تازہ ترین

بدھ، 13 مئی، 2020

افسوس!!! جس نے سب کے گھر بنائے اس کا کوئی گھر نہیں

تحریر: محمد کوثر رضا مصباحی (اتر دیناج پور)خادم التدریس: دارالعلوم فیض اکبری،لونی شریف،گجرات
انسانی زندگی میں سہولت اور صعوبت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں، حوادث زمانہ اور گردش ایام کے تھپیڑوں میں ضرور ہر کسی کا ان سے سابقہ رہا ہوگا، شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو اس حقیقت سے منہ موڑتا ہو. یہ حقیقت آفتاب نیم روز کی طرح عیاں اور روشن ہے کہ جسے اَوّلُ الذِّکر شی کی فراہمی ہوتی ہے وہ خوش وخرم کی زندگی گزارتا ہے، عیش و مستی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، خوشیوں میں چار چاند لگ جاتے ہیں اور یہ بھی کسی سے مخفی نہیں کہ جس پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں وہ اپنی بے حسی، بے بسی اور مجبوری کی فریادیں اور دل سوز کہانیاں سناتے پھرتا ہے مگر کوئی اس کے بہتے آنسوؤں کو پوچھنے والا نہیں ہوتا. عام طور سے ایسی دل خراش اور اندوہ ناک کہانیاں ملک کے غریبوں،مزدوروں اور خط افلاس سے نیچے جا چکے لوگوں سے جڑی ہوتی ہیں. کبھی تو وہ اپنے معاشرہ کے شرپسند عناصر اور فتنہ پروروں کی چنگل میں پھنس کر جبر و تشدد اور ظلم و بربریت کے شکار بن بیٹھتے ہیں، تو کبھی حکومت کے ظالم حکمران غریبی اور کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کے ارمانوں کا خون کرتے چلے جاتے ہیں. آج کی اس تحریر میں راقم الحروف نے پاور کا غلط استعمال کرنے والے ان سفید پوش حکمرانوں کو آئینہ دکھا کر سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔

     محترم قارئین! شاید آپ حضرات بھی اس بات سے اتفاق رکھتے ہوں گے کہ کسی بھی علاقے میں یک لخت اور آن واحد میں ١٦ لوگوں کی جانیں ہلاک ہو جانا انتہائی اندوہ ناک سانحہ ہے. جی ہاں! آپ نے بالکل ہوش و حواس میں رہ کر صحیح اور درست پڑھا ہے. یہ حادثہ وسطی مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں واقع کر ماڈ میں پیش آیا. مدھیہ پردیش کے کچھ غریب مزدور مہاراشٹر کے جالنہ شہر میں واقع ایک نجی اسٹیل فیکٹری میں مزدوری کرتے اور اپنے اور اہل خانہ کے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے، لیکن لاک ڈاؤن نے ان کی زندگی اجیرن کردی، نہ سر ڈھکنے کو چھت تھی اور نہ ہی کھانے کو روٹی اور تو اور جمع کی ہوئی ساری پونجی بھی ختم ہوچکی تھی. جب یوں ہی مسلسل ٤٥ دن گزر گئے اور حکومت سے لگائی گئی امیدوں پر پانی پھرتا نظر آیا تو پولیس اہلکاروں اور ان کے سخت رویوں سے بچتے بچاتے اپنی آبائی ریاست مدھیہ پردیش کے لیے جالنہ سے بھساول کی جانب  ریلوے راستہ سے پیدل نکلنے پر مجبور ہوگئے. رات بھر چلنے کے باعث ان میں اتنی سکت باقی نہ رہ گئی تھی کہ مزید قدم اٹھا سکے، اس گمان میں کہ ٹرینوں کی آمدورفت کا سلسلہ مسدود ہے پٹری پر ہی سو گئے، ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ ایک مال گاڑی نے انہیں کچل کر رکھ دیا، جس سے موقع پر ہی ١٤ اور بعد میں دو کی موت ہوگئی. آہ!!! جن مزدوروں نے کبھی ریل کی پٹریاں بچھائیں تھیں آج انہی کی لاشیں ان پٹریوں پر بچھی ہوئی ملیں. پھر کیا تھا، ٹویٹر کا بازار گرم ہوگیا، سابقہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کے سربراہان، مختلف ریاستوں کے وزراے اعلیٰ، ملک کے نام نہاد ذمہ داران سمیت وزیراعظم "نریندر مودی" نے ٹویٹ کے ذریعہ اپنے اپنے دکھ کا اظہار کرکے بزعمِ خویش ان پر بہت بڑا احسان کیا، ساتھ ہی ریاستی وزیر اعلیٰ نے پانچ لاکھ روپے فی کس دینے کا اعلان بھی کردیا۔

 تعجب تو اس وقت ہو رہا تھاجب غم و اندوہ کے ایسے ماحول میں گودی میڈیا وزیراعظم کی ٹویٹ کا اشتہار کرتے تھکے نہیں تھک رہا تھا، بلند آواز اور تکرار کے ساتھ اس انداز میں مودی جی کی ٹویٹ کا پرچار ہو رہا تھا کہ مانو آں موصوف نے ٹویٹ نہ کیا ہو کسی ملک کو فتح کرلیا ہو. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کاغذ کے ان چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے ذریعہ ان کی جانوں کی قیمت بتائی گئی یا پھر امداد کے طور پر دیا گیا؟ اگر بطور امداد ہے تو پھر مرنے سے پہلے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ کیا ایک ٹویٹ کرکے اپنے غم کا اظہار کرنے سے ملک کے وزیراعظم کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟ اگر جواب نہیں ہے، تو پھر کیوں ان مزدوروں کو اپنے حال پر چھوڑ کر موت کے حوالے کیا جا رہا ہے؟ کیوں حد درجہ کی تساہلی اور بے رخی و بےتوجہی برتی جارہی ہے؟معزز قارئین! مہاجر مزدوروں کی دردناک کہانیاں یہی پر ختم نہیں ہوتیں، بلکہ حادثوں کا سلسلہ اور زور پکڑنے لگتا ہے، ابھی اس عظیم سانحہ کے بیتے دو دن ہی گزرے تھے کہ ایک ٹرک کے پلٹنے سے پانچ اور مزدوروں نے اپنا دم توڑ دیا. جی ہاں! "حیدرآباد اسے اپنی آبائی ریاست اتر پردیش کے ضلع آگرہ پیدل جانے والے کچھ مہاجر مزدوروں کو آم سے لدا ہوا ایک ٹرک امید کی آخری کرن بن کر نظر آیا، بھلا کون جانتا تھا کہ جینے کا خواب دکھانے والا ٹرک ہی ان کی موت کا سبب بن جائے گا؟

 ڈرائیور اور ہیلپر سمیت ١٨ افراد پر مشتمل ٹرک مدھیہ پردیش کے نرسنگ پور میں پاٹھا گاؤں کے قریب اچانک پلٹ گئی، جس سے موقع پر ہی پانچ مزدوروں کی دردناک موت ہوگئی اور تقریباً ایک درجن لوگوں کی حالت کافی نازک ہے جو فی الحال اسپتال میں زیر علاج ہیں." (روزنامہ تاثیر اردو، دہلی، ١١ مئی ٢٠٢٠) افسوس! کہ نیوز چینلوں اور خاص طور سے گودی میڈیا میں سناٹا پاؤں پسارے بسیرا ڈالے ہوا ہے، کوئی اس مدعی پر بحث کرنے کو تیار نہیں، شاید ایسے مدعوں پر ڈیبیٹ کرنا، بحث و مباحثہ کرنا، حکومت پر سوالات قائم کرنا انہیں زیب نہ دیتا ہو، بھلا کیوں کر زیب دے، انہیں انتظار جو رہتا ہے کسی مسلم مخالف شوشہ کے نکلنے اور ملک بھر میں نفرتوں کی آگ پھیلانے کا. ذرا سوچیے! جس جمہوری ملک کا رکن اور اس کی بنیاد ہی اتنی کمزور ہو اس کی عمارت بھلا کیسے ٹھوس اور مضبوط ہوگی؟ میں گودی میڈیا سے بس اتنا کہوں گا کہ ایسی گھناؤنی اور رذیل حرکتیں کر کے اپنے باوقار ملک کی شبیہہ کو داغدار نہ کریں. ایسے میں پھر سوال اٹھتا ہے مودی اور یوگی سرکاروں پر کہ غریبوں کا ساتھ دینے اور ان کی موتوں پر اظہار غم کرنے والے کیوں ایسے موقعوں پر چپی سادھے ہوئے ہیں؟ آئے دن مہاجر کارکنوں کے نئے نئے حادثے رونما ہوتے جا رہے ہیں، پھر بھی حکومت کے ذمہ داران کیوں بےاعتنائی اور بےرخی کی حدیں پارکرتے چلے جارہے ہیں؟ دیگر ممالک میں پھنسے شہریوں کے لئے کثیر تعداد میں فلائٹیں بھیجی جاسکتی ہیں تو کیا ہندوستانی مزدوروں کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹرینیں نہیں چلائی جا سکتیں؟ کچھ تو سرکاروں کی کمیاں ہیں(بلکہ بہت زیادہ ہیں)تبھی تو وہ ان مزدوروں کے اعتماد اور بھروسے کو جیتنے میں ناکام ہیں. ایسے ماحول میں ذرا مرکزی حکومت کی چال بازی تو دیکھیے! جیسے ہی اس بات کی بھنگ لگی کہ اب سوالوں کی زد میں آنے والے ہیں، طرح طرح کی افتراپردازی اور بہتان طرازی سے کام لیتے ہوئے اپنے گرد آلود دامن کو صاف کرنے میں لگ گئی، مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ "امیت شاہ" نے اپنی شیطانی کھوپڑی اور شاطرانہ چال کا استعمال کرکے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ "ممتا بنرجی" کو چٹھی لکھ کر الزام عائد کیا کہ وہ مزدوروں کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہیں۔

 ٹرینوں کی اجازت دینے میں پس و پیش کی شکار بنی ہوئی ہیں، بدلہ میں "ممتا" کہاں چپ رہنے والی تھیں انہوں نے بھی مرکز کے الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تیکھا حملہ کر دیا. ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی سرکار ہو، کہیں کی بھی سرکار ہو، دودھ کا دھلا کوئی نہیں ہے، ہر ایک کو اپنے مفاد کے لئے دوسرے کو مہرا بنا کر سیاسی روٹیاں سینکنے کی فکر لگی رہتی ہے. ہم بس ملک کی تمام سرکاروں سے اتنی سی درخواست کرتے ہیں کہ کورونا مہاماری کا یہ دور انتہائی نازک اور پُرخطر دور ہے، یہ وقت آپسی رسہ کشی اور اختلاف و انتشار کا نہیں ہے، بلکہ یہ وقت ہے اتحاد و اتفاق کے ساتھ شانہ بشانہ ہوکر قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کا، یہ وقت ہے غریبوں اور مزدوروں کی بلاوجہ جانیں ہلاک ہونے سے بچانے کا، بےسہاروں کو سہارا اور ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے کا، یہ وقت ہے لوگوں کے مرجھائے ہوئے چہروں پر پھر سے خوشیوں کی لکیریں پیدا کرنے کا. امید ہے...... مگر افسوس! کہ موجودہ صورت حال کو دیکھ کر بار بار یہ شعر یاد آتا ہے۔

    شہر   میں   مزدور   جیسا   دربدر   کوئی   نہیں
    جس نے سب کے گھر بنائے اس کا کوئی گھر نہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad