تازہ ترین

منگل، 11 فروری، 2020

دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں

محسن رضا ضیائی پونہ ، مہاراشٹر

بھارت کی راجدھانی دہلی میں عام آدمی پارٹی کی شاندار اور تاریخی فتح سے آج ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ آج بھی اس ملک میں جمہوریت اور آئین و دستور پر یقین رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو وقت آنے پر سچائی کا ساتھ ضرور دیتے ہیں۔ دلی کی عوام نے اپنے اظہارِ رائے دہی کا صحیح استعمال کرکے بتادیا کہ ہم مسجد مندر، ہندو مسلم، پاکستان عمران خان اور نفرت انگیز بیانات پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ہمیں سرکاری سپتالوں کی تعمیر، سرکاری سکولوں کے نظام میں بہتری، پورے شہر میں پانی اور بجلی کی مفت فراہمی اورصاف و شفاف نظام حکومت چاہیے۔واضح ہوک8 فروری کو ووٹنگ ہونے کے بعد، جب ٹی وی چینلز پر ایگزٹ پول دکھائیں گئے اور ان میں عام آدمی پارٹی کو اکثریت ملتے دکھایا گیا،تو قیاس آرائیوں اور چہ می گوئیوں کا ایک سلسلہ دراز ہوگیا تھا اور طرح طرح کے بیانات سامنے آرہے تھے کہ دہلی میں آخر حکومت کی تشکیل کون کرے گا؟ لیکن اب دہلی کے انتخابی نتائج کے آنے کے بعد پوری طرح شکوک و شبہات کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور مطلع صاف ہوگیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے حق میں سبھی ایگزٹ پول صحیح ثابت ہوئے اور وہ تیسری مرتبہ بھاری سیٹوں کے ساتھ اپنی مضبوط حکومت بنانے جارہی ہے۔

عام آدمی پارٹی نے ریاستی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے مدعوں پر انتخابی مہم چلا کر فتح حاصل کرکے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ وہ زمینی سطح پر کام کرنے والی لوگوں کی پسندیدہ اور مقبول ترین پارٹی ہے، جسے دہلی کی عوام نے اکثریت کے ساتھ فتح سے ہم کنار کیا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسٹر مودی اور امت شاہ کی دو نفری قیادت کو مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے بعد اب دہلی کی عوام نے بھی اچھا سبق سکھایا ہے۔اسی طرح دوغلی سیاست کرنے والی گانگریس پارٹی کا بھی پورے طور سے صفایا ہوگیااور وہ دہلی کے نقشے سے پوری طرح ختم ہوگئی۔یہ وہی پارٹیاں ہیں ، جنہوں نے ماضی میں دہلی کے تخت پر بیٹھ کر راج کیا ہے، لیکن آج ان کی حالت میر تقی میرؔ کے اس شعر کے مصداق ہوگئی ہے۔ملک الشعرا میر تقی میرؔ نے دہلی میں رہ کر اپنے وقت کے تشویش ناک حالات پر اپنے درد و کرب کا کچھ اس طرح اظہار کیا تھا:

دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا

یقیناً یہ شعر آج دہلی اسمبلی انتخابی نتائج آنے کے بعد دو سپر پاور پارٹیوں کے نہ صرف زوال کو بیاں کررہاہے، بلکہ ان کی خوب حقیقت و نقاب کشائی بھی کر رہاہے۔وہ دو سپر پاور پارٹیاں ایک تو کانگریس اور دوسری بے جے پی ہے۔ یہ دونوں ہی پارٹیاں اس سے قبل دہلی کے تختِ سلطنت قابض ہوچکی ہیں اور دونوں ہی پارٹیوں کے اب تک تین تین وزرائے اعلیٰ بھی ہوچکے ہیں۔لیکن آج وہ دونوں ہی پارٹیاں دہلی کے نقشے سے بالکل غائب ہیں۔ ایک دور تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس دہلی میں ایک مضبوط پارٹی کے طور پر موجود تھی۔ اس کے پاس کئی ایک ایسے مشہور و معروف چہرے تھے، جنہیں دیکھ کر لوگ ووٹ دیا کرتے تھے اور اکثریت سے فتح یاب کرتے تھے۔ یہی حال بی جے پی کا بھی تھا کہ اس کے پاس دہلی کی سیاست میں ہلچل اور بھونچال مچادینے والے بڑے بڑے سیاست دان موجود تھے۔لیکن 2013ء کے انتخابات میں پہلی بار دہلی کے نقشے پر ابھرنے والی اور بد عنوانی مخالف تحریک کے بطن سے وجود میں آنے والی عام آدمی پارٹی نے اپنے پہلے ہی الیکشن میں دونوں ہی پارٹیوں کو شکستِ فاش سے دوچار کردیااور 49 دنوں تک اپنی سرکار چلائی۔ اسی طرح جب 2015ء میں انتخابات ہوئے تو عام آدمی پارٹی نے ایک تاریخ رقم کرتے ہوئے 70 میں سے 67 سیٹیں حاصل کیں اور دونوں ہی مخالف پارٹیوں کو دہلی کے نقشے سے غائب کردیا۔اب بات کرتے ہیں ۔

سال 2020ء کے الیکشن کی، جس میں تین بڑی پارٹیوں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع تھا، لیکن کانگریس نے پہلے ہی اپنی شکست و ریخت تسلیم کرلی تھی، لیکن زعفرانی پارٹی نے دہلی کے تاج و تخت پر قبضہ کرنے کے لیے اپنا سب کچھ داو پر لگادیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی انتخابی مہم بنیادی طور پر مسلم مخالف نعروں اور شاہین باغ پر مرکوز تھی۔ اس کے برعکس عام آدمی پارٹی نے تعلیم و ترقی اور دہلی کے باشندوں کی خوش حالی کو اپنے انتخابی مہم کا مرکزی محور بنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نفرت و عصبیت کی سیاست کرنے والی زعفرانی پارٹی کو لوگوں نے یکسر طور پر مسترد کردیا اور عام آدمی پارٹی کو اس کے ترقیاتی کاموں اور فلاحی اسکیموں کی وجہ سے اکثریت کے ساتھ دہلی کے تاج و تخت اور اقتدار و مملکت کا مالک و حقدار بنایا۔اب عام آدمی پارٹی کے قائد اور دہلی کے وزیرِ اعلیٰ جناب اروند کیجریوال کی بھی یہ اہم ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ جس طرح لوگوں نے عآپ پر اعتماد و بھروسہ کیا، اسی طرح عآپ بھی ان کے اعتماد و بھروسے پر کھرا اترے، تمام امتیازات و تشخصات سے بالاتر ہوکر ان کی آوازوں کوسنے اور ان کے جائز و دستوری حقوق و مطالبات کو پورا کرے۔خاص طور سے اقلیتوں کے ساتھ کیے جارہی نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے خلاف سخت اقدامات کرے اور ان کے لیے کوئی معقول حل تلاش کرے۔ امیدِ واثق ہے کہ آنے والے پانچ سالوں میں دہلی کے چمن میں فصلِ بہاراں آئے گی اور ہر خطہ اس کی خوش بو سے مہک اٹھے گا۔

1 تبصرہ:

Post Top Ad