تازہ ترین

جمعہ، 7 اگست، 2020

تحریک آزادی میں اکابر علماء کی قربانیاں

ازقلم-انعام الرحمن اعظمی خادم دارالعلوم تحفیظ القرآن سکھٹی مبارک پور 

ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن 
اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا 

قارئین کرام: ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ 70/سال قبل ہم غلامی کی شب و روز گزارنے پر مجبور تھے- لیکن ہمارے اکابر علماء نے اپنی بے پناہ قربانیوں سے اس ملک کو انگریزوں کے پنجے سے آزاد کرایا،آزادی ہند کی ایک طویل تاریخ ہے جس کو بیان کرنے کے لئےکافی وقت درکار ہے اسی طرح اس کو تحریری شکل دینے کے لئے بھی کئی سو صفحات درکار ہیں،بس مختصراً یہاں کچھ قسطوں میں آزادی ہند اور اکابر علماء کی قربانیوں کو بیان کرنے کی کوشش کرونگا- یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں حق اور باطل کی آویزش اور ٹکر رہی ہے، چنانچہ جب ہم اسلامی تاریخ کی کتابوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمدﷺ تک ہر دور اور ہر زمانہ میں حق اور باطل مقابلہ میں آتے رہے،حق بے سروسامانی کے عالم میں آیا تو باطل سرکشی تکبر،انانیت و استکبار، عجب و شوکت، جاہ و حشمت، اور طاقت و ثروت لے کر نمودار ہوا، لیکن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ بے سروسامانی کے عالم میں نمایاں ہونے والے حق کو ہمیشہ اللہ نے غلبہ عطا فرمایا ہے،

جب ہم اپنے ذہنوں کو چودہ (14) سو سال کی تاریخ کے پیچھے لے جاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ باطل نمرود کی شکل میں آیا تو حق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے سروسامانی کے عالم میں آیا، باطل فرعون کی شکل میں آیا تو حق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شکل میں آیا، باطل بنی اسرائیل کی خونخواروں کی شکل میں آیا تو حق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں آیا، باطل قیصر و کسریٰ کی شکل میں نمودار ہوا تو حق حضرت محمد ﷺ کی شکل میں ظاہر ہوا باطل حجاج بن یوسف کی شکل میں آیا تو حق عبداللہ بن زبیر کی شکل میں آیا، باطل خلیفہ منصور کی شکل میں آیا تو حق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شکل میں آیا اور جب سولہویں صدی عیسوی میں باطل انگریز کی شکل میں آیا تو حق شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی شکل میں آیا اور باطل جب فتنوں کی شکل میں آیا تو حق علماء دیوبند کی شکل میں آیا،گویا کہ باطل نے جس رنگ و روپ میں اپنا سر اٹھایا اللہ نے اسی رنگ و روپ میں حق کا بول بالا کیا،اب آۓ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس ملک کو آزاد کرانے کی ضرورت کیوں پڑی تو ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ ملک انگریزوں کی غلامی کا شکار تھا، اس برصغیر پر انگریز نے ڈیڑھ سو سال سے زیادہ حکومت کی تھی، اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ انگریز کے خلاف علماء میدان میں نکلیں، علماء نے جیلوں کو آباد کیا، انگریز کے مظالم کا مقابلہ کیا، علماء پھانسی کے تختے پر لٹکاۓ گئے لیکن انگریزوں کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا، 

اب سوال یہ ہے کہ انگریز کب آیا اور کس طرح اس نے اپنے پنجے کو جمایا، اریخ یہ بتاتی ہے کہ سولہویں صدی کے اوائل میں انگریز اس ملک میں آیا جب انگریز اس ملک میں  آیا اس وقت ہندوستان کا بادشاہ جہانگیر تھا اور اس وقت پورے ملک کی سرکاری زبان فارسی تھی نیز اس وقت کے حالات کیا تھے یہ بھی بیان کرنے کے قابل ہے تاریخی حوالوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے اس وقت صرف دہلی شہر میں ایک ہزار (1000) دینی مدارس تھے- بعض تاریخی شواھد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انگریز 1601/ء میں آنا شروع ہوا اور 1608/ء میں برطانیہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک تجارتی وفد (اسکوڈی گاما) کے ذریعے بمبئی اور بعض تاریخی حوالوں سے مدراس کے ساحل پر اترا اور اس نے حکومت وقت سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے ہم ہندوستان کی تجارت کو مستحکم کرنے کے لئے آۓ ہیں، یہاں کے مال کو برطانیہ کی منڈی میں لے جائیں گے اور وہاں کے پیسے کو ہندوستان میں لگائیں گے اور ہندوستان کو تجارتی طور پر مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے، اس وقت کا بادشاہ جہانگیر تھا بہت ہی ناعاقبت اندیش وہ انگریز کی اس سیاست کو سمجھ نہ سکا اور انگریز کے اس وفد کو بہت زیادہ سہولتیں دیں، بڑے بڑے کار خانے لگانے کی اجازت دے دی گئی ریاستوں کی ریاستیں انگریز افسروں کے نام کردیں اور کہہ دیا کہ اس علاقہ کی حکومت تیری ہے اور اس کا فیصلہ تو کرے گا، وہ تجارتی کمپنی آئی اور تقریباً ایک صدی کے بعد 1701/ء تک ہندوستان کے کئی چھوٹے چھوٹے علاقوں پر انگریزی حکومت قائم ہوگئی بالآخر 1717/ء میں میسور کے ایک صوبے پر قبضہ کرلیا اور اس کی گورنری بھی ایک انگریز کے ہاتھ میں آئی اسی طرح ہندوستان کے چار بڑے بڑے صوبوں پر 1740/ء سے پہلے پہلے انگریز حکمراں ہوگیا-1740/ء کی بات ہے کہ انگریز کئی صوبوں کا گورنر بنا اور اس کے ہاتھ میں حکومت آگئی،

لیکن اسی اثناء میں ہندوستان میں 1702/ء میں دہلی شہر کے اندر ایک لڑکا شیخ عبدالرحیم کے گھر پیدا ہوتا ہے اس لڑکے نے آنکھیں کھولیں تو وہ دیکھتا ہے کہ ہندوستان کے کئی صوبوں پر انگریزی حکومت قائم ہورہی ہےوہ لڑکا کون تھا؟ اس لڑکے کو  شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کہتے ہیں،1601/ء میں انگریز آیا اور 1702/ء شاہ ولی اللہ پیدا ہوئے 1740/ء میں شاہ ولی اللہ نے دیکھا کہ انگریز چار بڑے بڑے صوبوں پر قابض ہوچکا ہے-شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے بیٹوں کا مختصر تعارف کراتا چلوں میرے ناقص علم کے مطابق ہندوستان میں شاہ ولی اللہ نے سب سے پہلے انسان ہیں جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ میں منظم طور پر سب سے پہلے درس حدیث شروع کیا شاہ ولی اللہ سے پہلے حدیث کا درس ہندوستان میں کسی نے نہیں دیاشاہ ولی اللہ نے سب سے پہلے قرآن کریم کو عربی زبان سے فارسی میں منتقل کیا ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ شاہ ولی اللہ سے پہلے پورے ہندوستان میں کسی نے قرآن کا ترجمہ عربی سے کسی زبان میں نہیں کیا تھا، شاہ ولی پہلے انسان ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو فارسی میں منتقل کیا، ان کے بعد ان بیٹے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے فارسی میں قرآن کی تفسیر عزیزی لکھی اور اس کے بعد ان کے دو بیٹوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے فارسی سے اردو میں قرآن کا ترجمہ کیا آج برصغیر میں جتنے بھی تراجم موجود ہیں ان سب تراجم کی بنیاد شاہ ولی اللہ اور ان کے ان سب بیٹوں کے ترجمے پر ہے، گویا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے قرآنی تعلیمات کو ہندوستان میں عام کیا شاہ ولی اللہ سمجھتے تھے کہ اگر قرآن وحدیث کے علوم کو عام نہیں کیا گیا تو انگریزی حکومت اسی طرح مستحکم ہوتی رہے گی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ایک کتاب لکھی ہے (حجۃ البالغہ) علماء جانتے ہیں کہ اتنی عظیم المرتبت کتاب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے پہلے کسی نے نہیں لکھی ہے، شاہ ولی اللہ وہ انسان تھے جنہوں نے سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات کو لے کر اسلام کا معاشی نظام اسلام کا اقتصادی نظام، اسلام کا نظام سیاست پیش کیا، اسلام کے طرزِ معیشت اور طلب معاش کا فلسفہ پیش کیا اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی اس کتاب کو لبنن اور مارکس نے پورے ستر70/ سال بعد چرایا اور چرا کر ان کے اصولوں سے قرآن اور اللہ کے نام کو ختم کرکے (اشتراکیت) کا نام دے دیا ہمارے پاس ان کے شواھد موجود ہیںشاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ وہ واحد عالم ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کا معاشی فلسفہ پیش کیااور ان کی کتاب(حجۃ البالغہ، تفہیمات الٰہیہ، فیوض الحرمین) اور دوسری بہت سی کتابیں ان کے علوم و افکار کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرقہ اثناء عشریہ کا مقابلہ کیا، سکھوں کی رسموں کے خلاف جہاد کیا، ہندؤں کی رسموں کے خلاف مقابلہ کیا بالآخر 1762/ء میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا انتقال ہوگیا
(جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad