تازہ ترین

ہفتہ، 11 نومبر، 2017

کیا ہم سب اپنے اسلاف کے نقشے قدم پر ہیں؟


کیا ہم سب اپنے اسلاف کے نقشے قدم پر ہیں؟
ناقل،ریحان اعظمی۔
بیتے دنوں یعنی بروز بدھ کو میرا وائی فائی خراب ہونے کی وجہ سے مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب کی کتاب تذکرۃ علماء اعظم گڑھ مطالعہ کرنے کا موقع ملا،اگر وائی فائی خراب ناہوتی تو شاید یہ موقع اتنی جلدی ناملتا،اس موقع کو غنیمت جان کر مطالعہ شروع کیا، میں مطالعہ کا بہت شوقین ہوں،مگر بدقسمتی سے دنیاوی،اور نیوز پورٹل کے چکروں میں ایسا الجھا ہوا ہوں کہ مطالعہ کیا کھانا کھانے کی بھی ڈھنگ سے نصیب نہیں ہوتا۔اسی کتاب میں دو علماء کرام کے واقعات پڑھا سوچا آپ لوگوں کے گؤش گزار کروں،ایک ہیں حضرت مولانا شفیع صاحب بانئ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ،اور دوسرے ہیں حضرت مولاناضمیر احمد صاحب اعظمی، آج دیکھتا ہوں تو یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہم سب چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر کے ماننے والےہوں،اپنے اسلاف کے طریقے پر نہیں ہیں،آج ہم ایک دوسرے کے گریباں چاک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔مولانا شفیع صاحب کا آبائی گاؤں سیدھا سلطان پور اعظم گڑھ میں ہے،مولانا کی پیدائش کے کچھ سال بعد ہی والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا،تو ساری ذمہ داریاں چچا نے اٹھائی۔مولانا کے چچا حافظ قادر بخش صاحب دانا پور پٹنہ میں درسی خدمات انجام دے رہے تھے،سات سال کی عمر میں اپنے بھتیجے کو بھی ساتھ لے گئے،اور وہیں اپنے پاس ہی حفظ کرایا اور اسکے بعد ناریل گھاٹ کے مدرسہ میں داخل کرادیا،اسوقت یہ مدرسہ اہل حدیث مکتبہ فکر کا ممتاز مدرسہ سمجھا جاتا تھا اس مدرسے 1889ء میں فراغت حاصل کی کچھ دن وہیں کے مدرسے میں تدریسی فرائض انجام دئیے اسکے بعد اپنے وطن سیدھا سلطان پور اعظم گڑھ کا رخ کیا۔اور پھر یہیں پر رہ کر کئی جگہوں پر تدریس کے فرائض انجام دئیے،انکے شاگرد تو کئی ایک ممتاز مقام حاصل کئیے ہیں،انہیں نام میں ایک نام علامہ اقبال سہیل کا بھی ہے،مولانا کی تربیت چونکہ ایک دیندار گھرانہ میں ہوئی تھی، اسلیئے تعلیم سے فراغت کے بعد اصلاح باطن ،تزکیہ نفس کی طرف دھیان پیدا ہوا تو انہوں نے حضرت چاند شاہ ٹانڈوی سے بیعت ہوگئے،ایک دن حضرت چاند شاہ ٹانڈوی نے مولانا سے فرما،بھیا شفیع صاحب صفیانہ بکھیڑوں میں زیادہ مت پڑو جتنا کرتے ہو اس سے زیادہ کی آپکو ضرورت نہیں،اللہ تعالیٰ آپ سے دوسرے طرز کا کام لینے والا ہے،آپ کے ذریعے مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح ہوگی،اور علم دین کا ایسا سرچشمہ پیدا ہوگا جس کا فیضان دور دور تک پہنچے گا،چنانچہ حضرت چاند شاہ ٹانڈوی کی بشارت انجمن اصلاح المسلمین اور مدسۃ الاصلاح کی شکل میں ظاہر ہوئی۔آپ کو بتاتا چلوں کہ آپ نے تعلیم اہل حدیث مکتبہ فکر کے مدرسوں میں حاصل کی ہے تزکیہ نفس واصلاح باطن صوفیاء کرام کے پاس جاکر کروارہے ہیں،اور تو اور مدرسۃ الاصلاح کی بنیاد مولانا اصغر حسین محدث دیوبندی(رح) کے ہاتھوں رکھوائی،اسکے بعد یہ قافلہ آگے بڑھتا رہا،اور نظامت علامہ شبلی نعمانی کے حوالے کردیتے ہیں،ذرا سوچیں آج کیا ہم سب تنگ نظری کے شکار نہیں ہیں۔اپنے سے آگے کسی کو جانا پسند کرتے ہیں؟اپنے مسلک کے علماء کا ادب واحترام کرتے ہیں،باقی دوسرے مکتبہ فکر کے علماء کو گالیاں بکتے نہیں تھکتے ،جبکہ ہمارے اسلاف کا تو یہ طریقہ نہیں رہاہے۔
دوسرے ہیں مولانا ضمیر احمد صاحب، انکا آبائی گاؤں حاجی پور ضلع اعظم گڑھ میں ہے،انکے والد محترم کانام حافظ محمد اسماعیل ہے،وہ بریلوی مکتبہ فکر بانی مولانا احمد رضا خان بریلوی(رح) کے شاگر اور خلیفہ و مرید تھے،اور اپنے علاقے میں بریلوی مسلک کے داعی و مبلغ بھی تھے،اور علماء دیوبند کے شدید مخالف حتی کہ انکا نام بھی سننا انکو گوارا نہیں تھا، اسے کرشمہ خداوندی کہے کہ جس مکتبہ فکر کا نام سننا پسند نہیں کرتے تھے اسی مدرسے کی معنوی شاخ مدرسہ بدرالاسلام شاہ گنج میں اپنے فرزند ارجمند حضرت مولانا ضمیر احمد صاحب کو تعلیم و تربیت کے لئے داخل کرادیا،وہاں پر دو نامور عالم مولانا جمیل احمد جونپوری،اور مولانا دین محمد صاحب کا فیض علم پوری فراونیوں کے ساتھ جاری تھا،ان دونوں کو مولانا ضمیر احمد صاحب کے والد محترم کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا،اسلئیے مولانا ضمیر احمد صاحب پر خاص توجہ دی،اورجب مولنا ضمیر احمد صاحب نے بدرالاسلام سے عربی چہارم تک کی پڑھائی مکمل کرلی تو انکے والد کو مولانا جمیل صاحب نے دارلعلوم دیوبند میں داخلہ کے لئیے راضی کیا،اور والد محترم ہچکچاتے ہوئے دارالعلوم میں داخلے کے لئیے راضی ہوئے،اسوقت وہاں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی،شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہی،علامہ محمد ابراہیم بلیاوی،حکیم الاسلام مولانا قاری طیب وغیرہ جیسے اساطین علم وعرفان کی علمی وروحانی سرگرمیوں سے قرطبۂ ثانی بناہوا تھا۔مولانا ضمیر احمد صاحب نے دارالعلوم میں پانچ سال رہ کر دورۂ حدیث پڑھ کر فارغ التحصیل ہوگئے۔انہیں طالب علمی کے زمانے میں آپ کو اپنڈکس کا شدید درد اٹھا ڈاکٹروں نے جواب دے دیا،آخر میں حضرت شیخ الاسلام کے حکم پر پرائیویٹ ہاسپٹل میں داخل کرایا گیا،مرض کی شدت اور حالت کی نزاکت کی اطلاع بذریعہ تار ان کے والد کو دی گئی ،صاحبزادے کو دیوبند بھیجنے کی بدشگونی و نحوست کے تصور کے باوجود لخت جگر کی محبت میں بعجلت تمام دیوبند پہنچ گئے،ادھر خدا کا کرنا یہ ہواکہ ایک دن مولانا ضمیر احمد صاحب کی عیادت کے لئے شیخ الاسلام ہاسپٹل پہنچے،چونکہ مرض کا حملہ بہت شدید تھا اسلیئے مولانا ضمیر احمد صاحب اپنی زندگی سے بڑی حد تک مایوس تھے،اس لئیے حضرت شیخ سے دعاء مغفرت کی درخواست کی اور نماز جنازہ پڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا،حضرت نے انکی چارپائی کے پاس کھڑے ہوکر دعا کی اور فرمایا دل چھوٹا کیوں کررہے ہو،اچھے ہوجاؤ گے،اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ کی دعا قبول فرمائی اور اسی دن سے دھیرے دھیرے صحتیاب ہونے لگے،حتی کہ بغیر آپریشن کے مکمل صحت یاب ہوگئے،حضرت شیخ الاسلام کو جب معلوم ہوا کہ مولانا ضمیر احمد صاحب کے والد آئے ہوئے ہیں توانہوں نے انہیں اپنا مہمان بنالیا،حضرت شیخ الاسلام نے اپنی عادت کے مطابق اس نووارد مہمان کی بھی تواضع و اکرام میں کوئی کسر ناچھوڑی،جس سے انکے والد بے حد متاثر ہوئے کہ ہم لوگ انہیں گالیاں دیتے نہیں تھکتے اور یہ ہم پر اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کررہے ہیں،یہی تاثرانہیں دارالحدیث میں شیخ کے درس میں لے گیا،وہاں کی روحانی ماحول کا عکس ان کے قلب پر پڑا جس سے قلب پر نفرت وحشت کا جوپردہ تھا وہ بڑی حد تک دور ہوگیا،مولانا ضمیر احمد صاحب کے ایک درسی ساتھی نے انکے والد سے مزار قاسمی میں برائے فاتحہ خوانی چلنے کے لئے کہا،تھوڑا ہچکچاتے ہوئے وہاں تشریف لے گئے،اور انہیں کشف قبور کے عمل سے واقفیت تھی،وہاں پہنچ کر مراقب ہوئے تو دیر تک بیٹھے روتےہی رہے،وہاں سے اٹھے تو دل کی دنیا ہی بدل چکی تھی۔اپنی سابقہ غلطیوں پر ندامت ہوئے اور توبہ استغفار کرتے ہوئے واپس گھر لوٹے۔کہنا چاہئیے کہ قدرت کا یہی فیصلہ تھا کہ بیٹے کے سبب سے باپ کو ہدایت نصیب ہوئی،اس لئیے کہ فرزند بھی سعادت مند تھا اور والد بزرگوار بھی خوش بخت تھے۔
(نوٹ،زیادہ حصہ تذکرہ علماء اعظم گڑھ سے نقل کیا گیاہے۔)
اب آئیے ہم آج کے جدید ترین دور میں نظر گھماتے ہیں،اور کچھ سوال اپنےسےاوراپنوں سے کرتے ہیں؟کیا کوئی اتنا اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرے گا کہ نظامت اپنے بجائے کسی دوسرے کو ترجیح دے گا؟کیا کوئی باپ اتنا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرے گا کہ اپنے لخت جگر کو اپنے مکتبہ فکر کے مدرسے میں ناداخل کراکر بلکہ ایسے مکتبہ فکر کے مدرسے میں داخل کرائے،جسکا وہ کھلے عام مخالف ہو؟زرا سوچیں ایک بار نہیں دس بار سوچیں،بلکہ سوچیں نہیں اپنی سوچ کو بدلیں۔اور اپنے علماء کرام کے نقش قدم پرچلتےہوئے انکی طرح دل کو کشادہ کریں،تاکہ آپکا مخالف بھی اسمیں سما سکے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اسلاف کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
 میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا شاداب بھائی حاجی پور اعظم گڑھ  کا جنہوں نے مجھے یہ کتاب بطور ہدیہ پیش کی، اللہ تعالیٰ انہیں جزاء خیر عطاء فرمائے،تمام لوگوں کو تذکرہ علماء اعظم گڑھ،خاص کر اعظم گڑھ اور مئو کے لوگوں کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad