تازہ ترین

پیر، 11 مئی، 2020

غزوہ بدر-حق و باطل کا پہلا تاریخ ساز معرکہ

بســــــــــــــم اللـــــہ الرحـــــمن الرحیــــم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن ۔۔۔۔۔۔ اَمَّابَعد !
غزوہ بدر ! سلسلہ غزوات میں اسلام کا سب سے پہلا اور عظیم الشان معرکہ ہے، غزوہ بدر میں حضور اکرم ﷺ اپنے تین سو تیرہ جانثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، آگے دو سیاہ رنگ کے اسلامی پرچم تھے، ان میں ایک حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ میں تھا، جب رزم گاہ بدر کے قریب پہنچے تو امام المجاہدین سرور دو عالم ﷺ نے حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کو منتخب جان بازوں کے ساتھ غنیم کی نقل و حرکت کا پتہ چلانے کے لئے بھیجا، انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی،17 رمضان المبارک جمعتہ المبارک کے دن جنگ بدر کی ابتداء ہوئی، بدر ایک گاﺅں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا، یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریباً اسی میل کے فاصلے پر ہے جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے،

حضور اکرم ﷺ اور حضرات صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ نے جب ہجرت مدینہ فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں،اسی اثناء میں یہ خبر بھی مکہ معظمہ میں پھیل گئی تھی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنے والے قافلے کو لوٹنے آرہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقیہ واقعہ بھی پیش آگیا، جس نے قریش مکہ کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا، حضور اکرم ﷺ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ کو جمع کیا اور امر واقعہ کا اظہار فرمایا، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ نے جواب میں نہایت جانثارانہ و فدایانہ تقریریں کیں، حضرت سعد بن عبادہؓ (خزرج کے سردار) نے عرض کی کہ یا رسول ﷲ ﷺ ! خدا کی قسم ! اگر آپ ﷺ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کو تیار ہیں، حضرت مقدادؓ نے کہا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی امت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب خود جا کر لڑیں، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہم آپ ﷺ کے دائیں سے بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے ہم لوگ واقعی آپ ﷺ کے تابعدار ہوں گے، جہاں آپ ﷺ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہادیں گے، آپ ﷺ بسم ﷲ کیجئے اور جنگ کا حکم فرمائیں، ان شاء ﷲ اسلام ہی غالب آئے گا، بقول شاعر ؃

 غلامان محمد جان دے نے سے نہیں ڈرتے
 یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے، پروا نہیں کرتے

حضور اکرم ﷺ نے جب حضرات صحابہ کرام ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ کے اس جذبہ سر فروشانہ اور جوش ایمانی کو دیکھا تو آپ ﷺ کا چہرہ اقدس فرط مسرت سے چمک و دمک اٹھا، پھر آپ ﷺ نے اپنا چہرہ مبارکہ آسمان کی طرف اٹھا کر ان سب کے لئے بارگاہ خداوندی میں دعاء خیر فرمائی،اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خداوند قدوس نے مجھے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، بلا شبہ ﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قسم بہ خدا ! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، آپ ﷺ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کا محل قتل بتا دیا، 

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا، وہ کافر وہاں ہی قتل ہوا، (مشکوٰة شریف ، مدارج النبوت)لشکر اسلام کی تعداد :/ حضور اکرم ﷺ 12 رمضان المبارک ؁ 2 ہجری کو اپنے تین سو تیرہ جانبازو جانثار ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدان بدر کی طرف روانہ ہوئے، جب آپ ﷺ اپنے مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپ ﷺ نے جیش اسلام کا جائزہ لیا اور جو اس کارواں میں کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما دیا، حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ ایک کم سن سپاہی بھی شامل تھے، انہیں جب واپسی کے لئے کہا گیا تو وہ رو پڑے، حضور اکرم ﷺ نے ان کا یہ جذبہ جہاد و شوق شہادت دیکھ کر انہیں شاملِ جہاد رہنے کی اجازت عطا فرما دی، لشکر اسلام کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی، جس میں سے 60 مہاجرین اور 253 انصار تھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad