تازہ ترین

پیر، 26 اکتوبر، 2020

آئیے اس ربیع الاول کچھ عہد کریں

  ظفر کبیر نگری چھبرا ،دھرم سنگھوا بازار ،سنت کبیر نگر ،یوپی

اللہ کے فضل و کرم سے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مقدس مہینہ ربیع الاول جاری و ساری ہے، عشق نبی اور محبت رسول کے دعوؤں اور خوشیوں کے اظہار کے طور پر گلی محلوں میں اہل اسلام کی جانب سے جلوس نکالنے، خوشیاں منانے، پرچم لہرانے،. گلیوں اور بازاروں میں تقریبات کا انعقاد کرنے، در و دیوار کو سجانے، جلوس میں شرکت کرکے اپنی اپنی محبت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ  مساجد میں درود و سلام کی محافل کے انعقاد کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے، مساجد کو برقی قمقوں سے سجادیا گیا ہے، ماہ رواں کے بارہ دن خوب جوش و خروش اور عقیدت و محبت سے خوشیاں منانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ان شاء اللہ، لیکن اس کے بعد کیا ہم کو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد رہے گا، ہمارے اعمال و افعال اور اخلاق میں کوئی تبدیلی ہوگی،



 ہماری زندگیاں جوں کی توں بر قرار رہیں گی یا کوئی انقلاب ہوگا، ہمارے روز مرہ کے معمولات میں کوئی فرق پڑے گا، کیا ربیع الاول کی اتنی سی اہمیت رہ گئی ہے کہ ملت کے کچھ افراد کچھ دن جشن مناکر، کھا پی کر باقی سال آرام سے سو جائیں اور کچھ افراد اس کام کو بدعت قرار دے کر دفاعی پوزیشن میں یہ مہینہ گزار کر اپنے آپ کو مجاہدین اسلام سمجھ کر سارا سال چپ رہیں؟ نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا امت مسلمہ نے اس نادر موقع سے بہت کچھ فیض لینا ہے،امت کے لیے یہ موقع اس بھلائے ہوئے سبق کی یاد دہانی ہے جس کو مسلمان بھلا کر آج دنیا میں ذلیل و خوار ہے، ربیع الاول کا مہینہ پوری امّت کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مہینہ ہے، 


حالانکہ سارے مہینے اللہ ہی کے بنائے ہوئے ہیں، مگر یہ مہینہ آپ علیہ السلام کی ولادت کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے امت کو چاہیے وہ اس نادر موقع سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کریں، اگر ایسا ہوا تب تو ٹھیک، ورنہ گویا ہماری محبت کا محور جشن اور خوشیاں منانا ہی تھا، عمل سے کوئی سروکار نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اسباب کے متعلق امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، "کبھی کسی سے محبت اس لذت کی بنا پر ہوتی ہے جسے انسان کسی کی صورت وآوازیا کھانے وغیرہ میں محسوس کرتاہے


،کبھی ان اندورنی خوبیو ں کی بناپرہوتی ہے جسے انسان اپنے شعورکے ذریعہ بزرگوں،اہل علم یاہرقسم کے اہل فضل لوگوں میں محسوس کرتا ہے، اورکبھی محبت اپنے اوپرکئے گئے احسان یا اپنی مشکلات کاازالہ کئے جانے کی بنا پرہوجاتی ہے، اوریہ تمام اسباب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجودہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت ہرقسم کے ظاہری وباطنی جمال وکمال اورہرقسم کے فضائل وکردار سے متصف ہیں نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراط مستقیم اوردائمی نعمتوں کی طرف تمام مسلمانوں کی رہنمائی کرکے اور جہنم سے انہیں دورکرکے احسان عظیم کیاہے"، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کرتے یا کسی کام کا حکم دیتے تو بغیر کسی قیل وقال کے اس پر عمل کرنا شروع کر دیتے اور اس کو اپنی سعادت اور خوش بختی سمجھتے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے محبت رسول کی ایسی اعلی ترین اور عملی مثالیں پیش کی ہیں جس کی نظیر نہیں ملتی اور نہ آئندہ مل سکتی ہے، چند نمونے ملاحظہ فرمائیں.


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی انصاری صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، بطور خادم میں بھی ساتھ تھا، صاحب خانہ نے خشک کیے ہوئے گوشت (قدید) کی بوٹیوں کے ساتھ شوربے والا کدو پکا رکھا تھا جو آنحضرتؐ کی مرغوب غذا تھی، دسترخوان بچھا کر ایک بڑا پیالہ رکھ دیا گیا جس میں کدو اور شوربے والا گوشت تھا، انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیالے میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھانے لگے، یہ دیکھ کر میں نے شوربے میں سے کدو کے ٹکڑے نکال کر آپؐ کے سامنے رکھنے شروع کر دیے، اور پھر اس کے بعد مجھے کدو سے محبت سی ہوگئی اس لیے کہ جناب رسول اللہؐ اسے پسند فرماتے تھے،


 حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ غزوۂ احد میں اپنی ترکش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بکھیر کر کہتے ہیں، "میری جان آپ پر قربان"  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی صورتحال دیکھنے کیلیے فرماتے تو آپ کو ابو طلحہ کہتے، "اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مت دیکھیں مبادا کوئی دشمن کا تیر آ کر نہ لگ جائے، میرا سینہ آپ کے سینے کیلیے سِپر ہے" ادھر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاتے ہیں یہاں تک کہ ابو دجانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک گئے اور ان کی ساری کمر تیروں سے چھلنی ہو گئی۔ اور زید بن دَثِنَہ رضی اللہ عنہ کو سولی چڑھانے کیلیے بلند کئے جانے کے بعد مشرکین نے کہا: "زید! تمہیں اللہ کی قسم ہے، یہ تو بتلاؤ کہ کیا تم پسند کرو گے کہ :محمد ہمارے پاس تمہاری جگہ ہوں  اور ہم ان کی گردن مار دیں، اور تم اپنے گھر میں پرسکون رہو؟" 


اس پر انہوں نے کہا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ وہ جہاں بھی ہوں انہیں وہاں پر ایک کانٹا بھی چبھے  اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں"، حضرت نافعؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جب نابینا ہوگئے تھے، ایک روز مجھ سے کہا کہ ذرا بازار تک لے چلو۔ میں نے ہاتھ پکڑا اور بازار لے آیا تھوڑی دور تک چلے اور پھر فرمایا واپس چلو۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت کام تو آپ نے کوئی بھی نہیں کیا۔ فرمایا کہ آتے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ سلام جواب ہوا ہے اور واپسی پر بھی کچھ لوگوں کے ساتھ گزرتے ہوئے سلام کلام ہوگا۔


 بس اسی کام کے لیے آیا تھا کہ کچھ مسلمان بھائیوں سے سلام کہنے اور سلام کا جواب دینے کی اس سنت پر عمل ہو جائے گا جس پر کافی دنوں سے اندر بیٹھے بیٹھے عمل نہیں ہو رہا تھا۔ اللہ تعالی ہمارے نبی محمد  پر درود و سلام نازل فرمائے اور آپ کے صحابہ کرام سے راضی ہو۔ ایسی مثالیں آج بھی سامنے آئیں ہر مسلمان کو اس کیلیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے ۔


اس ربیع الاول سے ہم عہد کریں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تعلیمات پر چلنے اور ان کے طریقے کو اپنانے کی کوشش کریں گے، اور زندگی کے تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کو معلوم کرکے اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے، یہی محبت اور فرماں برداری کا اصل تقاضہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن سنتوں کا ہمیں علم ہے ان پر عمل کے ساتھ ان کی اشاعت اور ان کو دوسروں تک پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے، دیگر تمام امور میں آپ کا اسوہ حسنہ معلوم کرکے اس پر عمل کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ کریں گے جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو، نبی کی سنتوں کا علم اس کی اشاعت اور نبی کا کثرت سے ذکر کرنے کے بعد ہمارے دل میں روضہ اطہر کی زیارت كی شدید خواہش پیدا ہو جائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے شدید ترین محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے


 ان میں سے ایک اپنے اہل خانہ اور پوری دولت کے بدلے میں مجھے دیکھنے کی خواہش کرے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کا حکم دیا ہم اس پر عمل کرنے اور جن باتوں سے منع کیا ان سے باز رہنے کی پوری کوشش کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو تفصیل سے جاننے کی کوشش کریں گے سیرت کی کتابوں کا خوب مطالعہ کریں گے آپ کی سیرت و سوانح اوصاف اور اخلاقیات کے متعلق خوب معلومات حاصل کریں گے اور ان چیزوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے، زندگی کے تمام دینی و دنیاوی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و نا پسند کو اپنی پسند وناپسند بنانے کی کوشش کریں گے اور روزمرہ کے معمولات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کے مطابق انجام دینے کی کوشش کریں گے،


 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کے صحابہ کرام اور اہل بیت سے محبت کے ساتھ ان کا دفاع بھی کریں گے، اور نبی کی سنتوں کو زندہ کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی جد و جہد کریں گے، اور رسم و رواج کو چھوڑ کر سنتوں کو اپنائیں گے اور اپنی سیرت و صورت کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وصورت کے مطابق ڈھالنے کی مکمل کوشش کریں گے، ماہ ربیع الاول کو حبیب خدا کی محبت اور اس کی یاد میں کثرت عبادات و اعمال صالحہ سے مزین کریں گے، اس ماہ میں خاص طور پر ہر خلاف سنت فعل سے بچنے اور اس پر استقامت کی سعی کریں گے، مکروہات وبدعات سے بچیں گے ،ہر وہ کام جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچ سکتی ہو اس سے بہت دور رہیں گے، ان کی لائی ہوئی مبارک شریعت کے خلاف کسی ادنیٰ عمل سے بھی گریز کریں گے ان شاء اللہ، و اللہ الموفق و المستعان ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad