تازہ ترین

بدھ، 1 نومبر، 2017

تصویر وطن، عالمِ اسلام اور میرے احساسات:


تصویر وطن، عالمِ اسلام اور میرے احساسات:
؞ سمیع اللّٰہ خان ؞
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا دورانیہ تاریخ اسلامی کا ایسا باب ہے جہاں سے بے شبہ مؤمنین کے لیے من حیث المجموع ایک صاف پیغام ہے، عالم اسلام پر ہنوز جس طرح کے " شب خون " مارے جارہےہیں وہ اس کی تصویر مزید ستھری کررہےہیں، قوم کا وہ دھڑا جو راست ان صورتحال میں جی رہا ہے اس کا کردار کیا ہوناچاہیے یہ تو وہاں کے زمینی اہل حق طے کرینگے،
لیکن قوم کا وہ دھڑا جو دور دراز پر بستا ہے جس کے بس میں یہاں کی رسائی نہیں ہے، وہ کچھ کرے نا کرے لیکن اس پر فرض کے درجے میں ہے کہ، وہ کم از کم ایمانی برادری کی مجموعی صورتحال سے ضرور واقف ہو، عالمی تناظرمیں تصویرِ وطن کا جائزہ لیکر اپنا موقف اور اسٹینڈ واضح کریں، اہل نظر دانشوروں کے ذمے ہوتاہے کہ وہ اس بابت حقائق سے امت کو آگاہ کریں، یقینًا کوئی ایک اخبار یا دفتر اس بار گراں کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن اس دور مداہنت میں احقاق حق کے لیے جس قدر اور جیسی کوششیں ہورہی ہیں یہ اولوالعزمانہ کارناموں میں سے ہیں، انہی کوششوں میں نمایاں مقام ماہانہ میگزین " ندائے اعتدال " کا ہے
جس کی رُوح جواں سال مرد حُر ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی سے ہے، اس وقت میرے سامنے دو کتابیں ۔ تصویر وطن اور عالم اسلام ۔ نامی ہیں، میں نے ان کا بالاستیعاب مطالعہ کیا، یہ دونوں کتابیں ان فکر انگیز تجزیوں پر مشتمل تاریخی ریکارڈ ہیں جو رفیقِ محترم دکتور طارق ایوبی کے بصیرت افروز زندہ اور باضمیر قلم حق رواں سے " ندائے اعتدال " کے اداریوں کی صورت میں قلمبند ہوئے ہیں ۔
تصویر وطن کے اداریوں کی سطر سطر جہاں ہماری سہل انگاری پر کاری ضربیں لگاتی ہیں وہیں ارتقائی سرگرمیوں پر بھی ابھارتی ہیں، ان مضامین میں اگر ہماری ناکامیوں پر گرفت ہے تو وہیں اقدامات کے لیے راہ عمل بھی ہے، فسطائی سازشوں کی یہاں پرتیں کھلتی نظر آتی ہیں تو وہیں ان سے لوہا لینے کا دم خم بھی نظر آتا ہے،
یہ وہ وقت ہے کہ شرپسند عناصر پوری قوت سے ملک پر اثر انداز ہونا چاہتےہیں ان کے رات و دن کا ہر لمحہ اہل وطن کو پنجهء استبداد میں جکڑنے کے لئے وقف ہورہاہے لیکن دوسری طرف ہم ہیں جن پر ایک طرف تو یاس و قنوطیت کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مغلوب اور مردہ اقوام کی وہ بیماریاں جن پر تاریخ کے صفحات صراحتاً شاہد ہیں وہ امراض ہمارے معاشرے میں پھیلتے جارہےہیں، " سیاسی نزاعات، ملحدانہ جدتوں سے مغلوبیت، مفادات پر مبنی پالیسیاں، علاقائیت، تعصب و تنگ نظری، مذہبی جھگڑے، مسلکی تشدد، تحاسد و تباغض " یہ سب ہماری معاشرت میں غالب ہوتے جارہےہیں جن کا لازمی نتیجہ فکری افلاس، ذہنی دیوالیہ پن، محدود فکر اور مفاد پرستی ہے، جو کہ ہمارے سامنے بھی ہے، اور وہ معاشرہ جو اپنی من گھڑت اکثریت کے زعم میں منوسمرتی کے احیائی جذبے سے ہمیں چیلینج کرتا رہتا ہے وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی شرپسندانہ راہ پر اپنے مفادات کی قربانیوں کی تاریخیں رقم کرتے ہوئے کامیابی سے گامزن ہے 
ایسے میں تصویر وطن کے صفحات ملک میں انقلابی کوششوں کا عزم رکھنے والے جوانوں کے لئے، جذبۂ عمل اور خلوص و لگن کو مہمیز دینے کا منشور ثابت ہوں گے ۔
" تصویر وطن " کے مقدمے میں علم و تحقیق کی عظیم دانشگاه دارالمصنفین اعظم گڑھ: کے پختہ کار عالم دین مولانا عمیر الصدیق دریابادی لکھتے ہیں:
" ندائے اعتدال کے مضامین عام سطح سے بلند اور اس سے بھی زیادہ ایک مستقل فکرونظر کے پابند، لیکن سب سے زیادہ فائدہ مند اس کے اداریے نظر آئے، جن میں عام ادارتی تحریروں سے جدا، زندہ بلکہ سلگتے مسائل پر اظہار خیال ہوتا، ان مسائل کا تعلق عالم اسلام سے بھی ہوتا اور ہندوستان سے بھی، رفتہ رفتہ یہ احساس غالب آتا گیا کہ لہجہ میں بے باکی ہے اسلوب میں تیزی ہے، الفاظ کے انتخاب میں مصلحت یا یوں کہیے کہ مفاد کا دخیل نہیں، قلم آئین جواں مرداں سے واقف ہے اور سب سے بڑھ کر وہ اس حرمت کا قائل ہے جو فکرونظر کو طاہر و مطہر اور پاکیزہ بنادیتی ہے، خیالات کی صحت اور اصابت کے لیے ممکن ہے اس عمر کی ضرورت ہو جو دشت صحافت کی سیاحی میں گزری ہو، لیکن یہ کلیہ و مسلّمہ نہیں، دلیل کے لیے صرف مولانا ابولکلام آزادؒ کا نام ہی کافی ہے "
اترپردیش کے معروف ادیب اور دانشور ڈاکٹر انور حسین خان لکھتے ہیں:
" یہاں یہ بات بھی بہ طور خاص قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر طارق ایوبی صاحب نے شعوری طور پر صحافت کو شہرت، مالی منفعت یا عہدہ کی حصولیابی کا ذریعہ سمجھ کر نہیں بلکہ عبادت و ریاضت سمجھ کر اختیار کیا ہے، تاکہ، ظلم بربریت اور نا انصافی نیز فرقہ پرستی کے خلاف نہایت استقلال کے ساتھ قلمی جہاد کرسکیں، اور صحیح فکر کی ترسیل کریں "
چند سطروں کے بعد:
" ڈاکٹر صاحب، موصوف کی طرز نگارش اور افکار وخیالات نیز رجحانات میں ہمارے اسلاف عظام ابوالکلام آزاد ؒ کے فکروخیال اور اسلوب کی بلند آہنگی اور گھن گرج، مفکر اسلام مولانا علی میاں ؒ کی آفاقی سوچ و فکر اور خلوص و للہیت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ کی دل سوزی، دردمندی اور تڑپ کے گہرے نقوش ملتے ہیں، آپ کی تحریروں کو پڑھنے کے بعد بخوبی احساس ہوتاہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف ہمارے عبقری صحافیوں جیسے علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، محمد علی جوہر، مولانا عثمان فارقلیط،جمیل مہدی، محمد مسلم اور اس ضمن میں کتنے نام لیجیے جن کی آبرومندانہ روایات کے سچے امین ہیں "

میری بات لمبی ہوتی جارہی ہے اسلیے "عالم اسلام" کے متعلق اکابر اہل نظر علماء کے اقتباسات پیش کرتاہوں: 
حضرت مولانا سیّد سلمان حسینی مدظلہ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
" ایسے لوگ جو صحافت یا میڈیا اور ابلاغ کے ذرائع کا استعمال کرتےہیں، بہت ہیں، لیکن واشگاف کہنے والے، اور بے لاگ لکھنے والے ہر دور میں کم ہوتےہیں، محمد علی جوہرؒ کتنے تھے، اقبال جیسے الہامی شاعر اور کون تھے ‌، ابوالکلام آزادؒ کی گھن گھناہٹ اور حفظ الرحمٰن سیوہاروی کا جوش و خروش، اور کھلا چیلینج کتنوں کے بس میں تھا؟ 
حدی خوانوں کے اسی قافلہ کا ایک نوجوان حدی خوان ڈاکٹر طارق ایوبی بھی ہے، جس کے دل کو پروردگار نے حق کی معرفت عطا فرمائی، اور زبان و قلم کو طاقت گویائی بخشی، ابلاغ کے دائرۂ صحافت میں جس نے " اعتدال" کو نئے معنٰی دیے، جب " اعتدال " کمپرومائز (Compromize)( یعنی سمجھوتے) کے لیے بولا جارہا تھا، اور غیر جانبداری کے ہم معنی اس کو ٹھہرایا جارہا تھا، تو اس" بندۂ حر " نے " مردانِ حُرِ " کی پیروی میں کھل کر حق کا پرچم بلند کیا، اور جم کر باطل سے لڑائی لڑی، یہ مضامین در حقیقت اداریوں کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ چراغِ مصطفوی کی شرارِ بولہبی سے ستیزہ کاری ہے، جس میں الله نے اپنے بندہ کے لئے توفیق اور کامیابی ارزاں فرمائی، اللّٰہ کرے زور قلم اور زیادہ" ۔
عالم اسلام کے عظیم عالم حق اور نبض شناس دانشور پروفیسر محسن عثمانی صاحب مقدمے میں رقمطراز ہیں:
" ایسی کتابیں جن سے عالم اسلام سے گہری واقفیت ہو اور اسی کے ساتھ وہ کتابیں جو مردہ دلوں میں غیرت و حمیت اور زندگی کا انجکشن لگاسکیں بہت کم لکھی جاتی ہیں، ابوتراب ندوی کی " انقلاب شام " کے بعد اردو میں یہ پہلی کتاب ہے جس سے عالم اسلام کی دردناک صورتحال کا اندازہ ہوتاہے، 
ایک جگہ لکھتے ہیں: 
" ڈاکٹر طارق ایّوبی ان معدودے چند اہل قلم میں سے ہیں، جن کو اللّٰہ نے حق گوئی اور بیباکی کی توفیق بخشی ہے اور جن کو مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؒ کی دینی غیرت و حمیت وراثت میں ملی ہے "۔
صاحب نظر حق پسند عالم دین حضرت مولانا مجیب الرحمٰن صاحب لکھتے ہیں: 
" اللّٰہ نے ڈاکٹر طارق ایوبی کو دل دردمند کے ساتھ سیال قلم بھی عطا فرمایاہے، ان کی فکر و کاوش کے متعدد نقوش منظرعام پر آچکے ہیں اور اہل فکر و دانش میں متعارف ہوچکے ہیں "۔

اس وقت فضیلۃ الدکتور کی ان کے علاوہ چھ کتابیں یکے بعد دیگرے منظر پر آئی ہیں، جن میں نقوش فکر و عمل، مسجد اقصیٰ سے متعلق چالیس حقائق، کامیابی کی قرآنی علامتیں، اتحاد ۔ اہمیت و ضرورت، سیرت کا انقلابی پیغام، اور تعلیم و تربیت، شامل ہیں: رفیقِ محترم کی یہ فکر انگیز کاوشیں صدائے رستا خیزی اور ہنگامہء فردائی کی ہوشمند نقیب ہیں، شعور و فکر کی آبیاری کرنے والی غذائیں ہیں، میرے اپنے احساسات یہ ہیں ہیکہ، 
یہ مردِ خود آگاہ ہی نہیں خدا آگاہ بھی ہے، دور سعید کی ہلالی پرچم کشا تکبیرات کا غلغلہ انگیز علمبردار ہے، جس کے یہاں تعمیر اور تفکیر دستک دیتی ہیں، جس کی وجیہ مندی اس کی زندہ جاویدی کی نوید ہے، جس کے یہاں شخصیت شناسی غضب کی بصیرت افروز ہے، مجھے یقین ہیکہ، تاریخ میں شورش کی چٹان، حسرت موہانی ؒ کی اردوئے معلٰی، ظفر علی خان کے زمیندار، آزادؒ کے الہلال اور بلاغ ، الجمعیۃمیں سید مودودی ؒ کی تحریریں، دریابادی ؒ کے جرائد صدق، جوہرؒ کے کامریڈ اسی طرح تبصرات کی دنیا میں ماہر القادریؒ کے فاران اور عامر عثمانی ؒ کی تجلیات کی فائلیں جب جب کھنگالی جائیں گی تو، جہاں تک ان ذخیروں پر میری ٹوٹی پھوٹی نظر ہے اس کی روشنی میں بلامبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ، ندائے اعتدال کی فائلیں ان سے اگر دو قدم آگے نہیں تو معاصر صحافت میں ان کی ہم پلہ ضرور ہیں، بار الٰہا کی توفیق یونہی شامل حال اور بے لوثی یو نہی شاملِ عمل رہی تو ان فائلوں میں بارہ بنکی کے اس شہسوار کے جہاد قلمی کا مقام ضرور ہوگا ۔
جو لوگ گذشتہ سالوں سے جاری وطن عزیز کی پیچیدہ صورتحال اور عالم اسلام کے پیچ و خم سے واقف ہونا چاہتے ہیں، یہ دو کتابیں ان کے لیے محقق و مسلّم تاريخي دستاویز ثابت ہوں گی ۔
آخر میں ایوبی صاحب کا یہ اقتباس قارئین کی نذر کرتاہوں جو تصویر وطن کے پیش لفظ کا حصہ ہے، جس سے فکر و عمل میں صاحب قلم کا زمینی موقف بھی واضح ہوتا ہے، اور ہم سب کے لیے اس میں سبق ہے: 
" ہم یاس و قنوطیت کے قائل نہیں، خوف و ہراس سے دُبک کر بیٹھ جانا ہماری فطرت نہیں، اخلاص، قوت فکر و عمل اور جہد مسلسل کے ذریعہ ہم نے ہمیشہ حالات کی سنگینی کا مقابلہ کیا ہے، اور نہ جانے کتنی مرتبہ ڈوب ڈوب کر نکلے ہیں، آج بھی ضرورت ہے کہ، قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی جائے، مسلمانوں کا ایک سلیم الفکر تھنک ٹینک قائم کیا جائے، ملی قیادتیں متحدہ ملی لائحہ عمل طے کریں اور کردار و عمل کے ساتھ آگے آئیں تو یہ ممکن نہیں کہ حالات کی بکھری زلفیں سنور نہ جائیں، ملت کی بگڑی تقدیر بن نہ جائے، ہم اپنی حالت کو بدلنے پر قادر ہیں، اور اگر ہماری زندگی میں تبدیلی و انقلاب آجائے تو چار سُو، انقلاب ہی انقلاب ہوگا" ۔
میری ہندوستان کے تمام طلبہء مدارس، علماء کرام اور حالات پر نظر رکھنے والے دیگر شعبوں سے متعلق فکرمندوں نیز زمین پر انقلابی اور تحریکی کوششوں میں یقین رکھنے والوں کو یہ رائے ہیکہ وہ لازماً ان کتب کا مطالعہ کریں ان شاءالله ثمرات نظر آئیں گے ۔
مزید استفادے کے لیے ۔
رابطہ وہاٹس ایپ ڈاکٹر طارق ایوبی: 
+918755987168
E: mail Contact: tariqnadwialig@gmail.com 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad