تازہ ترین

اتوار، 3 مئی، 2020

ملک میں مسلمانوں کیلے عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش

ذوالقرنین احمد
محترم قارئین ملک میں مسلمانوں پر جس طرح ظلم و ستم کیا جارہا ہے وہ آزادی کے بعد سے ابتک جاری ہے کچھ حادثے ہمارے نظروں کے سامنے ہوتےہے جیسے ماب لینچنگ، کھلے عام قتل ، زدو کوب کرنا ناحق ظلم زیادتی کرنا، کالجوں میں بھید بھاؤ کرنا، ویڈوں بناکر وائرل کرنا نفرت بھرے پیغامات کو عام کرنا سادہ دل عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں اسلام کے خلاف میڈیا کے ذریعے نفرت کا زہر گھولنا یہ سب اس لیے کہ ہمارے اوپر خوف طاری کیا جائے ہمیں دہشت زدہ کیا جائے مسلمانوں کو ڈرا کر دھمکا کر بے بس و لاچار محسوس کروایا جاتا ہے۔ انکے اندر احساس کمتری کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انہیں یہ محسوس کروایا جاتا ہے کہ ملک میں انکا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ منظم طریقے سے سرکاری نوکریوں میں انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے عہدے پر فائز ہونا تو دور چھوٹی موٹی سرکاری نوکریوں کیلے مشکل دور سے گزرنا پڑھتا ہے تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مذہبی تشخص پر حملے کیے جاتے ہیں۔ایسے بہت سارے مسائل ہمارے سامنے آتے ہیں، لیکن انکا حل نہیں نکالا جاتا ہے۔ مودی حکومت کے گزشتہ دور اقتدار میں درجنوں بے گناہ مسلمانوں دلتوں کا قتل کیا گیا ان پر ظلم و تشدد کے حدیں پار کی گئی اور اسکے وڈیوں وائرل کیے گئے جس میں اکیلے انسان پر بھیڑ لاٹھی اور لوہے کے روڈ سے حملہ کرتی ہوئیں دیکھائی جاتی ہے۔ ہاتھ پیر باندھ کر مارا جاتا ہے۔ یہ سب کھلے عام ہونے کے باوجود حکومت نے ان دہشت گردوں پر کوئی کاروائی نہیں کی ہے جب کہ جان کا بدلہ تو جان ہے ایک بے گناہ مسلمان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ مظلوموں کے حق میں احتجاج کرنے کے باوجود حکومت اس معاملے کو غیر سنجیدگی سے لیتی ہے اور اسی طرح معاملہ جب پالگھر میں ہوتا ہے بے قصور سادھوؤں کی ماب لینچنک کی جاتی ہے تو پورا دیش اور بی جے پی کے نمایندے حکومت پر سوالات کھڑے کردیتے ہیں۔ اور مرکزی حکومت ریاستی حکومت سے جواب طلب کرتی ہے فوراً سو کے اوپر مجرموں پر کیس درج کیے جاتے ہیں بی جے پی کا آئی ٹی سیل سوشل میڈیا پر اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے یہ سب آوازیں اس لیے شدت اختیار کرتی ہے کیونکہ مرنے والا مسلمان یا دلت نہیں   تھا بلکہ وہ ایک سادھو تھا۔ لینچنک چاہے کسی کی بھی ہو وہ انسان ہے اسکے اصل مجرموں کو پھانسی کی سزا دینی چاہیے لیکن یہاں ملک میں انصاف کے پیمانے مذہب کے نام پر تبدیل ہوجاتے ہیں۔

اسی طرح ایک طرف مسلمانوں کو مین اسٹریم سے دور رکھا جاتا ہے بڑے بڑے عہدوں پر فرقہ پرست عناصر اور سنگھی ذہنیت کے حامل افراد کو بیٹھا یا جاتا ہے مذہب کی وجہ سے دلتوں مسلمانوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ جبکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں  مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر بتائی گئی ہے۔ مسلمانوں کو تعلیم و سرکاری نوکریوں میں کسی قسم کا ریزرویشن نہیں دیا گیا ہے۔ اور اب موجودہ حالات پر نظر ڈالیے تو پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس کا بھانڈا تبلیغی جماعت کو نشانہ بنا کر مسلمانوں پر پھوڑا جارہا ہے۔ ملک کے چوتھے ستون کہلانے والے میڈیا نے صحافت کی عصمت کو تار تار کردیا ہے یوں لگتا ہے میڈیا حکومت کی رکھیل بن چکا ہے وہ جس ڈھنگ سے جب چاہے اسکا استعمال کر سکتی ہے۔ صحافت کے پیشہ کو داغدار کردیا گیا ہے۔ اتنی نفرت ملک میں میڈیا کے ذریعے پھیلائی جا چکی ہے کہ اسکا ازالہ کرنے کیلے شائد صدیاں لگ جائیں اور پھر  تاریخ میں ان فرقہ پرست صحافیوں کا ذکر بدترین لوگوں میں کیا جائے۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے باوجود حکومت اور فرقہ پرست عناصر اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مسلمانوں کا استحصال کر رہے ہیں اور ایسے قانون سازی کرنے کیلے تیار ہے جس کا ہمیں گمان نہیں ہے ۔ این آر سی اور سی اے اے جیسے کالے قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں سوشل اکٹیوسٹ اور مسلمانوں کے ذہین مغز نوجوانوں اور انصاف پسند سیاست دانوں پر سنگین الزامات اور زبردست ملک دشمنی جیسے قانون کا اطلاق کیا جارھا ہے ۔

حال ہی میں بڑے بڑے سوشل ایکٹویسٹ اور مسلمانوں کیلے کچھ کر گزرنے والے افراد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے مجھے لگتا ہے یہ تو پہلے ہی طئے ہوچکا ہوگا کہ جو حق و انصاف کیلے آواز اٹھانے کی طاقت رکھتے ہو حکومت کی ناکامیوں پر ببانگِ دہل بولنے والے ہو ان نوجوانوں پر پہلے سے ہی نظر رکھی جارہی ہو اور فرقہ پرست حکومت موقع کی تلاش میں تھی کورونا وائرس سے متاثر ملک میں اب ان افراد پر یو اے پی اے جیسے دہشت گرد مخالف قانون کا استعمال کیا جارہا ہے۔ جھوٹے الزامات عائد کیے جارہے ہیں ملک سے غداری جیسے سنگین الزامات لگایے جارہے ہیں اس سے پہلے گزشتہ سال دہشت گرد مخالف قانون یو اے پی اے میں ترمیم کرکے اسے سخت ترین بنایا گیا کانگریس کے دور اقتدار میں بھی اس قانون میں تبدیلی کی گئی تھی مزید جس میں تحریکی سوچ رکھنے والوں پر بھی قانونی کارروائی اور ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور شک کی بنیاد پر گرفتار کرنے جیسی تبدیلی کی گئی ہے۔ اس کالے قانون کو پیش کرتے وقت مخالفت کرنے والوں کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہونے دینگے جبکہ یہ بات طے ہوگی کہ یہ قانون کا استعمال صرف مسلم نوجوانوں کے خلاف دلتوں کے خلاف کیا جائے گا۔ اور اب اسکی مثالیں دیکھنے مل رہی ہے۔

بڑے بڑے ماہرین ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش ظاہر کر رہے ہیں ارون دھتی رائے نے کچھ دونوں قبل کہا ہے کہ ملک مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف جارہا ہے۔ کورونا وائرس کے دوران جاری لاک ڈاؤن کا حکومت غلط استعمال کر رہی ہے اسکے پس پردہ حقائق بڑے سنگین ہے جو ظاہر ہونے شروع ہورہے ہیں ہندو راشٹر کا خواب پورا کرنے کیلے سنگھ کے سیاسی جماعت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ جبکہ  ملک کی معیشت صفر پر پہنچ گئیں ہے۔ ملک کے سابق گورنز نے ملک کی حالت پر تشویش ظاہر کی ہے کہ لاگ ڈاؤن کھول دینا چاہیے کیونکہ ملک پٹری پر لانے کیلے جتنا فنڈ درکار ہے حکومت وہ عوام پر خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے ۔ ایسی روپورٹس آرہی کہ ملک میں کروڑوں کی تعداد میں بے روزگاری بڑھے گی۔ لوک وائیرس سے بعد میں لیکن بھوک سے جو اموات ہوگی اس پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ یہ بات حکومت سمجھ نہیں پارہی ہے کہ سیاست بعد میں بھی کی جاسکتی یہ لیکن حکومت اتنی مطلب پرست ہے کہ وہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی ہے۔ ملک میں جو نفرت کا بیج بویا گیا ہے وہ ملک میں خانہ جنگی کی صورت میں آیندہ سامنے آئے گا۔ حکومت کے پس پردہ عزائم میں مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی پلاننگ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلے ان پر دباؤ بنانا مشکل ہو رہا ہے اس لیے اب آبادی کنٹرول قانون پیش کرنے کی تیاری میں ہے اور اندھ بھگت فرقہ پرست عناصر حکومت کے ہر فیصلہ کو قبول کرنے کیلے ہمہ وقت تیار دیکھائی دے رہے ہیں۔ جب حالات آئیے گا تب مذہب ذات دھرم سب کچھ کھل کر سامنے آئے گا کہ ظالم کے ساتھ کھڑے تھے یا مظلوم کے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad