تازہ ترین

بدھ، 26 فروری، 2020

دے گئے داغِ جدائی ، آہ مولانا ولی

 از،احتشام الحق، مظاہری ، کبیر نگری
موت کی حشر سامانیاں موبائل کی گھنٹی کو غمزدہ دھن میں تبدیل کر دیتی ھے شاید اسی فطری نظام کا عکس ھے کہ  وہ دھنیں جو غم کے لئے ایجاد ک گئیں ہیں   اس حقیقت کا پتہ آج  اس وقت چلا جب بندہ اپنے انتہائی مشفق و مکرم حضرت مولانا ولی اللہ ولی قاسمی بستوی ، دامت برکاتہم العالیہ ، استاذ مظاہر علوم وقف سہارنپور، مقیم حال دیوبند،، کی زندگئ فانی کی خبر سنی ، موبائل نے عجیب  سسکیاں لینی شروع کر دی حیران و پریشان آوازا میں ، حضرت والا رحمۃ اللہ کے پرسنل نمبر سے فون آیا ، کہ حضرت اب ہمارے درمیان نہیں رھے ، یقین کرنا انتہائی مشکل تھا ، اور یقین بھی کیسے آتا ، کیونکہ ، آج ہی بعد نماز مغرب تا عشاء حضرت کے ساتھ میں ہی گزرا، ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہوا دوا بھی لائے ، حضرت کو گھر چھوڑکر ابھی کمرے پہچا ہی تھا کہ ، حضرت والا ، کے انتقال کی خبر موصول ہوئی ، میں اسو قت ہمت نھیں جٹا پا رھا ہوں کی حضرت مشفق ،رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پر کچھ لکھا جائے،  کیونکہ  اس وقت کے تصور سے روح کانپ رھی  ھے رگ و پے کی حرکت سلب ہونا چاہتی ھے،  پلکوں پر آنسوں کے موتی بکھر رھے ھیں ، عقل و خرد کے لطیف محل پر اداسیوں کے گھنے بادل سایہ فگن ھیں ، غم فراق کے فرشِ حزیں پر تصورات کے تلوے زخمی ہورھے ھیں ،، آرزووں کے شاداب پودوں کو سمومِ فراق کی تیزابیاں جھلسا رہی ہیں ، ذہنی عشرت کدے کی بنیادیں متزلزل ہورھی ہیں ،،،، زبان    واحسرتا واحسرتا کا ورد کر رھی  ھے ، الحاصل،،، مرگ ولی کی منظر کشی سے زبان تھر تھراتی ہے ، قلم لڑ کھڑاتا ھے ، دامنِ صفحات سمٹتا نظر آتا ھے ،جملے مہمل ہو جانا چاہتےھے ، حروف تہجی خبر غم کی ہئیتِ ترکیبی اختیار کرنے سے گریز کرتے ھیں ،  ذخیرۂ الفاظ داستان رحلت کی تعبیر سے قاصر ھے ، 

یقینا،،،،، حضرت مولانا کی صحت تو نازک تھی لیکن ان کی صحت سے ایسا اندازہ بلکل نھیں ھوتا تھا کہ وہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے لیکن قدرت کے فیصلے ہمارے قیاسات و خواہشات اور تخمینوں سے ماوراء ہوتے ھیں اس دنیامیں ہر شخص زندگی کے گنے چنے سانس لیکر آیا ھے اور دنیا کی کوئی طاقت اس میں کمی زیادتی نھیں کرسکتی حضرت مولانا کی شخصیت اس دورِ قحط الرجال میں ایسی بڑی نعمت تھی کہ اس پر حق شکر ادا نھیں ھوتا مولانا کی خدمت میں حاضر ہوکر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مسافر کو چلچلاتی دھوپ میں جھلسنے کے بعد ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں میسر آگئی ھو حضرت مولانا اسم بامسمی ظاہر و باطن میں بھی  ولی،،، اور پیکر خلوص وللہیت تھے نام و نمود کی اس دنیا میں جہاں شخصیتوں کو سستی شہرت اور پلبسٹی کے پیمانے سے ناپا جاتا ھے حضرت مولانا کو  عوامی سطح پر بھی بہت زیادہ جاننے والے  تھے اور  اصلاح و ارشاد اور شعر و شاعری مدح خوانی  کی نسبت  سے بھی آپ کی شخصیت اس وقت مرجع خلائق تھی یہ اس بات کا زندہ ثبوت ھے کہ جو شخص اللہ کا ہوجائے وہ اپنی ذات کو کتنا بھی چھپانے کی کوشش کرے تاہم اسکی سیرت و کردار اور عند اللہ مقبولیت و محبوبیت کی خوشبو دور دور تک پہچ کر رہتی ھے حضرت مولانا ان نفوس قدسیہ میں سے تھے جن کا وجود بہت سے فتنوں کے لئے آڑ بنا رہتا ھے اور اس پر آشوب دور میں جن کے تصور سے قلب کو تسکین ہوا کرتی ھے آپ کا وجود امت کے لئے رحمتوں اور برکتوں کا باعث تھا اس علامۂ وقت کواللہ نے جن خوبیوں سے نوازا تھا ان کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ناممکن ھے    دست قدرت نے ان کی ذات میں فقہ و تصوف تفسیر و بدیع بیان،ادب،فلسفہ، شاعری،انشاء پردازی ،صرف ،نحو، منطق بلاغت و معانی مضامین ہئیت ،اقلیدس ،عروض،اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ کمال جامعیت کے ساتھ ودیعت کرر کھے تھے آپ صبر و شکیبائی فکر و تدبر زہد و قناعت رضابالقضاء ،خلوص و مروت ،سنجیدگی و متانت ایثار و ہمدردی محبت و مؤدت عاجزی وانکساری شہرت و ناموری سے دوری تکبر و تعلی سے پرہیز دولت و ثروت سے احتراز ریاضت و مجاھدہ نفس کشی اور پاکیز گئی اخلاق  جیسی خدا جانے کتنی متنوع رنگا نگ اور مختلف اقسام و صفات و میزات کا مجموعہ تھے حضرت مولانا اپنی بہت سی امتیازی خصوصیت کے ساتھ کہنۂ مشق قلم کار اور انشاء پرداز اور پختہ کا رتھے محقق و مدقق مصنف کی حیثیت سے طبقۂ علما و اہل علم و  دانش میں ممتاز شناخت رکھتے تھے اردو و عربی کا گہرا مطالعہ کر کے علمی ادبی تاریخی شعبوں میں اپنے قلم کے جوہر دیکھائے  جو خاصی تعداد میں جامع مضامین مقالۂ جات اور علمی تحریرات کی شکل میں موجود ھیں اور پھر بڑی عرق ریزی  ، بالغ نظری اعلی حوصلگی کے ساتھ کئی ایک  غیر منقوط کتابیں ، (منظوم)   تحریر فرمائی  اور مزید  شعر وشاعری کے بھی اعلی معیاری زخیرے آپ کے ذوق تحقیق کے آینہ دار تھےحضرت مولانا سادہ مزاجی کے بھی امین تھے   انکی سادہ مزاجی کی قسم ! اب جب میں دریائے محبت کا تصور کرتا ھوں تو اسکی پاکیزہ لہروں سے نکل کر ایک نورانی چہرا مہری پیٹھ تھپتھپاکر مجھے دلاسہ دیتا ہوا نظر اتا ھے اور میرے اشک عقیدت اس درویش صفت چہرے کے قدموں کو چوم کر ہوا کے جھونکوں سے آگے نکل جاتے ھیں اور ایک زمانہ گزر جاتاھے پھر ماضی قریب کا موسم میری یادوں کو گدگداتا ھے اور میں دور ایک سہانی وادی میں جا بستا ھوں جہاں پر خوشبو کی پلکوں پر ایک ہی جملہ لکھا ھوا مجھے ملتا ھے !!!   

اے سادہ مزاجی کے امین تجھ پر سلام 
اس جملہ کو پڑھنے کے بعد میری یادوں کی پرتیں ایک کے بعد ایک کھلنے لگتی ھے اور میری انکھوں کے سامنے علامۂ وقت حضرت مولانا ولی اللہ ولی  قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ کا چہرۂ انور  آجاتا ھے آپ نے تاریخ اسلام کا ایک خصوصی باب اپنی عملی زندگی کے قلم سے جس طرح دہرایا ھے اور سادگی و انکساری کی جو نظیریں ہمارے سمانے عملی طور پر پیش کی ھیں اس نے تاریخ اسلام کا اقبال اور بلند کردیا ھے اللہ تعالی کے اخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر خلفائے راشدین نے صبر و قناعت اور سادگی و تواضع کا جو معیار قائم کیا تھا اسی معیار پر علامۂ وقت حضرت مولانا ولی اللہ ولی  قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کا اشیانہ تعمیر کیا تھا حالا کہ حضرت مولانا کے پاس ایسے جاں نثاروں کی ایک مضبوط ٹیم تھی جو آپ کے ایک اشارے پر اعلی ترین لباس کا انبار اور مرغ و مسلم کا ایک جہانِ کر و فر نیز فلک بوس عمارتیں اور عیش و آرام کے سمندر مہیا کر سکتی تھی لیکن آپ نے کبھی ان چیزوں کا تصور و خواہش تک نھیں کی بلکہ بعض اوقات تو آپ اپنے خالی شکم پر ہی حضرت ایوب علیہ السلام کی داستانِ صبر تحریر فرماتے رھے 
 آپ ہمیشہ خوش پوش رھےھیں لیکن آپ کا لباس درویشانہ ہی رہا  اور آپ اپنے دسترخوان پر جو کھانا تناول فرماتے رھے  وہ بلکل سادہ ہوتا تھا اگر میں اسکو غریب عوام کے کھانے کا نام دوں تو شاید بیجا نہ ہوگا آج تک سادہ مزاجی کی عزت و توقیر ایسے ہی شہنشاہ صبر و قناعت کے دم پر قائم ھے مولانا کی سادگی اس وقت  آپ کے آخری سفر میں صاف طورپر نظر آ رھی ہے  کہ ہزاروں عقیدت مند اس سادہ انسان کے اخری سفر میں شریک ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے نظر آرہے ھیں        اللہ اللہ   کیا سادگی کی شان ھے 

انھیں الفاظ کے ساتھ میں حضرت مولانا کی روح مقدس کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتا ھوں حضرت مولانا کے انتقال سے ایسا محسوس ہوتا ھے کہ کائنات تو موجود ھے لیکن فکر و خیال کی دنیا اجڑ گئی آپ کی یاد ہمیشہ آتی رھے گی اور آپ ہمیشہ آنکھوں میں بسے رہنگے زندگی جس ذاتِ گرامی کے گرد گھوم رھی تھی وہ اب جلوہ افروز نہ رھی علم و فضل کی وہ محفل اجڑ گئی اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور صبح شام ابر ہائے رحمت انکے مرقد کو سیراب کرتا رھے،امین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad