تازہ ترین

بدھ، 5 اگست، 2020

ٹوٹیں گی زنجیریں

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

اپنے دامن کے لیے خار چنے خود ہم نے
اب یہ چبھتےہیں تو پھران سے شکایت کیا ہیے

 ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی، مذہبی  بصیرت کی بڑی لمبی اور  روشن تاریخ ہے ۔یہاں  صدیوں مسلما نوں نے   حکومت کی، انھیں اقتدار حاصل رہا۔ اپنی سلطنت کو خوب وسعت دی  ۔اپنی سلطانی(بادشاہت) کو بچانے کیلئے  ہر وہ طریقے  اپنائے گئے  جس سے اکثریت  خوش ہوتی ہو۔گائے کے ذبیحہ  پر پابندی، اکثریت  کے مذہبی روایات کی پاسداری اور اس میں  بادشاہوں کی شرکت اور تیج تہواروں کو  بڑھاوا، دیگر مذاہب کی خواتین سے شادی بیاہ کر کے ان کے قبیلوں کو عزت اوروقار دے کر اپنے اقتدار کو مستحکم کیا۔  جھروکے، درشن اور بد عقیدگی کو بڑھا وا دیا۔مندروں  کے لیے زمین اور جاگیریں عطا کی۔صدیوں  حکمرانی کے بعد بھی مسلمان اقلیت میں  رہیے  جبکہ اطراف  میں مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی  آبادی  رہی ۔اور آج کثیرالعیالی کے باوجود  اسی تناسب میں ملک کی اقلیت میں ہیں ۔تاریخ  بتاتی ہیے کہ دور مسلم حکمرانی میں  رعایا خوش اور اپنے  عقیدے  پر قائم رہیے۔  تلوار کی طاقت  سلطنت کی وسعت کے لیے استعمال  ہوئی ۔اسلام کی تبلیغ اشاعت اور دعوت کی کوشش نہ منصوبہ  بند کی گئی  نہ مد مقابل سے تعصب و نفرت کی کوئی  تحریک چلائی  گئی ۔اس گنگا جمنی  تہذیب ورواداری میں سب کے پھلنے پھولنے کے مواقع نظر آتے ہیں اس کی مثال وہ اتحاد  ہیے جس نے  انگریزوں  سے ملک آزاد کرانے میں کردکھایا۔

1905میں  ہندو مہا سبھا اور 1909 میں  شدھی سبھا، 1925 میں  RSSاور اس کی  منتظم  تحریک  نے جنم لیا۔ودیا بھارتی، ہندو سیوا پرتشٹھان، وویکانند کیندر، اکھل بھارتیہ  ودیارتھی پریشد، بھارتی مزدور سنگھ، جن سنگھ،  وشو ہندو پریشد، عورتوں  کی منظم اور عسکری تنظیمیں درگا واہنی، طلبہ کی اکھل بھارتیہ ودیارتھی  پریشدABVP، سیاسیات  میں  بھارتی جنتا پارٹی BJP وغیرہ ۔۔۔۔اپنے مقاصد، منصوبوں اور کامیابی  کے اعتبار سے ان کی ترقیات بام عروج  پر ہیں ۔لاکھوں  طلبہ، سیکڑوں  ذیلی تنظیموں ۔اداروں  کے ساتھ  ملک کے  ہر شعبہ  میں  ہندوتوا کے نظریات  لیے زندہ  ہیں اور  نفرت کی فصل  کاشت کرنے میں عظیم  قربانیوں  کے ساتھ ایک تال میل لیے کامیابی کو چھورہے ہیں ۔،شدھی تحریک۔ گھر واپسی، مآب لینچنگ، فرقہ وارانہ  فسادات، لوٹ مار،  ظلم و جبر، تعلیمی  پالیسی  میں  اپنے فسطائی نظر یات کی آبیاری، اپنی مرضی  کی تاریخ  کو گھڑ  گھڑکر پھیلانا۔جسمانی وعسکری  تربیت، اپنی تہذیب وثقافت  کو زندہ  رکھنے  کے مواقع ۔اجتماعی  نظم و ضبط کے لیے قربانی  کے جذبے نے  کامیابی  عطا کی ہیے۔مسلمان  ایک کام کو غلط طریقے پر کر رہے  ہوں! کیا وہ مسلمان  ہیں اس لیے ان کے غلط طریقے  کا نتیجہ  صحیح  ہو جائے  گا؟ اور غیر مسلم کسی کام کو صحیح  طریقے  پر انجام دے رہے ہوں، جدوجہد میں  سرگرم ہوں تو محض اس وجہ سے کے وہ غیر مسلم  ہیں ان کی صحیح  جدوجہد کا نتیجہ  نہ ملے۔اللہ  کے یونیورسل  قانون  میں  اس طرح  کی نا انصافی  نہیں ہیے۔سخت محنت اور جہد مسلسل آپ کو بھی کامیابی  عطا کرے گی۔

جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل 
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہیے 

"اللہ  ایسے لوگوں  کی مدد کرتا ہے، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں"۔کامیابی کی جنگ  میں جفاکشی، ایثاروقربانی،، جہد مسلسل، منصوبہ  بندی، اجتماعیت  کے تقاضوں کے بغیر نہیں  جیتی جا سکتی۔ اسلام کی دعوت کروڑوں بندگان  خدا تک نہ پہنچانے کی غلطی اور مسلمانوں کے سواد اعظم اور طبقہ علماء کی  اس مشن سے غفلت اور چشم پوشی  نے بھارت میں مسلمانوں کی  یہ حالت بنادی ہے ۔ایک جماعت اسلامی ہند، ہیے جو کئی دہائیوں سے دعوت، دعوت کے عنوان  سے سنجیدہ کوشش کر رہی ہیے۔لیکن اسے اپنے ہم مذہبوں کی طرف سے تعاون حاصل نہیں ۔اپنے محدود وسائل کے باوجود  ملک کی بڑی بیس زبانوں میں دعوتی لٹریچر تیار کیا ہے ۔اور اپنے پالیسی پروگرام میں اسلام کی دعوت  کو سب سے مقدم رکھاہیے۔

اسلامی  بیداری  کے چند اصول
(1) فروع اور جزئیات کے بجائے اصول اورکلیات پر زور۔
(2)نوافل کے بجائے  فرائض  پر زور۔
(3)اختلافی باتوں  کی بجائے  متفقہ  پر زور۔
(4) غلو وتفریط کی بجائے  اعتدال اور درمیانہ روی  پر زور۔
(5)جمود و تقلید کی بجائے تحریک  واجتہاد پر زور۔
(6)جذباتیت اور وقتی اقدام  کی بجائے  عملیت پسندی اور منصوبہ بندی پر زور ۔
(7)اختلاف راے کرنے والوں  کے خلاف تعصب ونفرت کے بجائے  رواداری پر زور ۔
(8) تعداد کی بجائے  کیفیت پر زور۔
(9)معاشرے پر الزام  تراشی  کے بجائے ہم آہنگی اور معالج  کی طرح ہمدردانہ  موقف پر زور ۔
(10)تنگ نظری کی بجائے  وسیع النظری پر زور۔
حقیقت  خرافات  میں  کھو گئی 
یہ امت روایات  میں  کھو  گئی 
(11) تکرار اورعداوت والے اختلاف  کے بجائے  نیکی کے کاموں میں تعاون 
(12،)خود  پسندی  کے بجائے  محاسبہ  نفس پر زور ۔
(13)خوابوں کے آسمان کے بجائے  حقیقت پسندی پر زور۔
(14)سہل پسند  کے بجائے  جفا کشی  اور محنت  شاقہ پر زور ۔۔
اگر ہوں  آسانیاں تو زندگی  دشوار ہو  جائے 

تلاش دست رہبر
(1) فارغین  مدارس  کی  دعوتی و عملی میدان  میں قیادت
دینی، ملی، سیاسی شعور کی بیداری اورنو جوانوں  کی ہر شعبہ  میں  تربیت ۔
(2) خطبات جمعہ  کو دینی بصیرت ،شعور کی آبیاری، اسلام پر چلنے اور اس کی دعوت  پہنچانے کے فریضے کو مقدم کرنااور حالات حاضرہ  کے تحت  موثر بنانا۔
(3)اسلام کی دعوت  عام کرنے کی جدوجہد، تربیت اور فعال سرگرمی۔
( 4) کالجز  میں اسلام ،سیرت رسول صلی اللہ تعالیٰ وسلم اور تاریخ  اسلام پر گفتگو اور طلبہ کی ذہین سازی۔
(5)ملی اداروں اور انجمنوں کو فعال اور مقاصد کے مطابق چلانا۔ محاسبہ اور منصوبہ  کا جائزہ  لیتے رہنا چاہیے۔
اجتماعی  آداب اور اصول وضوابط کو ملحوظ  رکھنابھی لازم ہیے۔

دوسری اقوام نے بھر پور کوشش  کی، قولی و عملی شہادت دی اپنا قیمتی وقت اور مال ،زندگیاں خرچ کی جس کے نتائج آپ کےسامنے ہیں ۔آپ محبت اور خدمت خلق کے  جذبے سے آگے بڑھ  کر دکھی انسانیت  کے لیے نجات دہندہ  پیغام  کو لے کر اٹھیں گے تو اللہ  اپ کے مشن کو کامیاب  فرمائے گا ۔عظیمت کی راہیں کھلیں  گی۔عزت ووقار اورسرخروئی نصیب ہو گی۔
وہ زمانے میں  معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے  تارک قرآں ہو کر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad