تازہ ترین

جمعہ، 12 اگست، 2022

صوبہ بہار اور بہار کی موجودہ سیاست

صوبہ بہار اور بہار کی موجودہ سیاست 

          محمد قمر الزماں ندوی      بعض احباب اور دوستوں کا اصرار ہے کہ موجودہ ملکی سیاست پر بھی ،  کبھی کبھی مضمون ضرور لکھا کروں، کل تو ایک صاحب کافی اصرار کرنے لگے کہ بہار کی موجودہ سیاسی تبدیلی،  اتھل پتھل،اندیشے، توقعات اور خطرات پر میں ضرور لکھوں ، 

میں نے وعدہ تو نہیں کیا، لیکن اتنا کہا کہ کوشش ضرور کروں گا۔ بہار کی موجودہ سیاست اور ڈرامائی انداز میں اچانک حکومت کی تبدیلی نے بڑے بڑے سیاسی دگگجوں  اور پنڈتوں کو حیرت میں ڈال دیا، بہار کے ایک منسٹر سید شاہنواز حسین جی ایک پروگرام میں دلی گئے ہوئے تھے ایک پروگرام کا ادگھاٹن کرنے کے لیے، واپسی میں جہاز پر چڑھے صوبائی منسٹر کی حیثیت سے تھے، 


لیکن جب ائیر پورٹ پر پہنچے معلوم ہوا کہ وہ اب پیدل ہوچکے ہیں، وزارت اور منسٹری ختم ہوچکی ہے اور اب حکومت بدل گئی ہے۔ سیاست میں یہ شاہ مات کا کھیل خوب ہوتا ہے۔ کچھ بے تکلف دوستوں نے پرسنل پر کمنٹ کئے۔ اس کو بھی سنئے۔ بہاری ہے تو ممکن ہے۔   ایک بہاری سو 💯 پر بھاری دو بہاری سرکار ہماری۔

  نتیش۔ تیجسوی 
  وارے بہاری دماغ۔ وغیرہ وغیرہ 
     بہر حال دوستوں نے بھی خوب مزہ لیے۔ 
    نتیش بابو بہت ہی ذی ہوش، موقع اور وقت شناس، ملون مزاج، چالاک اور ہوشیار نیتا ہیں اور بہت میٹھی چھری ہیں، 


   صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں اور باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی۔ اس میں بہت ماہر ہیں، کرسی اور اقتدار سے چپکے رہنا کوئی اس سے سیکھے،معلوم ہوتا ہے کہ کلیلہ اور دمنہ کا ہندی ایڈیشن کا خوب اسٹڈی کیا ہے۔ اس کی اسی مہارت اور ہوشیاری اور کمال عیاری کو ہمارے ایک دوست عماد الدین عاقب نے بہت اچھے انداز میں منظوم کلامِ کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پہلے اس کو سنئے۔۔ 

 بہار میں بہار  ہی ہے ، جب سے وہ  کمار ہیں
 ہیں کچھ تو  ان کی غلطیاں، پر ان کے  گن ہزار ہیں 

 وہ دشمنوں کے ساتھ بھی ، وہ  دوستوں کے ساتھ  بھی تعلقات ہر جگہ سے ان کے خوش گوار ہیں 



 وہ  مودی کے رقیب  ہیں ، وہ تیج کے چچا بھی ہیں 
 وہ واجپئی کے متر  ہیں ، وہ لالو  جی کے  یار ہیں 

 نہ گیروا سے بیر ہے ، نہ سبز سے  ہے دشمنی 
 بہت  ہی خوش مزاج ہیں ، بڑے  ہی  رنگ دار ہیں 

 وہ مسکراہٹوں سے دل سبھی کا جیت لیتے ہیں
 سبھی کو ان سے دکھ بھی ہے ، سبھی کے دل فگار ہیں


 سبھی سے دوستی کا حق نباہنا ہیں جانتے 
 اے عاقب اپنے دیش کے وہ میر صد ہزار ہیں   
      

      بہار کی موجودہ سیاست پر تبصرہ کرنے سے پہلے بہار کے صوبہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔۔ دوستو!!!!!!! 
بہار ہندوستان کا ایک اہم اور مشہور صوبہ ہے ، علمی، سیاسی،تاریخی، جغرافیائی اور تمدنی اعتبار سے اس کی ایک الگ شناخت اور پہچان ہے ، یہ علماء، اتقیاء،صلحاء اور صوفی سنتوں کا خطہ ہے، یہاں کے بہت سے شہروں اور قصبوں کی اپنی ایک الگ تاریخ، شناخت اور پہچان ہے اور جن کا چرچا اور جن کی شہرت ملکی ہی نہیں عالمی پیمانے پر ہے، صوبہ بہار اپنے اندر ایک تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں مہاتما بدھ ، گوتم اور مہاویر جیسے انسان دوست گزرے ہیں، 


جن کی تعلیم انسانیت، انسانیت اور بس انسانیت پر مبنی تھی، یہاں کی سرزمین سے مخدوم شیخ یحییٰ منیری مخدوم بہاری رح اور خواجہ بختیار کاکی رح علامہ شہباز بھاگلپوری رح نے محبت انسانیت اور مانوتا کے پیغام کو عام کیا اور لوگوں کو یہ بتایا کہ
 درد دل   کے  واسطے  پیدا  کیا  انسان  کو 
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
    بہار کا پٹنہ سیٹی گرو گوبند جیسے انسانیت کے مینار کی جائے پیدائش ہے۔۔ 

یہاں آج بھی درجنوں خانقاہیں آباد ہیں جو رشد و ہدایت کا کام انجام دے رہی ہیں۔امارت شرعیہ بہار کا کارنامہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں،مولانا علی میاں ندوی رح فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانان بہار کو بجا طور پر اس پر فخر کا حق حاصل ہے۔وکرم شلا اور نالندہ کی تاریخی حیثیت آج بھی مسلم ہے، ان دنوں کا شمار دنیا کی قدیم یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے، جہاں دوسرے ملکوں سے لوگ کشاں کشاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ 


یہاں پٹنہ یونیورسٹی نالندہ یونیورسٹی، مگھدھ یونیورسٹی، متھلا یونیورسٹی اور ویر کنور یونیورسٹی جیسے علمی ادارے،آج بھی موجود ہیں اور علمی حیثیت سے ممتاز و فائق ہیں۔ لیکن جس قدر یہ صوبہ اپنی علمی ، تاریخی، تہذیبی اور تمدنی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی ایک پہچان بنائے ہوئے ہے، وہیں اس صوبہ کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں، غربت، بے روز گاری اس صوبہ کا بڑا اور اہم مسئلہ ہے، 


اس کی وجہ کچھ تو قدرتی ہیں، کہ آدھا بہار نشیبی علاقہ میں ہے اور سیلاب کی وجہ سے ان کی زراعت اور کاشت تقریباً ہر تباہ ہوجاتی ہے، جس سے معیشت برباد ہوجاتی ہے،آج تک کسی بھی حکومت نے اس کی تدبیر اور حل کے لیے سنجیدگی سے نہیں سوچا اور نہ حکومت نیپال سے مل کر گفتگو کی اور اس کے لیے کوئی صحیح حل تلاش کیا،

 دوسری وجہ بہار کا دوسرے صوبوں کے مقابلے میں پیچھے رہنے کی یہ ہے کہ یہاں کارخانے اور فیکٹریاں نہ کے برابر ہیں،اور ترقیاتی کاموں کا خاطر خواہ نہ ہونا ہے بھی اس کی ایک وجہ ہے، جس کی وجہ سے بہار کے لاکھوں نوجوان مجبور ہیں کہ وہ دوسرے صوبوں میں کام کاج کرکے زندگی بسر کریں اور روزی روٹی کا مسئلہ حل کریں ۔ جھارکھنڈ کے علاحدہ ہونے کے بعد اس کی غربت اور پسماندگی میں مزید اضافہ ہو گیا کیونکہ جتنے کھنج اور معدنیاتی علاقے تھے، وہ سب جھارکھنڈ میں تھے۔ 


۔ابھی تک جتنی حکومتیں آئیں انہوں نے بہار کو ترقی کی اس راہ پر نہیں پہنچایا جو بہار اور اہل بہار کی قسمت کو بدل سکے۔ ایک طویل مدت (درمیان میں کچھ دیگر حکومتیں بھی آییں) تک کانگریس نے مرکز کے ساتھ ساتھ بہار پر حکمرانی کی مسلمان ، دلت اور اعلی ذات کے ووٹ کی سیاست کرکے انہوں لمبی حکومت کی، لیکن بہار کی غربت و پسماندگی کے ازالہ اور خاتمہ کے لیے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ۸۹/ کے بعد اپنے کرتوت کی وجہ سے کانگریس کا زوال شروع ہوا اور آج تک وہ اپنی ہار اور شکست کو فتح میں نہیں بدل سکی۔۔۔

 اس میں اس کی منافقت اور منفی پالیسیوں کا بھی دخل ہے۔۔ اس کے بعد منڈل کمیشن کی آواز اٹھا کر وی پی سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے جن سنگھ اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کو ضم کرکے جنتا دل بنایا، مرکز میں بھی کئی کمزور سرکاریں  بنیں۔ اور گر گئیں، لیکن بہار میں لالو یادو نے جتنا دل کے ٹوٹنے کے بعد اپنی الگ راشٹیہ جنتا دل بنا کر پندرہ سال تک حکومت کی، اس نے بھی بہار کے لیے کچھ نہیں کیا، 

سوائے اس کے کہ ہندو و مسلم فساد پر بہت حد تک کنٹرول کرلیا، مسلمانوں نے سمجھا کہ چلو جان ہے تو جہان ہے، وہ اس حکومت کو ووٹ دیتے رہے، انہوں نے اس کی فکر نہیں کی کہ اس حکومت میں مسلمانوں کی نوکری اور ملازمت کی شرح بالکل حاشیہ پر ہے، لاکھوں ٹرینڈ نوکری اور ملازمت کی حسرت لیے بیھٹے رہے اور بہت تو آخرت کی طرف سدھار گئے۔۔۔ 


                لالو پرساد یقینا سیکولر نیتا تھے اور آج بھی ہیں ، ان میں دو رنگی نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی ایک الگ شبیہ اور پہچان رکھتے ہیں، لیکن ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے اس کی پارٹی بھی زوال کا شکار ہوگئی اور پھر اس کے سیاسی ساتھی اور دوست نتیش کمار جو پہلے لالو کے ساتھ تھے الگ پارٹی بنائی اور اس کو جیت دلائی، زمام اقتدار سنبھالا اور اپنی مہین اور نفاق زدہ سیاست شروع کی، اس نے یقینا بہار کو ترقی دلائی، 

بجلی پانی اور سڑک کا بہت حد تک انتظام کیا، لیکن بھاجپا کی گود میں بیٹھ کر مسلمانوں کو بہت نقصان بھی پہنچایا اور مسلمانوں کے خلاف جتنے بھی بل پاس ہوئے اس میں اس نے کھل کر بھاجپا  کا ساتھ دیا اور اس کے منفی منصوبے اور عزائم کو تقویت فراہم کرتے رہے۔۔ 


       یہ شخص انتہائی ہوشیار ، چالاک، مہین اور موقع پرست ہے، حال یہ ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، حکومت کا ایسا چسکا لگا ہے کہ وہ کسی حد تک اس کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ موجودہ تبدیلی سے مسلمانوں کو بہت خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ یہاں کون کب کس کا دوست اور دشمن بن جائے کہا نہیں جاسکتا، ہاں زعفرانی پارٹی کو جو چکما دیا ہے، سبق سکھایا ہے،اور اس کے وار کو اسی پر چلا دیا یہ بہت مزہ کی بات ہے۔ 

           نوٹ / مضمون کا اگلا حصہ کل ملاحظہ کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad