تازہ ترین

بدھ، 25 مارچ، 2020

کورونا وائرس اور مسلمان

تحریر : ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتح پوری استاذ الجامعۃ الاشرفیہ،مبارک پور ،اعظم گڑھ 
اس وقت کورونا وائرس کو لے کر ہم کئی طرح کے مسلمان دیکھ رہے ہیں
01:وہ جو ایسے حالات میں بھی اپنی دنیا میں مست ہیں، مزے کر رہے ہیں، پارٹی سلیبریٹ کر رہے ہیں، دعوتیں اڑا رہے ہیں، کرفیو جیسے حالات میں بھی گھر کے باہر کرکٹ کھیل رہے ہیں، نصیحت کرنے والے کا مذاق اڑا رہے ہیں، کل بھی خدا کو بھولے ہوئے تھے، آج بھی غافل ہیں، فتنے کے اس دور میں بھی آنکھیں کھولنا نہیں چاہتے ہیں۔ *وہ جنھیں یہ سب مذاق لگ رہا ہے، ہنس رہے ہیں، کارٹونس اور میمس بنا رہے ہیں، اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے لائک اور شییر حاصل کر رہے ہیں۔


02:وہ جن کی فکر کووڈ-19 کے حوالے سے ملحدوں کی سوچ سے کچھ کم نہیں، جن کے نظریات سے لگتا ہی نہیں کہ وہ اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان رکھتے ہیں۔ *ڈرے، سہمے، گھبراۓ ہوئے لوگ، موت سے ڈرنے والے لوگ، اسلامی عقائد و احکام اور احادیث و آثار کی من گھڑت تاویل و توضیح کرنے والے لوگ، اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اللہ کی طرف رجوع لانے کے بجائے محض وہی کرنے والے لوگ جو دنیا انھیں بتا رہی ہے، جو ڈاکٹر انھیں بتا رہے ہیں، جو اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ انھیں بتا رہے ہیں کہ صابن سے ہاتھ دھوئیں، گھر سے نہ نکلیں، بھیڑ بھاڑ میں نہ جائیں، لوگوں سے ہاتھ نہ ملائیں، وغیرہ وغیرہ۔

بے چارے خوف کے ساۓ میں اس طرح جی رہے ہیں کہ انھیں جو بتایا جا رہا ہے سب کر رہے ہیں، مسجد میں جمعہ کی حاضری تک چھوڑ چکے ہیں، یہاں تک کہ دوسروں کی حاضری کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں، مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لیے جانے والوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، حکومت کی سختی کا خوف دلا رہے ہیں، بیماری سے ڈرا رہے ہیں، غرض مختلف تدبیروں سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔



03:وہ جو مسلمان ہیں، مسلمانوں کی بہی خواہی کی باتیں بھی کرتے ہیں، لیکن اعتقاد، کردار اور مومنانہ جرات و عزم کے لحاظ سے نہایت کمزور ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے لیے عملی جد و جہد سے ہمیشہ دور رہتے ہیں، میدان میں اتر کر حالات سے لڑنا جنھوں نے سیکھا ہی نہیں ہے، *جو سنگین حالات اور جوکھم کے مواقع پر ہر بار اپنے پاؤں پیچھے کھینچ لیتے ہیں اور حالات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں، مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کی جرات و ہمت سے عاری ہونے کے سبب ان کے معتقدات متزلزل ہو جاتے ہیں، نظریات کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ حالات کے مقابلے کی تدبیریں تلاش کریں، حالات سے منہ پھیرنے کے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں اور بد قسمتی سے اگر وہ قوم کے قائد ہوں تو اپنی بزدلانہ مصلحت پسندیوں کو تقاضائے اسلام قرار دینے لگتے ہیں اور نصوص قرآن و حدیث کی من موافق تاویل و تشریح کر کے ساری قوم پر تھوپنے لگتے ہیں۔

اپنی فطرت کے عین مطابق اس وقت بھی وہ یہی کر رہے ہیں، گھروں میں بیٹھ کر قیادت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، کسی بھی طرح کی آزمائش میں مبتلا نہیں ہونا چاہتے ہیں، *لیکن قیادت کا بھرم رکھنا ہے اس لیے جس طرح خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، ساری قوم کو گھروں میں محصور ہو جانے کا مشورہ دے رہے ہیں، کھلے یا ڈھکے چھپے لفظوں میں مسلمانوں کو اللہ کے گھروں سے دور رہنے کی تعلیم دے رہے ہیں، اور اپنے اس نظریے کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کر رہے ہیں اور اسی کو عین اسلام قرار دے رہے ہیں۔

04:وہ جو ڈرے ضرور ہیں، لیکن اس وبا سے نہیں ، اللہ سے ڈر گیے ہیں، جو اب اپنی خطاؤں پر نادم و پشیماں ہیں اور اللہ کی طرف رجوع لے آۓ ہیں، جو اس فتنے سے بھاگ کر اللہ کی پناہ ڈھونڈ رہے ہیں، جو ہر نا گوار صورت حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سر بسجود ہو جاتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں، *جو اس وبا کو اپنے لیے اللہ کی آزمائش جانتے ہیں اور اپنے اسی اعتقاد پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، وہی بیماری کا خالق ہے، وہی شافی و کافی ہے، اس نے مسببات کو اسباب سے جوڑا ضرور ہے، لیکن چاہے تو آگ سے آب آب کر دے اور پانی سے آگ آگ، نازک گلے پر تیز چھری چلتی رہے مگر ایک رویاں بھی متاثر نہ ہو، سمندر کے پانی کو دروازے کے دو پاٹ کی طرح کھڑا کر کے بیچ سمندر میں راستہ پیدا کر دے، ایک کو اسی راستے سے بچاۓ تو دوسرے کو اسی سے ہلاک کر دے، جو یہ مانتے ہیں کہ ہر بلا و مصیبت ہماری بد عملی کا نتیجہ ہے اور کوئی بھی مصیبت اللہ کے چاہے بغیر کسی کو چھو بھی نہیں سکتی ہے،* جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ کی آزمائش سے گزرے بغیر کوئی آدمی مومن ہو ہی نہیں سکتا، جو اللہ کی آزمائش سے گزرتے ہیں تو اللہ پر ان کا ایمان اور مضبوط ہو جاتا ہے، جو رونگٹے کھڑے کر دینے والے اور بدن کا ریشہ ریشہ ہلا دینے والے خوف ناک حالات میں بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور کوئی ڈراۓ تو کہتے ہیں کہ یہ تو وہی صورت حال ہے جس کا ہم سے ہمارے رب نے وعدہ کیا ہے۔

اس وقت بھی وہ راسخ الاعتقاد ہیں، حالات کی نزاکت نے ان کے معتقدات متزلزل نہیں کیے ہیں، وہ احتیاط برت رہے، مختلف تدابیر اختیار کر رہے ہیں، گھر پر رہنے ہی کو ترجیح دے رہے ہیں، لیکن ضرورت پیش آنے پر باہر بھی جا رہے ہیں، نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد بھی جا رہے ہیں، اور اس یقین کے ساتھ جا رہے ہیں کہ بے مشیت الٰہی ہمیں کوئی آفت لاحق نہیں ہو سکتی ہے، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر ہم وبا کے شکار اور موت سے ہم کنار بھی ہوۓ تو اسی اعتقاد کے ساتھ کہ کسی سے ملنے، مصافحہ کرنے کی وجہ سے بیماری ہم تک متعدی نہیں ہوئی ہے، بلکہ اللہ نے چاہا تو بیماری لاحق اور موت نازل ہوئی ہے۔

*پہلی قسم کے مسلمان* سخت غفلت میں ہیں، عذاب الہی کو دعوت دے رہے ہیں، خود کو ہلاکت کے منہ میں لے جا رہے ہیں اور اپنی غفلتوں کے سبب دوسروں کے لیے بھی وبال جان بن رہے ہیں۔ اللہ انھیں ہدایت دے، ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے سبب اوروں کو اپنے عذاب میں مبتلا نہ کرے۔

*دوسری قسم کے مسلمان* وہ ہیں جو صرف زندہ رہنا چاہتے ہیں، جو صرف اپنی زندگی سے محبت کرنے والے لوگ ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس وبا کو بھیج کر مسلمانوں کی صفوں میں موجود ایسے دنیا داروں کا راز فاش کر دیا اور ہم نے پہچان لیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، اپنا ایمان بھی بیچ سکتے ہیں، قوم کا سودا بھی کر سکتے ہیں، عبادت گاہوں میں تالے بھی ڈلوا سکتے ہیں، مسلمانوں کو قید بھی کروا سکتے ہیں، ان کا خون بھی کروا سکتے ہیں، بلکہ اپنے ہاتھوں ہی قتل کر سکتے ہیں۔ جینا جو ہے انھیں، دنیا میں رہنا جو ہے انھیں۔ *اللہ ایسے لوگوں کو کبھی سرخ رو نہ کرے، ان کے شر سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھے اور مسلمانوں کو اپنی صفوں میں موجود ایسے لوگوں کو پہچاننے کی توفیق دے۔

تیسری قسم کے مسلمانوں کے لیے بس اتنا کہوں گا* کہ اللہ رب العزت ہمیں ایسے لوگوں کی دینی، ملی اور سیاسی قیادت سے محفوظ رکھے، قوم مسلم کو چاہیے کہ ایسوں کو قیادت جیسا عظیم منصب دے کر خود کو آزمائش میں مبتلا نہ کریں۔

*چوتھی قسم کے مسلمان* ہی در حقیقت سچے مسلمان ہیں۔ *اللہ سے دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ ہمیں بھی انھیں کے زمرے میں شامل فرمائے اور ان کو تمام مسلمانوں کی قیادت عطا فرمائے اور ان کی قیادت میں امت مسلمہ کو سرخ رو فرمائے۔* آمین بجاه النبي الأمين صلى الله عليه و على آله و صحبه أجمعين.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad