تازہ ترین

اتوار، 10 مئی، 2020

ماں کی ممتا اور اس کی محبت

از قلم :فیضان اسعد اعظمی 
خالق کائنات نے اپنی صفت رحمانیت کی چادر ماں باپ کے قلوب پر ڈال رکھی ہے جس کی وجہ سے انہیں اولاد کے ساتھ فطری شفقت محبت ہوتی ہے اس محبت کا حسین منظر چرند پرند میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے دیکھو تو صحیح ایک ننھی منی سی جان ہے مگر اپنے لئے گھونسلہ بناتی ہے اور اپنے بچوں کے کھانے کے واسطے چارے چن کر لاتی ہے یہاں تک کہ اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کر لاتی ہے اور اپنے بچوں کو پلاتی ہے، مرغی کو دیکھئے کہ وہ ایک کمزور سی مخلوق ہے مگر اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے درندوں سے ٹکرا جاتی ہے انسان تو بہر حال اشرف المخلوقات ہے عقل کے نور سے معمور ہے اسکا اپنی اولاد کے ساتھ محبت کا ہونا ایک قدرتی اور قابل فہم بات ہے اسی محبت کے بنا پر ماں باپ اپنا سب کچھ اولاد کیلئے قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں غور کرنے سے یہ بات طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ جب والدین اپنی اولاد کی پرورش کیلئے ہر شکل اختیار کرتے ہیں تو اولاد کی لئے بھی ضروری ہے کہ والدین کا احترام کریں اور ان کی خدمت و اطاعت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں تمام آسمانی کتابوں میں والدین کی حقیقت کو اچھی طرح واضح کیا گیا ہے ۔امام غزالی اپنی کتاب مکاشفۃ القلوب میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا اے موسی علیہ السلام جس نے والدین کی فرمانبرداری اور میری نافرمانی کی تو میں اسے نیک لوگوں میں شمار کرتا ہوں جو میرا فرمانبردار ہونے کے باوجود اپنے والدین کا نافرمان ہو تو میں اسے نافرمانوں میں شمار کرتا ہوں۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے وقضی ربک ان لا تعبدوالا ایاہ وبالوالدين إحسانا امایبلغن عندک الکبر أحدهما او کلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھر ھما وقل لھما قولا کریما (پارہ 15 بنی اسرائیل آیت 23) (ترجمہ) اور تیرے رب نے فیصلہ فرمادیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے والدین کے ساتھ اس طرح پیش آؤ کہ اطاعت و فرمانبرداری تمہارے چہروں سے آشکار ہو اگر تمہاری زندگی میں ان میں سے ایک بھی بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ جھڑکو اور ان سے ادب بات کرو! اف ۔اف کا مطلب یہ ہے کہ والدین کے سامنے اس طرح سے لمبی سانس لینا کہ جس سے ان کو ناگواری ہو وہ سانس بھی اف میں داخل ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایذارسانی میں اگراف سے بھی کوئی کم درجہ ہوتا تو یقیناً اس کا ذکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ان آیات مبارکہ سے یہ بات اظھر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اگر والدین بوڑھے ہو جائیں اور تمہیں ان کا پاخانہ پیشاب بھی دھونا پڑے تو بھی تمہارے چہرے پر ناگواری کی شکن معلوم نہ ہو اور یاد کرو اپنے بچپن کے زمانے کو جب کڑاکے کی ٹھنڈی پڑتی تھی اور تم بستر پر پیشاب کردیتے تھے تو ماں تمہیں اپنے سینے سے لگاتی تھی اور خود برف آلود بستر پر سوجاتی تھی ذرا یاد کرو اپنے بچپن کے زمانے کو کہ تم پیشاب پاخانہ کرتے تھے اور ماں اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی تھی اور اس کے چہرے پر شکن بھی نہیں آتی تھی اور بے رخی کا اظہار بھی نہیں کرتی تھی ۔والدین کا حق حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے اور حقوق العباد میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ والدین کی دل و جان سے خدمت کریں اور انکا حکم بجالانے کی حتی الامکان کوشش کریں اور اپنے لئے ذخیرہ آخرت کریں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا ہے نہ بن اپنا تو بن

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad