تازہ ترین

اتوار، 3 مئی، 2020

لاک ڈاؤن سے کیا سیکھا؟

از: محمد شعیب القاسمی
پوری دنیا میں کرونا وائرس وبا نے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ترقی یافتہ ممالک ہوں یا بڑے بڑیشہر ہوں یا چھوٹے موٹیگاؤں، ہر کوئی پریشان ہے۔ اس وائرس نے امیر اور غریب کا بھی فرق نہیں رکھا، اس نے وقت کے فرعونوں کو ظالم و جابر طاقتوں کو اوقات بتائی ہے۔ وہ سب ٹھیک ہے پر مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ بحیثیت مسلمان مجھ میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ سچ تو یہ ہیکہ کچھ بھی نہیں۔ اس بیماری کو لے کر سارے زمانے کے مذاق، لطائف ہم ہی نے تو بنائے ہیں۔، اتنے بھیانک حالات میں بھی بغض، کینہ، نفاق حسد کی ذرا سی کمی نہیں ہوئی۔ جھوٹ، غیبت، الزام تراشی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ غرباء کی امداد کا دکھاوا جب اللہ یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے اگر کسی بھوکے کو کھانا کھلایا تو گویا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ بحیثیت مسلمان ہم اتنی سستی شہرت کے محتاج ہیں۔؟ ہم رازق نہیں تھے صرف ذریعہ تھے۔ 

دنیا سمٹ چکی ہے۔ اور آنے والی زندگی بہت محتاط ہوگی اس وبا نے اصلی اور نقلی چہروں کی پہچان کرادی ہے۔ یہ دنیا اسکی آرائش حتی کہ ہر چیز دھوکہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات زندگی خود ایک سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ ہم نے سینہ ٹھوک کر دنیا کو کہا ہے ہم نبی ﷺ کی امت ہیں چلا چلا کر دنیا کو بتایا کہ ہم صحابہ کے پیروکار ہیں۔ صحابہ کا کوئی طریقہ ہم میں موجود ہے؟ کیا علماء کرام سے بغض ختم ہوا، کیا سیاسی حسرت میں کچھ کمی آئی، کیا جھوٹی زبان پر کچھ قابوں پایا گیا۔ اس وبا نے اتنی توفیق بھی نہیں دی کہ جھوٹی شان سے باہر نکلا جائے۔ آخر یہ وبا کچھ نہ کچھ سیکھ کر چلی جائے گی لیکن ہم اس درد بھری اور بھیانک وبا سے کچھ نہیں سیکھیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad