تازہ ترین

پیر، 9 مارچ، 2020

کرونا وائرس بیماری ہے یا عذاب الٰہی ہے!

تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
انسانوں کے جو بھی مسائل ہیں چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ایک طرف مذہب اسلام نے اس کا سب سے بہتر حل پیش کیا ہے تو دوسری طرف حل تلاش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دل ودماغ عطا فرمایا ہے جہاں تک مسلمانوں کا مسئلہ ہے تو احکام خداوندی اور فرمان نبوی پر عمل کے بغیر  کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی اسلام کی تعلیمات نے لوگوں کو رب کی بندگی کرنے اور انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ و رسول کی غلامی کا بیش قیمتی طریقہ بتایا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہونا دونوں جہاں میں سرخروئی و کامیابی کی ضمانت ہے اور جو لوگ اس پر عمل پیرا ہیں وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہیں آج دنیا کی حرص اور ایک دوسرے پر دنیاوی سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں ہم اطیعو اللہ و اطیعو الرسول سے بہت دور ہوچکے ہیں اور دنیاوی کامیابی کو ہم نے اصل کامیابی سمجھ لیا ہے جبکہ دین کی خدمت کو چھوڑ کر، اسلام کی تعلیمات سے دور رہ کر ہم کبھی کامیاب ہوہی نہیں سکتے یہ بات ہمیں ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے اور یہ کامیابی ہمیں دعوت و تبلیغ اور قرآن و حدیث کے مطابق عمل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی سیرت رسول اکرم،، عالم اسلام اور عالم انسانیت کیلئے مشعل راہ تھی، مشعل راہ ہے اور مشعل راہ رہے گی ، راہ نجات تھی، راہ نجات ہے اور راہ نجات رہے گی آج ہمارے اوپر پوری دنیا میں عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔

 مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ذلت و رسوائی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور دنیا کی ہر قومیں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور مذہب اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے پر تلی ہوئی ہیں اور ہم ہیں کہ رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے دور ہوکر قوم اغیار کا تعاؤن کررہے ہیں اور اپنی تاریخ کو بھلا کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر معجزات کا انتظار کر رہے ہیں آج کے ساڑھے چودہ سو سال قبل نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وہ زمانہ آئے گا کہ جب دنیا کی ساری قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گی تو صحابہ کرام نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ کیا اس وقت ہم بہت تھوڑے ہوں گے تو رسول کائنات نے فرمایا کہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی تعداد تو سمندر کے جھاگ کے مانند ہوگی کثیر تعداد میں مسلمان ہوں گے لیکن ان کا ایمان بہت کمزور ہوگا، اللہ و رسول سے رشتہ بہت کمزور ہوگا اب آج کے حالات پر غور کیا جائے اور اپنا محاسبہ کیا جائے تو ساری تصویر صاف ہوجاتی ہے آج سارا بگاڑ، ساری خرافات، ساری برائیاں، شکوہ شکایت، گالی گلوج، غیبت و چغلی، شراب نوشی، جوا، زناکاری سب کچھ مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے یہاں تک کہ دینی کاموں میں بھی ہم نے نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کے لیے خود اپنے ہی ذریعے اس کی شکل بگاڑ دی ہے شادی بیاہ کا یہ حال ہے کہ ظہر اور عصر کے درمیان کہیں آتش بازی ہوتی ہے معلوم ہوجاتا ہے کہ آج کسی مسلمان کے گھر شادی ہے بارات کی آمد ہوئی ہے اور بعد نماز مغرب سے عشا یا کچھ اور دیر بعد پٹاخے پھوٹنے کی آواز آتی ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ آج کسی مسلمان کے گھر دلہن کی آمد ہوئی ہے۔

 یہ حال ہے آج کے مسلمانوں کا محسن انسانیت صل اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ نکاح، شادی بیاہ اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہوجائے لیکن افسوس اُمت نے شادی بیاہ اتنا مہنگا اور اتنا مشکل کردیا کہ زنا آسان ہوگیا ناجائز تعلقات کی بنیاد پر لڑکے اور لڑکیوں کا موبائل-فون پر گھنٹوں گھنٹوں بات چیت کرنا آسان ہوگیا اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا اور اب کسی کو نصیحت کرنا بھی مشکل ہوگیا اصلاح معاشرہ پر مبنی تحریک تقریر و تحریر تک محدود ہوکر رہ گئی، جلسوں کا انعقاد بھی اتنا خرچیلا ہوگیا کہ بس شو پیس بن کر رہ گیا لوگ اتنا ہی اثر لیتے ہیں کہ جلسہ ہونا چاہیے اور جلسہ سننا چاہئیے بس اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں آج قوم مسلم کا حال تو یہ ہے کہ جمعے کا خطبہ بھی قوم مسلم کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اس کا بھی کچھ اثر نہیں ہوتا آج ہمارے ملک میں این آر سی، سی اے اے کا معاملہ چل رہا ہے بالکل اس کے خلاف پر امن طریقے سے سے احتجاج ہونا چاہیے اور ملک میں امن و سلامتی کیلئے دعاؤں کا بھی اہتمام ہونا چاہیے لیکن دین سے دوری بناکر تو کوئی بھی قدم کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا  سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ مکہ والوں نے سرور کونین صل اللہ علیہ وسلم کی بھی شہریت چھینی تھی تین سال تک ایک گھاٹی میں تھے پھر بھی نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کا کام بند نہیں کیا دعا بھی فرماتے رہے۔

 اور دعوت و تبلیغ بھی کرتے رہے اس کے عوض اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عمر، حضرت حمزہ اور حضرت خباب جیسے لوگوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کیا اور ان لوگوں نے اپنے آپ کو فرمان رسالت کے سانچے میں ڈھال کر جلیل الشان و جلیل القدر صحابی کا مقام حاصل کیا جن سے مذہب اسلام کی جڑیں مضبوط ہوئیں اور مستحکم ہوتی چلی گئیں اس طرح مذہب اسلام پوری دنیا میں پھیل گیا اپنے ملک میں دامن پسارے ہوئے تمام مسائل کا حل اسلام نے پیش کردیا ہے حکمت، سیاست، قیادت، حکومت سب طریقہ اسلام نے بتایا ہے اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے عملی نمونہ پیش کیا ہے اور صحابہ کرام نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا اور کامیاب رہے ہم بھی اسی پر محنت کریں گے اور اطیعو اللہ و اطیعو الرسول پر عمل کریں گے تو اللہ کی رحمت ضرور نازل ہوگی محنت اور جدوجہد اور دین پر عمل سے دور رہ کر صرف دعا کریں گے تو اس سے بھی مدد حاصل نہیں ہوگی ہمیں کھانے پینے والی سنتیں تو معلوم رہتی ہیں ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول کو کھجور بہت پسند تھی تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کھجور کے بازار میں چلتے چلتے اللہ کے رسول نے ایک کھجور فروخت کرنے والے کے کھجور میں ہاتھ ڈال دیا اور نکالا تو فرمایا کہ جو تجارت میں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ہمیں یہ معلوم ہے کہ دعوت کھانا سنت ہے۔

 تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے کہ ایک پڑوسی بھر پیٹ کھانا کھا کر سوجائے اور دوسرا پڑوسی بھوکا رہ جائے تو بھر پیٹ کھاکر سونے والا مومن نہیں غرضیکہ اسلام دین فطرت ہے اسی وجہ سے اس کی ہر بات فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہواکرتی ہے مذہب اسلام کی تصویر کو بہتر طریقے سے پیش کرناچاہئے کیونکہ دین اسلام پہلے ایک اچھا انسان دیکھنا چاہتا ہے تب مسلمان کیونکہ ایک اچھا انسان ہی سچا مسلمان ہوسکتا ہے جس کے اندر انسانیت نہیں ہوگی وہ اچھا اور سچا مسلمان ہوہی نہیں سکتا اس لئے ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہم نے انسان ہونے کا ، اشرف المخلوقات ہونے کا اور مسلمان ہونے کا کتنا حق ادا کیا ساری بیماریوں کے لئے جانوروں کو موردِ الزام ٹھہرا دینا مسلے کا حل نہیں ہے ایک جانور دوسرے جانور کا گھر نہیں جلاتا ایک جانور انسان کی بولی نہیں بولتا لیکن ایک انسان جانور کی بولی بولنے لگتا ہے جانور تو اگر غلطی بھی کرے تو جانور ہے اسے بہت سی چیزوں کا شعور نہیں ہے لیکن انسان کو تو سوچنے سمجھنے اور فیصلہ لینے کی صلاحیت اللہ نے عطا فرمائی ہے پھر بھی انسان کی حالت یہ ہے کہ دین کی خلاف ورزی کرتا ہے، سماج معاشرہ و سوسائٹی کی خلاف ورزی کرتا ہے، پڑوسیوں سے بغض و حسد رکھتا ہے جبکہ پڑوسیوں کے مقام ومرتبہ اور حقوق سے متعلق احادیث کی کتابوں میں یہاں تک ملتا ہے کہ جب نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسليم پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر فرماتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو یہ خدشہ ہونے لگتا کہ کہیں ہماری جائداد میں پڑوسیوں کو آقا صل اللہ علیہ وسلم حصہ دار نہ بنادیں اتنا اونچا مقام ہے پڑوسیوں کا لیکن آج کے انسانوں کا حال یہ ہے کہ پڑوس کی بہن بیٹیوں کی عزت تک پڑوسیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔

 اگر کچھ اختیارات مل جائیں تو اس کا اتنا ناجائز استعمال کرتا ہے کہ وہ بھول ہی جاتا ہے کہ مظلوم کی دعا کبھی ٹالی نہیں جاتی اور ظلم کی ٹہنی ہمیشہ نہیں پھلتی آج چین سے جو کرونا وائرس بیماری آغاز ہوا وہ خود چین کے لوگوں کو احساس کرانے لگا کہ مظلوموں کی دعائیں آسمان تک پہنچ گئیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ایک مظلوم بندے اور اللہ رب العالمین کے مابین کو پردہ نہیں ہوتا بلکہ جب ایک مظلوم کے دل سے آہ نکلتی ہے تو آسمان کے سارے دروازے کھل جاتے ہیں کل تک جو لوگ اذان، نماز، اسلامی تعلیمات پر پابندی لگاتے تھے آج وہ غیر مسلم ہوکر بھی مسلمانوں سے نماز پڑھنے اور دعا کرنے کی اپیل کر رہے ہیں اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ کرونا وائرس صرف ایک بیماری نہیں بلکہ یہ عذاب الہی ہے اس میں جو یعنی اناج کے ساتھ گھن بھی پس سکتا ہے تو گویا آج پوری دنیا کے حالات جہاں انسانوں کے لیے تو وہیں باالخصوص مسلمانوں کے لئے سبق آموز ہیں ، درس عبرت ہیں چین سے اٹھنے والی یہ بیماری دنیا بھر میں پھیلتی جارہی ہے پوری دنیا کے لوگ اس بیماری سے خوفزدہ ہیں اس سے بچنے کیلئے مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں یہاں تک کہ کثیر تعداد میں لوگ زیارت حرمین شریفین سے محروم ہوگئے مسلمانوں کو اب تو احساس ہوجانا چاہیے کہ ہمیں اپنا اجتماعی و انفرادی محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دیگر اقوام کی طرح امت محمدیہ کو عذاب کے ذریعے نہ مٹانے کا اپنے حبیب سے وعدہ کیا ہے تو ساتھ ہی متنبہ کیا ہے کہ اے میرے محبوب جب تمہاری قوم بہت زیادہ بگڑ جائے گی تو میں چھوٹے چھوٹے عذاب کے جھٹکے ضرور دوں گا تاکہ تمہاری امت راہ راست پر آجائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad