تازہ ترین

اتوار، 8 مارچ، 2020

ریاست بہار کا دو روزہ دعوتی سفر

ڈاکٹر مفتی ابو حذیفہ قاسمی ڈی۔یو۔ایم۔ایس قاسمی دواخانہ اعظم گڑھ 
ملک میں صوبہ بہار اپنی پسماندگی کا ہمیشہ شکار رہا ہے ،کبھی سیلاب کی مار تو کبھی معاشی مجبوری ،لیکن ناخواندگی کبھی بہار کا حصہ نہیں رہی ،ہمیشہ بہار نے اپنے علم کا لوہا منوایا ہے اور بے شمار علوم و فنون کے شناور نے پوری دنیا میں اپنی ایک منفرد  چھاپ چھوڑی ہے۔صوبہ بہار کی مرکزی دینی درسگاہ "دارالعلوم مدنی" مصوریہ ارریہ کے دو روزہ عظیم الشان اجلاس عام بنام"اصلاح معاشرہ و دستار بندی" میں سلطان المناظرین، رئیس التحریر ، مفسر قرآن حضرت مولانا محمد آصف صاحب اعظمی قاسمی( ناظم مجلس تحفظ شریعت) کی معیت میں حاضری نصیب ہوئی۔

اس ادارے کے بانی و رئیس الجامعہ حضرت مولانا محفوظ صاحب مظاہری ہیں جن کا صوبہ اترپردیش کے علم و فن کے مرکز دیار شبلی اعظم گڑھ سے درس و تدریس کا ایک قدیم رشتہ رہا ہے، مختلف گاوں میں درس و تدریس کے بعد اپنے وطن واپس آکر بے سروسامانی کے عالم میں آج سے کم و بیش تینتیس سال قبل ایک چھو ٹی سی مسجد میں علم کی شمع روشن کی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پورے صوبہ بہار میں اس ادارے کا ڈنکا بجنے لگا۔موضع مصوریہ میں تعلیم کا ماحول: مصوریہ میں تقریبا پانچ ہزار کی آبادی ہے جو زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے ،آج سےتین دہائی قبل ناخواندگی کا دور دورہ تھا ،لیکن اس عظیم الشان درسگاہ کے قیام بعد آج صرف مصوریہ میں کم و بیش چھ سو (600) حفاظ ، سینکڑوں علماء، قراء،ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ تعلیم یافتہ طبقہ پورے ملک میں دینی ،ملی،سیاسی اور دعوتی خدمات انجام دے رہا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام ہی لوگ اس ادارے کے فیض یافتہ ہیں۔

ریاست اترپردیش میں تعلیم کا حال:ہمارے یہاں اگر خاندان کا کوئی فرد حافظ یا علم بن جائے تو سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کردیتا ہے جبکہ بہار میں اس طرح کی سطحی سوچ نہیں ہے ۔وہاں کے دعوتی سفر کے بعد یہ بات بالکل طشت از بام ہوگئی کہ ہم تعلیم کے معاملے میں ان کے بالمقابل ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر یوپی والوں کی طرح ان کو وسائل فراہم ہوجائیں تو زمانہ مستقبل میں پورے ملک میں ملت کی قیادت بھی کریں گے انشاءاللہ۔اجلاس کی کامیابی: اس ادارے میں ہر پانچ سال میں ایک عظیم الشان اجلاس پوری آن بان اورشان و شوکت کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں پورے ملک سے علماء کرام، مشائخ عظام ،سیاستداں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینے والے دانشوران شرکت کرکے اجلاس کو زینت بخشتے ہیں، جس میں تین شامیانے لگائے جاتے ہیں جس میں مردوں کے لئے ایک اور عورتوں کے لئے دو پنڈال لگائے جاتے ہیں ،جس میں شرکت کرنے والے مردوزن کی تعداد لاکھوں میں پہنچتی ہے یہ دینی بیداری کی روشن دلیل ہے۔

مناظر اسلام حضرت الاستاذ مولانا محمد آصف صاحب اعظمی قاسمی نے تاریخ مدارس اور ختم نبوت و رد قادیانیت پر زبر دست خطاب کیا جس سے ایوان باطل میں لرزہ طاری ہوگیا اس کے بعد راقم نے بھی سیرت النبی اور حالات حاضرہ پر کلیدی خطاب کیا اور اتحاد ملت پر زور دیا ،اختلاف و تنازعات کی بات کرنے والوں پر نکیل کسی۔اس ادارے کے ناظم سے نام نہاد نظماء کو سبق لینے کی ضرورت :اس ادارے کے روح رواں حضرت مولانا محفوظ صاحب مظاہری جو ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہیں لیکن ان کی پیشانی سے انقلاب جھلکتا ہے ،اگر انہیں سر سید ثانی کا خطاب دیا جائے تو یہ بیجا نہ ہوگا، انہوں نے ادارے کی ترقیات کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ہے،ہر ماہ اساتذہ و ملازمین کی تنخواہ کے لئے دور دراز اور اطراف و جوانب کا سفر کرکے سب کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

جب میں نے مدرسے کے لیٹر پر اپنے کچھ تاثرات لکھنے کی کوشش کی تو ناظم ادارہ نے اپنا نام نہ لکھنے کی شرط لگائی یہ خلوص و وفا کے اعلی پیمانے پر فائز ہونے کی مثال ہے۔ناظم صاحب نے ہم لوگوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔رات کے تقریبا ڈیڑھ بجے اجلاس ختم ہوچکا تھا لیکن سلام ہو ایسے ناظم پر جو رات کی تنہائی میں لوگوں کے آرام کی فکر کررہے تھے اور بذات خود تنہا معاینہ کررہے تھے، رات کے تین بجے میں استنجاء کے اٹھا تو دیکھا کہ ناظم صاحب باہر کھڑے نگرانی کررہے ہیں ۔دو روز ادارے میں قیام کے وقت میں نے ناظم صاحب کو کئی مرتبہ دسترخوان پر مدعو کرنے کی کوشش کہ آپ ایک لقمہ ہی ہمارے ساتھ تناول فرمالیں تاکہ زندگی کا ایک یادگار لمحہ بن جائے، لیکن میں اپنی کوشش میں ناکام رہا، جب میں نے اس کی تہ تک جانے کی کوشش کی تو اسی مدرسے کے ایک استاد نے کہا کہ ناظم صاحب مدرسے کا ایک لقمہ بھی اپنے لیے حرام سمجھتے ہیں وہ اپنا کھانا اور پانی گھر سے خود لاتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں، مجھے یہ عمل دیکھ حضرت قاری صدیق صاحب باندوی علیہ الرحمہ کی یاد تازہ ہوگئی۔

ایک خاص بات یہ دیکھنے کو ملی کہ ناظم صاحب کے صاحب زادے جو کسی دوسرے ادارے میں تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور فارغ اوقات میں پرچون کی دوکان چلاتے ہیں ان کا والد کے مدرسے میں اثر و رسوخ نا کے برابر ہے ۔
کیا ہمارے یہاں کے مدارس کے نظماء میں اس طرح کی کوئی خصوصیات ہے؟
کیا ہمارے یہاں کے نظماء کی ناخلف اولادیں مدرسے کو اپنے باپ کی جاگیر نہیں سمجھتی؟
کیا ہمارے یہاں مدارس میں وراثت جاری نہیں ہوتیں؟
کیا ہمارے یہاں چندوں کے مال پر عیش نہیں کیا جاتا؟
کیا ہمارے یہاں نظماء کی خصیہ برداری نہیں کی جاتی؟
کیا ہمارے یہاں نام نہاد نظماء کی اولادیں کبھی امتحان میں ناکام ہوتی ہیں؟
کیا ہمارے یہاں کسی استاذ کے اندر یہ جرآت ہے کہ کسی ناظم کی اولاد کو امتحان میں فیل کرسکے؟
کیا ہمارے مدارس کے قوانین نظماء کی اولادوں پر جاری ہوتے ہیں؟
کیا ہمارے مدارس میں ہٹلر شاہی نہیں ہے؟
اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جو ہمیں محاسبہ کی دعوت دے رہے ہیں ۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے نظماء کی دل کھول کر مدد کریں جو مدارس کی ترویج و ترقی کے لئے مسلسل کوشاں رہتے ہیں ہمیں جیب بھرو پیر اور پیٹ بھرو مولوی سے ہوشیار رہنا چاہیے (جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad