تازہ ترین

اتوار، 8 مارچ، 2020

تبلیغی جماعت میں ایک دن

حمزہ اجمل جونپوری
تبلیغی جماعت ایک بہت ہی بہترین ذریعہ ہے دین سیکھنے کا بھی اور سکھانے کا بھی
حضرت مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ کی محنت کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام کے نام لیوا دنیا کے چپے چپے میں اسلام پھیلا رہے ہیں اور جو دین سے دور ہیں انکو محبت اور عزت کے ساتھ سمجھا کر اللہ کے دربار میں حاضر کرتے ہیں ان پر محنت کرتے ہیں کہ کس طرح یہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیوا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرنے والا ہو جائےتبلیغی جماعت کا جو مشن ہے وہ اللہ کے بندوں تک اللہ کے احکام کو پہنچانا ہے اور جو کچھ علم ان کے پاس ہے اسے سیکھنا ہے اور جو کچھ ہمارے پاس ہے اسے سکھانا ہےخیر یہ تو ایک ضمنی بات ہو گئی ہم دار العلوم ندوة العلماء لکھنو سے اپنے امیر صاحب مولانا اسجد صاحب کے متعین کردہ دو رہبروں کے ساتھ (مولانا عبداللہ صاحب اور یہ ناچیز) نکلےراستے کے پیچ و خم کے درمیان ہم گزر رہے تھے ہر طرف مخلوق خدا بھاگ دوڑ میں لگی ہوئی تھی کوئی گاڑی سے بھاگ رہا کوئی پیدل ہی منزل کی طرف رواں دواں ہے کوئی سائکل سے وقت کو سمیٹتا ہوا چل رہا ہے ہر طرف شور شرابہ ہے مخلوق خدا سکون کی تلاش میں ادھر ادھر مارے پھر رہی ہے کوئی پیسوں میں سکون تلاش کر رہا ہے

 کوئی گاڑیوں میں آرام و راحت کا متلاشی ہے کوئی سڑک کے کنارے ہی سو کر یہ سب پانا چاہتا ہے حقیقت تو یہ ہے سکون اور اطمینان اللہ کے احکام کی پیروی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرکے ہی پایا جا سکتا ہے اور سکون حاصل کرنے کی سب سے بہترین جگہ مسجد یعنی خدا کا گھر ہے جہاں ہم ہاتھ اٹھاتے وقت اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہیں اور جھک کر خدا کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور سجدہ ریز ہو کر رو رو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں اور دعا و استغفار کرتے ہیں اور ہر مسجد تو اپنے محلے کا مرکز ہوا کرتی ہے اسکی حفاظت و صاف ستھرائی ہماری ہی ذمہ داری ہے اور اسکو آباد رکھنا ہر مسلمان پر فرض و ضروری و لازم ہے خیر ہم ٹیکسی پر سوار ہو کر خدا کی صنعت کاری کا جائزہ لیتے ہوئے جا رہے تھے اور ساتھیوں سے گفتگو میں محو تھےکہ اچانک راستے میں ایک موڑ آیا اور ٹیکسی والے نے ٹیکسی کو تیزی کے ساتھ گھمایا میرا سر ٹیکسی کے لوہے میں ٹکرا گیا اففف(درد ابھی تک باقی ہے) ایک غفلت نے کیا سے کیا حال کر دیااسی سے یاد آیا کہ آج امت بھی غفلت میں سوئی ہوئی ہے شاید اللہ نے ہمیں جگانے کے لئے ظالم حکمرانوں کو مسلط کیا ہے اور سی اے اے این آر سی اور این پی آر جیسے کالے قانون کو ہمارے سروں پر لٹکا دیا ہے 

پھر بھی ہم اللہ تعالی کی طرف مکمل طور پر رجوع نہیں کر رہے
خدا نا خواستہ شاید اب اللہ بھی ہمیں مار کر ہی غفلت کی نیند سے بیدار کرے گا کاش ہم خواب غفلت سے بیدار ہو کر اللہ تعالی کی طرف مکمل طور پر رجوع کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانے کی مکمل کوشش کریں اور ایک دوسرے پر کیچڑ نا اچھالتے ہوئے المسلم اخو المسلم پر عمل کرلیں شاید یہی ہماری وہ غفلت والی نیند ہے جس کی وجہ سے اللہ ہمیں بار بار ظالموں کے ذریعہ سے تنبیہ کر رہا ہےہم تھوڑی دیر کے بعد ایک بھائی جان کی معیت (جو وہیں کے مقامی تھے) میں مسجد تک خیر و عافیت کے ساتھ پہنچ گئے۔۔۔

عصر کی نماز ادا کرکے دینی محفل سجائی گئی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے دلوں کو سرور مل رہا تھا مقامی لوگوں سے ملاقات کی گئی پھر تھوڑا آرام کیا گیا مغرب کی اذان ہوئی نماز بعد ہمارے بھائی مولانا مبشر رضوان صاحب نے مختصر بیان کیا اور لوگوں کو جماعت کے لئے ابھارا ماشاء اللہ سے کئی بھائی جماعت میں نکلنے کے لئے اپنا نام لکھوایا اللہ انکا نکلنا آسان فرمائے پھر اسکے بعد امیر صاحب نے سب کو بلایا اور ایک رائے و مشورہ کے بعد اصول و ضوابط بیان کرکے نظم و نسق کو کچھ لوگوں میں تقسیم کر دیاعشاء کی نماز کے بعد مقامی تعلیم کا وقت تھا احادیث مبارکہ پڑھی گئی ملاقات کی گئی پھر کھانے کے لئے دسترخوان سجا خدمت پر مولانا عبداللہ اور مولانا حماد صاحب معمور تھے جو نہایت عمدگی کے ساتھ اپنا فرض نبھایا

محلے کے ایک محترم شخص نے ہم سب کی دعوت کی تھی انھوں نے ہماری پرتکلف مہمان نوازی کی اور میزبانی ایک مقامی بھائی جناب حمزہ صاحب نے کی اللہ جزاء خیر عطاء فرمائے اور مولانا عظیم صاحب نے کھانے کے آداب بیان کئے کھانے سے فارغ ہو کر تھوڑی بہت چہل قدمی کی گئی پھر سونے آداب مولانا امین صاحب نے بیان کیا اور سبھی بھائی ذکر و اذکار کر کے دعا تسبیح پڑھ کر بستر پر ایک عظیم نعمت حاصل کرنے کے لئے گئےصبح 5 بجے نیند سے بیدار ہو کر بستر کو سمیٹ کر ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کرکے قرآن مجید کی کچھ تلاوت کی گئی موذن نے اذان دی اور کچھ دیر بعد سنتوں سے فارغ ہوکر فجر کی نماز ادا کی گئی نماز بعد مولانا حماد صاحب کے بیان میں بیٹھ گئے انہوں نے مختصر بات کی
پھر آرام کرنے کے لئے سب کو فارغ کر دیا گیا کوئی اپنی کتاب پڑھ رہا تھا کوئی سو رہا تھا کوئی ذکر و اذکار میں مشغول تھا قریب 9 بجے یا اس سے کچھ زیادہ ٹائم ہوا تھا ناشتہ کیا گیا

ایک مقامی بھائی سے تھوڑی دیر گفتگو ہونے لگی تھی انہوں نے بتایا کہ مسجد (مسجد کا نام مسجد اجمل کھدرا ہے) کو بنے قریبا 5 سال ہوئے ہیں اور یہ زمین تنازع میں تھی جس کا کورٹ میں کیس چل رہا تھا ایک صاحب تھے جو اکیلے کیس لڑ رہے تھے انکی وفات تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا پھر جب انکی وفات ہوئی دفن کے لئے یہیں مسجد سے متصل قبرستان میں لایا گیا تو ہندووں نے پتھراو کردیا جس کے بعد تمام مسلمان ایکٹیو ہو گئے اور دوڑ بھاگ شروع کر دی پھر اعظم خان سے ملاقات کرکے اس قبرستان کے چاروں طرف چہار دیواری قائم کرکے ایک طرف بڑا سا حال بنا دیا جس کو 5 سال پہلے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا 

اللہ تعالی کوشش کرنے والوں کو جزاء خیر عطاء فرمائے
10 بجے تعلیم کا وقت شروع ہو گیا تعلیم کی ذمہ داری مجھ نا چیز کے سپرد کی گئی تھی سب سے پہلے فضائل قرآن مجید کو پڑھا اور سنا گیا اس کے بعد مشق قرآن کا حلقہ لگایا گیا جو تین تین افراد پر مشتمل تھا تقریبا 40 منٹ تک مشق قرآن کا حلقہ چلتا رہتا ہے اسکے بعد کی تعلیم مولانا بنیامین صاحب نے کرائی کوشش یہ ہوتی ہے ہر باب سے حدیث پڑھی جائے قریبا 6 باب ہوتے ہیں اسکے بعد "6 نمبر" کی مشق ہوتی ہے وقت کی کمی کی وجہ سے امیر صاحب نے خود ہی بیان کر دیا تھا ورنہ اسکا اصول یہ ہے کہ ہر ایک جماعتی ساتھی سے ایک ایک نمبر ترتیب وار سنا جاتا ہے خیر یہ تو وقت کا تقاضہ تھا جس میں بھی ایک نمبر بچ گیا تھا اور اس کو واپسی کے وقت بیان کیا گیا تھا 

وہ "6 نمبر" یہ ہیں 
1 "ایمان"
2 "نماز"
3 "علم ذکر"
4 "اکرام المسلم"
5 "اخلاص نیت"
6 "دعوت و تبلیغ"

بعض لوگوں کو اشکال ہوتا ہے کہ یہ 6 نمبر ہی کیوں بیان کرتے ہیں اسکا آسان سا جواب یہ ہے کہ ہمارے علماء نے ہر چیز کا الگ الگ شعبے قائم کر رکھے ہیں حسب ضرورت تمام شعبوں میں کسی شعبے سے رابطہ کرے اصلاح کی نیت ہو تو جماعت میں آیا جائے یا جس چیز کی نیت ہو وہ اس شعبہ میں اپنے آپ کو لگائے،تعلیم کے بعد کچھ ساتھی نہانے کے لئے گئے جمعہ کا وقت ہوا مؤذن نے اذان دی اور ہمارے ایک ساتھی مولانا اظہرصاحب نے جمعہ میں عوام سے مختصر خطاب کیا 
امام صاحب نے بیان کے بعد خطبہ دیا نماز پڑھائی آخر میں ملک کے حالات پر اور کرونا وائرس پر ایک بہت ہی عمدہ نصیحت کی اور ملک اور مسلمانوں  کی سلامتی کے لئے درد مندانہ دعا کی!

سنتوں سے فارغ ہو کر ہم سب نکلنے کی تیاری کرنے لگے اچانک ایک صاحب آئے اور ہم نے ان سے عصر کے وقت ملاقات کی تھی نام یاد نہیں ہے آئے انہوں نے دعوت کی اور کہا کہ کھانا کھا کر جانا ہے پھر کھانا کھا کر واپسی کی بات کے لئے بیٹھ گئے ہمارے امیر مولانا اسجد صاحب نے بات کی اور دو رہبروں کو متعین کر دیا اور ہمیں یہ بھی بتایا کہ راستے میں دو دو کی جوڑی بنا کر چلنا ہے اور ذکر و اذکار کرتے ہوئے چلنا ہے خیر ہم لوگ مسجد سے نکلے اور اور رہبر کی متعین کردہ ٹیکسی پر سوار ہو کر دار العلوم ندوة العلماء لکھنو کے لئے چل پڑے اور یوں ہمارا یہ مبارک سفر اختتام کو پہنچا۔۔۔۔

کچھ چیزیں سیکھنے کو ملیں 
جیسے ہم کھانا کھانے کی بعد کی دعا "الحمدللہ الذي اطعمنا و سقانا و جعلنا من المسلمين" پڑھتے ہیں جب کہ مجھے آج جماعت میں پتا چلا کہ "و جعلنا من المسلمین" نہیں بلکہ "وجلعنا المسلمین" حدیث میں وارد ہوا ہے !اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا !

چل دین کی تبلیغ میں چلنے کا مزا دیکھ !
اللہ کے رستے میں نکلنے کا مزا دیکھا
اللہ ہمارا نکلنا قبول فرمائے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad