تازہ ترین

ہفتہ، 11 نومبر، 2017

مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی نظریات


مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی نظریات
ازقلم،ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی 
اسسٹنٹ پروفیسر ممتاز پی جی کالج لکھنؤ 
آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا آزاد کی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت ہند کا ایک دانشمندانہ قدم یوم تعلیم کے طور پر منایا جانا قابل مبارکباد ہے جو پچھلے متعدد سالوں سے ملک کے تعلیمی رفاہی سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں منایا جارہا ہے ، یہ ایک ایسا قدم ہے جس سے معماران بھارت کا اچھا تعارف ممکن ہےجنھوں نے انگریزی استعمار سے ملک کو آزادی دلائی تھی ،یقینامولانا ابو الکلام آزادبھارت کے ان رہنماؤں میں سے تھے جن پر بھارت ہمیشہ ناز کرے گا۔ مولانا آزاد 11نومبر 1888ء میں عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے جب وہ دس سال کے تھے ان کے والدین بھارت آئے اور کلکتہ میں بس گئے۔ مولانا کو کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا مگر ان کے والد ان کو نصاب کی کتابوں کے سواء کوئی کتاب پڑھنے نہیں دیتے تھے لیکن وہ چوری سے دوسری غیر درسی کتابیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ وہ بچہ جو کتابوں پر جان چھڑکتا تھا اس کا نام محی الدین احمد تھا جو بڑا ہوکر مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوا۔مولانا نے اردو، انگریزی، فارسی اور عربی کی بے شمار کتب کا مطالعہ کیا۔ان کا حافظہ غضب کا تھا جو کتاب ایک بار پڑھ لیتے دماغ میں محفوظ ہوجاتی جو شعرا یک بار سن لیتے عمر بھر کیلئے یاد ہوجاتا۔ انہوں نے کم عمری میں لکھنا شروع کیا تھا۔ اخبار میں ان کے مضامین پڑھ کر لوگ سمجھتے کہ ان کا لکھنے والا کوئی بزرگ عالم ہے انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ترجمان القرآن، تذکرہ اور غبار خاطر بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد نے سینکڑوں انقلابی مضامین الہلال خبار میں لکھے جس کے پڑھنے سے عوام میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی۔ آزاد بہت اچھے مقرر تھے انہوں نے اپنی جوشیلی تقریروں سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑادی۔وطن کی آزادی کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت قربانیاں دیں، کئی بار جیل گئے۔ گاندھی جی ان کی ذہانت، قابلیت ، اور تدبر کو مانتے تھے۔ جواہر لال نہروان کو بڑا بھائی کہتے تھے جب بھارت آزاد ہوا تو مولانا ابو الکلام آزاد کو بھارت کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالتے ہی مولانا نے یہ عزم کیا کہ بھارت میں تعلم وتعلیم کی ایسی پختہ بنیاد ڈالی جائے جس پر آنے والی نسلیں ایک عالی شان محل تعمیر کرنے کاکام بخوبی انجام دے سکیں۔
مولانا آزاد نے سرسید احمد خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت ی عوام کے کندذہنوں کو تراش کر ان میں جدوجہد، ترقی کرنے کا جوش پیدا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی ساری زندگی اپنے خواب کے تکمیل میں صرف کردی۔ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروے کار لاکر ایسا جہاد شروع کیا جس کا مقصد نسلوں کی تعمیر واصلاح تھا اس مقصد کے تحت انہوں نے قوم کو تعلیم کے حصول کیلئے تیار کیا او رکہا کہ جب تک ہماری قوم تعلیم سے روشناس نہیں ہوگی تب تک زمانے سے قدم ملاکر چلنے کی اہل نہیں ہوگی۔وہ کہا کرتے تھے کہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں ہمارے لئے ہرحال میں ضروری کام عوام کی تعلیم ہے یہی کام سب سے زیادہ اہم ہے اور اسی کام سے ہمیں دور رکھا گیا۔ مولانا آزاد نے اپنی تحریر وتقریرکے ذریعہ عوام میں بحیثیت وزیر تعلیم اس زمانے میں ملکی و ریاستی سطح پر تعلیمی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے مرکزی، ریاستی سطح پر ملک میں تعلیم کو عام کرنے کیلئے کئی اہم اقدام اٹھائے۔نئے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں کاقیام عمل میں آیا۔ انہوں نے تعلیم وتحقیق کے جو مراکز قائم کئے ان میں سنگیت اکیڈمی، ساہیتہ اکیڈمی اور للت اکیڈمی قابل تعریف انہوں نے تعلیم نسواں، پروفیشنل تعلیم اور تعلیم صنعت وحرفت کو بھی اہل وطن کیلئے ضروری قرار دیا۔ ان کی کوششوں سے1948ء میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات مہیا کرانا تھا جو اس زمانے میں نہیں تھی۔1956ء میں انہوں نےUGCکو قائم کرکے اعلیٰ تعلیم کو زیادہ وسائل عطا کئے۔ مولانا آزاد پنڈت نہرو کے اس قول سے متفق تھے کہ اگر بھارت ی یونیورسٹیاں اپنے کام کو بخوبی انجام دیں تو یہ ملک کی ترقی میں ایک اہم قدم ہوگا۔ آزاد نے دیگر علوم فنون کے ساتھ فنی تعلیم کی ضرورت بھی محسوس کی اور اس کیلئے آل انڈیا کونسل فارٹیکنیکل ایجوکیشن کے نام سے ایک مرکزی ادارہ عمل میں لائے او رملک بھر میں ٹیکنیکی تعلیم کے نئے شعبہ قائم کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔انہوں نے1951ء میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کے قیام کو عمل میں لایا جو بعد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑک پور کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد ازاں ملک کے دیگرشہروں میں بھی اس طرح کے کالجوں کی شاخیں قائم کی گئیں جو اس دور میں ملک کی تعلیمی ترقی میں کوشاں ہے۔ مولانا آزاد پہلے شخص تھے جنہوں نے بھارت ی تعلیم بالغانو متعارف کروایا۔ ملک کے ادبی او رتہذیبی ورثے کو محفوظ رکھنے کیلئے انہوں نے شہروں میں ایجوکیشنل لائبریریاں قائم کی جہاں بیٹھ کر لوگ اخبارات پڑھتے اور رسالوں کا مطالعہ کرتےوزارت تعلیم سنبھالنے کے بعد ۱۸ فروری ۱۹۴۷ء کی پریس کانفرنس میں مولانا آزاد نے تعلیم کے تعلق سے اپنے بنیادی نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحیح طور پر آزادانہ اور انسانی قدروں سے بھرپور تعلیم ہی لوگوں میں زبردست تبدیلی کا باعث ہوسکتی ہے اور انہیں ترقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ چنانچہ تعلیم وثقافت کے ضمن میں مولانا نے جو کام کئے ان میں سب سے اہم کوشش لکھنؤ میں دینی مدارس ، مکاتب اور دارالعلوم کے سربراہوں کی کانفرنس تھی، جس میں انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید معلومات اور ترقی یافتہ صورت کو اپنے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا تھا، مولاناچاہتے تھے کہ مشرقی ومغربی علوم میں ہم آہنگی پیدا ہو، یہ ترقی پذیر بھارت کے لئے ان کا ایک پرخلوص جذبہ وکوشش تھی، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تعلیم کا واحد مقصد روزی اور روٹی کمانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا کام بھی لیا جائے اور یہی تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی وتمدنی نظام بھی بہتر ہوسکے گا۔مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی نظریات کی بنیاد چار امور پر استوار ہے۔ ایک ذہنی بیداری، دوسرے اتحاد وترقی، تیسرے مذہبی رواداری اور چوتھے عالمی اخوت، مولانا کے خیال میں آزاد بھارت میں تعلیم کا سب سے اہم مقصد نئی نسل میں ذہنی بیداری پیدا کرنا ہونا چاہئے کیونکہ انگریزوں کے طریقہ تعلیم نے نوجوان نسل کے لئے دو زہریلے نظریات پیدا کردیئے تھے ایک غلامی دوسرے علاحدگی پسندی، انگریزوں کے تعلیمی نظام کا مقصد حکومت کے لئے ایسے کارندے پیدا کرنا تھا جو ان کے کام آئیں، اسی مقصد سے انہوں نے علاحدگی پسندی کا بیج بویا اور طریقہ تعلیم کو اس کے لئے سب سے موثر وسیلہ بنایا، لہذا سب سے پہلے اس زہرکو نئی نسل کے ذہنوں سے نکالنا چاہئے اس کے بعد آزاد بھارت کے تعلیمی مقاصد میں غلامی کی جگہ آزادی اور تعصب کی جگہ مذہبی رواداری کو ملنا چاہئے جس کے نتیجہ میں ہم مغربیت کے بجائے اپنے شاندار ماضی پر فخر کرسکیں گے، مولانا تعلیم کو صرف ملازمتوں کے حصول کا ذریعہ بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اس کے وسیلہ سے ذہنوں میں بیداری لانے اورانہیں آئندہ زندگی میں خودکفیل بنانے پر زور دیتے تھے، تقریباً دو صدیوں تک مغربی اور انگریزی طرز تعلیم نے نئی نسل کو جس علامانہ ذہنیت او رتنگ نظری کا شکار بنادیا تھا، لوگ انگلستان جاکر تعلیم حاصل کرنا باعث فخر سمجھتے اور ملک کے علمی سرمایہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اس صورت حال میں تبدیلی لانا ضروری تھا ، پٹنہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے فرمایا تھا :سوال یہ ہے کہ اب تک تعلیم پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں تھا اس پر غیر ملکی حکومت کا قبضہ تھا، جو کچھ انہوں نے پڑھایا، ممکن ہے صحیح ہو۔جس طرح پڑھایا اس نے ہمارے ذہنوں کو بجائے کھولنے کے بند کردیا۔مولانا نے ہر موقع اور ہر فکر وعمل میں درمیان کی راہ اپنانے کی تلقین کی، ان کے خیال میں آزاد بھارت کیلئے مغربی طرز تعلیم اور مشرقی طرز تعلیم کے درمیان کی راہ ہی مفید ہوگی اس لئے آئندہ ہمارا طریقہ تعلیم ایسا ہو کہ دل دماغ اور عقلیت وروحانیت میں توازن قائم رہے، نصاب او رطریقہ تعلیم کے بارے میں بھی ان کی رائے بڑی معتدل اور معقول تھی وہ نصاب ودرس کے تعلق سے جدید یت کے اور طریقہ تعلیم کے لحاظ سے قدیم کے قائل تھے۔ مولانا کے تعلیمی فلسفہ کی بنیا دمشرقی افکار اور مغربی نظریات میں ہم آہنگی وتوازن پر مشتمل تھی تاکہ نئی نسل میں جہاں سائنس کا صحیح استعمال آجائے، وہیں ا س کے ذریعہ ان مقاصد کا حصول بھی ممکن ہو جو انسانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ناگزیر ہیں۔ ایک عالم دین اور مشرقی اقدار کے علمبردار ہونے کے باوجود مولانا نے سائنس اور مغربی ٹیکنالوجی کی تعلیم کو ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر سمجھا، ان کے خیال میں جو اچھا ہے، جہاں سے ملے لے لو اور جو خراب ہے، جہاں بھی ہو اسے چھوڑ دو، یہی مولانا آزاد کا لائحہ عمل تھا اور زندگی بھر وہ اس پر کاربند رہے۔ یہ ملک سماجی، معاشرتی، لسانی اور مذہبی لحاظ سے دنیا کا واحد ملک ہے، جس کا دامن گلہائے رنگا رنگ سے مزین ہے، بہ الفاظِ دیگر یہ اوتاروں ، رشیوں اور خدا ترس لوگوں کا ملک ہے ، اس ملک میں تقریباً اناسی مذاہب اور سات سو تین ذات و برادری اور قبائل کے لوگ آباد ہیں اور یہی وہ ملک ہے جہاں کئی مذاہب تو معرض وجود میں آئے، کئی مذہبی پیشواؤں کو اسی سرزمین میں علم ومعرفت حاصل ہوئی ، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگوں میں فطرتاً تقابلی مزاج پایا جاتا ہے،بلکہ تفاوت اور برتری کا مزاج؛ قدیم ہندوستا ن میں بھارت ی انسانوں کی تقسیم ذاتیات اور طاقتوں کی بنیاد پر تھی،ان میں برہمن اور راجپوت سب سے اعلیٰ تھے، تمام لوگوں پر ان کی اطاعت وفرمان برداری فرض تھی، یہی تمام مذہبی امور میں دخیل وسہیم سمجھے جاتے تھے، بلکہ مندر اور معبد گاہوں کے بھی یہی بڑے پروہت اور کرتا دھرتا ہوا کرتے تھے، جبکہ کھشتری کو بھارت میں دوسرا مقام حاصل تھا، یہ برادری انتہائی طاقتور اور تلوار بازتصور کی جاتی تھی، اس لیے اسے ہندو سماج کا سپاہی کہا جاتا تھا،بلکہ سیاسی سارے اختیارا ت انہی کے ذمہ تھے اور یہ کھشتری اپنی طاقت کے بل بوتے دوسری حکومتوں کے تخت تارج کرتے اور برہمن ان پر حکومت کا من چاہی لگام کستے ، ان کے علاوہ پوری عوام انہی دونوں برادریوں کی غلام ہوتی اورجو نچلی ذات کے لوگ ہوتے وہ اس معاشرے میں غلیظ جانور بنام انسان اچھوت تصور کیے جاتے تھے اور کسی برہمن کا سب سے بڑاجرم یہ ہوتاتھاکہ وہ کسی شودر کو انسان سمجھنے کی بھول کردے، ان مظلوموں کو نہ تو مندروں میں جانے کی اجازت تھی اور نہ ہی برہمنوں کے علاوہ ان کا کوئی اورتصوراتی خدا ہوسکتا تھا، جب کوئی شودر گناہ کرتا ،تو برہمنی خود ساختہ قانون ان پر برقِ بے اماں بن کر ٹوتتا اور اگر وہی گناہ کسی برہمن یا کسی بڑی ذاتی کے کسی فرد سے سرزد ہوجاتا ،تو اپنی دیوں کو خوش کرنے کے لیے انہی مظلوم قوم کی جواں عمر بہو بیٹیوں کی بلی چڑھائی جاتی تھیں،الغرض قدیم ہندو سماج میں عجیب وغریب انسانیت سوز خود ساختہ قوانین رائج تھے، انسانوں کے درمیان عدمِ انسانیت کا ایک باغیانہ نظام تھا، شودر اور نچلی ذات کے لوگوں کا یہ سوچ لینا بھی کسی جرمِ عظیم کے ارتکاب سے کم نہیں سمجھاجاتا تھا کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو انسان سمجھیں ، انسان تو درکنار اگر کبھی ان کے دلوں میں اس کا خیال بھی آتا، تووہ کانپ اٹھتے کہ کہیں دیوی ماتا ان کے گھر بار کو ویرانۂ وخراباں نہ کردے ۔اللہ کی پناہ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad