تازہ ترین

جمعہ، 5 اگست، 2022

کچھ لوگوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے نفرت کیوں ہے !

کچھ لوگوں کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے نفرت کیوں ہے !
تحریر: مسعودجاوید 

١- جمعہ ، عیدین اور باجماعت پنج وقتہ نماز اجتماعیت، یکسانیت اور مساوات کے مظاہر ہیں ۔
ہماری اس اجتماعی عبادت سے کسی غیر مسلم کا مذہبی جذبات مجروح کس طرح ہو سکتا ہے ! 

سیکولر ملک اور جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے
کہ وہ دستور ہند میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو دی 
گئی آزادی کو ، بلا تفریق مذہب کسی فرقہ کی خوشنودی یا بے جا اعتراض کو خاطر میں لائے، تحفظ فراہم کرے۔ 

٢- اللہ نے نماز کو وقت مقررہ پر ادا کرنا فرض کیا ہے اس لئے جہاں وقت ہو جائے وہاں نماز ادا کرنا اس حقیقت کا مظہر ہے کہ مسلمان اس اللہ کی عبادت کرتا ہے جو ہر جگہ موجود ہے اور جس کی نعوذ باللہ کوئی شبیہ کوئی مجسمہ کوئی بت کوئی شکل نہیں ہے۔ 


دیگر مذاہب کی کتابوں میں بھی اللہ کی وحدانیت اور निराकार ہونے کی بات موجود ہے۔ 
دستور نے ہر شہری کو اس کی پسند کے مذہب کی اتباع اور دینی شعائر کو اپنانے کا حق دیا ہے۔ 



ہندوستان جیسے مختلف مذاہب اور متنوع ثقافتوں والے ملک کی یہ خوبصورتی ہے کہ مختلف مذاہب اور کلچر والے لوگ اپنے اپنے دینی عقائد اور سماجی ریتی رواج کے مطابق عبادات، پوجا پاٹ اور prayer کرتے 
ہیں۔  دینی شعائر اپناتے ہوئے کوئی صلیب پہنتا ہے ،
کوئی ٹوپی پہنتا ہے اور کوئی جینیو ، ٹیکہ، تلک ۔  ایک ہی محلے، گلی اور کالونی میں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں مگر کبھی کسی دوسرے مذہب والے کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوئے اور کبھی کسی نے شکایت نہیں کی۔ اس کے برعکس دوسرے مذاہب والے نہ صرف تہوار کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات انتظامات مکمل کرنے میں ہاتھ بھی بٹاتے ہیں ۔ 


٣- مشرق بالخصوص برصغیر ہند میں مہذب سماج کی خواتین صدیوں سے مہذب اور محتشم لباس زیب تن کرتی ائی ہیں۔ یہ مہذب لباس کہیں مذہب تو کہیں سماجی ریتی رواج سے متاثر ہوتا تھا ۔ ہندو خواتین  گھونگھٹ ، عیسائی مذہبی خواتین اسکارف اور ڈھیلے گاؤن اور مسلم خواتین حجاب اور برقعہ ڈھیلا ڈھالا گاؤن جس سے جسم کے نشیب وفراز ظاہر نہ ہوں، پہنتی آئی ہیں۔ 


 ان لباسوں پر کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا اس لئے کہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو اسے معلوم ہے کہ دستور میں دی گئی آزادی کے تحت کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔

 مسلمانوں کو غیر مسلموں کے کسی مذہبی شعائر اور سماجی ریتی رواج پر کبھی بھی اعتراض نہیں ہوا۔ کرسمس منانے والے کرسمس منائیں، ہولی دیوالی دسہرہ منانے والے ہولی دیوالی دسہرہ منائیں۔ ہمارے مذہبی جذبات  مجروح نہیں ہوتے ہیں اور ہونا بھی نہیں چاہیے ۔ 

٤- سرکاری  تعلیمی اداروں میں کسی مذہب کو فروغ دینے والی کتابیں پڑھانے کی اجازت نہیں ہے اس لئے کہ سرکار سیکولر  ہے جسے دستور ہند کے مطابق  کسی مذہب کو فروغ دینے یا کسی مذہب کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔  


تاہم اقلیتی اداروں مثال کے طور پر اردو اور سنسکرت اسکولوں میں کچھ خصوصی رعایت دی گئی ہے اسی رعایت کے تحت  اسکول کوڈ میں یہ لکھا ہے کہ اردو اسکولوں میں ہفتہ وار چھٹی اتوار کی بجائے جمعہ کو دی جا سکتی ہے اور سنسکرت اسکولوں میں ہر مہینے کی ١, ٨, ١٥ اور ٢٣ کو ۔

٥- اذان یومیہ پنج وقتہ نمازوں کے اوقات میں مسلمانوں کو یاد دہانی کرانے کے لئے دی جاتی ہے کہ اس مسجد میں جماعت سے نماز ادا کرنے کا وقت ہو گیا ہے آ جائیں۔ کم علمی، جہالت یا دانستہ نشانہ بنانے کے لئے بعض لوگ بشمول بعض لبرل مسلمان کہتے ہیں کہ اذان چلا کر یا لاؤڈ اسپیکر سے دینے کی ضرورت کیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ چپکے سے اذان کے الفاظ کہنے سے نہیں سنیں گے! یہ لوگ اپنی بات کی تائید میں کبیر داس کا دوہہ پیش کرتے ہیں :
 कांकर पाथर जोरि कै मस्जिद लई बनाय 
ता चढ़ि मुल्ला बांग दे क्या बहरा हुआ खुदाय?

پہلی بات یہ کہ کبیر داس بہت بڑے کوی ہو سکتے ہیں انہوں نے ہر مذہب کے بعض  طور طریقوں پر تنقید کر کے اصلاح کی کوشش کی لیکن حیرت ہے انہیں یہ نہیں معلوم کہ   اذان کے مخاطب اس مسجد کے  علاقہ کے مسلمان ہیں نہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ یا غیر مسلم۔  


دوسری بات یہ کہ وہ دین اسلام پر کوئی اتھارٹی نہیں تھے کہ ان کے دوہے کو بطور سند پیس کیا جائے اور ہم تسلیم کریں ۔ 


 اذان بمشکل تین چار یا پانچ منٹ میں پوری ہو جاتی ہے۔ بحث برائے بحث کے تحت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اذان دوسروں کی نیند اور سکون میں مخل ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے غیر مسلم اس کے عادی رہے ہیں اور مسلمان بھجن، کیرتن اور آرتی کے۔ کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ فجر کی اذان تو بمشکل پانچ منٹ میں ختم ہو جاتی ہے لیکن بھجن کیرتن آرتی طلوع آفتاب سے پہلے شروع ہوکر تقریباً ایک گھنٹہ تک لاؤڈ اسپیکر سے آواز آتی رہتی ہے اور ہم میں سے کسی کو ادنی درجے کی کوفت نہیں ہوتی ہے۔  


پچھلے کچھ دنوں سےحجاب،  اذان، جمعہ کی چھٹی، پبلک مقامات پر جمعہ اور عیدین کی نماز اور کسی بھی جگہ یومیہ پنج وقتہ نمازوں میں سے کوئی نماز ادا کرنے پر بعض لوگ اعتراض کر رہے ہیں!  
ہے نا تعجب کی بات ! 


ہماری عبادتوں کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ جس قدر شور شغف کے بغیر ادا کی جاتی ہے وہ عنداللہ اتنا ہی مقبول ہوتی ہے۔ تو ہر قسم کی ہنگامہ آرائی، شور شغف اور ڈھول باجے سے پاک پرسکون چند منٹ کی عبادتوں سے کس کی نیند اور سکون میں خلل واقع ہوتا ہے ! 


ہر مذہب کے لوگوں کو ان کے مذہبی عقائد، عادات اور رسومات کے ساتھ قبول کرنے والے ہندوستان کی یہ تصویر نہیں ہے۔ 


۔वासूदेव कुटुंब ،رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اس ملک کی شناخت ہے اسے باقی رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad