقع سے کھل کر سامنے آ جاتی ہے اور اب تک جو لوگ انہیں بی جے پی کا ایجنٹ یا 'بی ٹیم' قرار دیتے تھے، ان کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ اس بار 'ہولی' نہیں منائیں گے تو یہ اعلان اور ان کا یہ فیصلہ ہمارے نزدیک کوئ اہمیت اور معنیٰ خیز بات نہیں ہے۔ اب اگر وہ "خون کی ہولی کھیلنے کے بعد رنگوں کے تہوار ہولی کھیلنے سے منع کر رہے ہیں" تو عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ان کے گناہ کو معاف کردیں اور ان پر پہلے جیسا اطمینان کا اظہار کریں؟  

مسلمان؛ آزادی کے بعد سے اس ملک کی خوشحالی اور ترقی میں برابر اپنا تعاون پیش کرتا آ رہا ہے اور جب بھی کبھی ملک پر حملہ ہوتا ہے یا خطرات کے بادل منڈلاتے ہیں تو اس وقت میدان میں سب سے پہلے مسلمان کمر بستہ ہوتا ہے اور آخری دم تک لڑتا ہے اور لڑتے لڑتے جان جانِ آفریں کے سُپرد کر دیتا ہے مگر پیٹھ دکھانا گوارہ نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتا جس میں مسلمانوں کی طرف سے غدّاری یا ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونا ثابت ہوتا ہو اور ہمیں یقینِ کامل ہے کہ جب تک مسلمان بحیثیت ہندوستانی اس ملک میں ہے وہ کوئی ایسا کام اور نازیبا حرکت کر ہی نہیں سکتا جس سے کہ ملک کی آن بان شان پر دھبہ لگتا ہو یا ملک کی سلامتی خطرے میں آتی ہو۔ بصورت دیگر بی جے پی اور اس کی جنم بھومی 'آر ایس ایس' سے وابستہ کارکنان جن کی کارکردگی ہمیشہ مشکوک و مشتبہ رہی ہے اور ان کے رنگین کارناموں سے تاریخ کا دامن لبریز ہے، وہ آج بھی جب بات کرتے ہیں تو فِرقہ واریت کو ہوا دینے، مذہبی منافرت کی آگ کو بھڑکانے اور اس کو مزید شعلہ جوالہ بنانے کی کرتے ہیں، وہ ملک کو تقسیم کرنے اور ہندو مسلم تفریق کو بڑھاوا دینے کی باتیں کرتے ہیں، انہیں اپنے کارناموں کے انجام دینے میں نہ تو پولیس کا ڈر خوف ہوتا ہے اور نہ ہی ملک کے قانون اور دستور کی خلاف ورزی اور پامالی کی فکر ہوتی ہے، بلکہ یوں کہا جائے کہ پولس کا ایک بڑا طبقہ ان کی تخریبی سوچ سے ہم آہنگ اور فرقہ وارانہ خیال کا حامل ہے اور وہ ہر ایسے موقعے پر انھیں کی ہاں میں ہاں اور پشت پناہی کرتا نظر آتا ہے، پولیس جس کی اولین ذمہ داری اور آئینی حیثیت قانون کی بالادستی قائم کرنے اور مشترکہ سماج میں امن و امان کو برقرار رکھتے ہوئے حفاظتی انتظامات کے تحت فسادیوں اور بلوائیوں کو اول مرحلے میں لگام دینے اور ان کو انتشارِ سماج کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے کرنا ہوتا ہے۔

ہمارے ملک کی یہ مُتعَصِبانہ فکر و خیال رکھنے والی پولیس ہمیشہ یکطرفہ کاروائی کرتی نظر آتی ہے، اور دنگا فساد کرنے والوں کے ہاتھوں میں پتھر گولے پکڑاتے نظر آتی ہے۔آج قومی راجدھانی دہلی کے پُرتشدُّد حالیہ فساد کا جائزہ لینے کے بعد تجزیہ کار اس نتیجہ پر پہنچے ہیں اور کہہ بھی رہے ہیں کہ جو طریقہ کار گجرات فساد میں آزمایا گیا تھا بِعینہٖ وہی طریقہ اور ماڈل دہلی کے مسلمانوں کی نسل کشی اور مالی تباہی کےلئے آزمایا گیا ہے، گویا دہلی کو گجرات کا دوسرا قبرستان بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور انہیں باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے غیر ملکی میڈیا، عالمی برادری اور ملک و بیرونِ ملک تمام سیکولر پسند سیاستدانوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور وہ مسلسل ہمارے یہاں کی تنگ نظری پر مبنی سیاست کو ہدفِ ملامت اور تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔اس سے ایک بات اور صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ: "سنگھی ذہن کے لوگ اور میڈیا ہاؤس میں بیٹھے اپنے دوغلے پَن میں مشہور تمام ٹی وی اینکر" جس انداز سے دہلی کے اس فساد کو فِرقہ وارانہ فسادات قرار دے رہے ہیں وہ کہیں نہ کہیں غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اس لئے کہ اس فساد کی تیاری اور پولیس کی موجودگی ان کے اس دعوے کی سراسر نفی کرتی ہے۔ اوپر سے مرکزی لیڈران کی خاموشی خاص طور پر عآپ پارٹی کے لیڈر اور دہلی وزیرِاعلی کی معنیٰ خیز خاموشی کو دیکھ کر یہی کہا جائےگا کہ یہ "فِرقہ وارانہ فساد تھا ہی نہیں، بلکہ یہ تو یکطرفہ فساد تھا جس میں نہتے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور اب آگے کی تمام کاروائی بھی ویسے ہی انجام دی جا رہی ہیں جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، کہ "قاتل کو مقتول اور ظالم کو مظلوم" ثابت کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ پچاس ساٹھ  کے قریب لوگوں کی اس دنگا میں موت ہو چکی ہے اور لعشیں ملنے کا سلسلہ برابر جاری ہے اس کے باوجود میڈیا سمیت تمام سیاستداں ایک 'انکت نامی' شخص کی موت پر تو سوال کھڑے کر رہے ہیں مگر باقی لوگوں کو کس نے مارا یہ انہیں نظر نہیں آ رہا ہے؟ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad