تازہ ترین

جمعہ، 5 اپریل، 2024

عیدا لفطر کی خوشیاں سیوئیوں کے بغیر ادھوری

عیدا لفطر کی خوشیاں سیوئیوں کے بغیر ادھوری 

 حاجی ضیاءالدین :عید الفطر کی خوشیاں سیوئیوں کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے عیدین کے موقع پر خصوصاً عیدالفطر کے موقع پر لوگ خصوصی توجہ کے ساتھ ایک دوسرے کے گھروں تک پہنچ کر سیوئی کھاتے ہیں تو وہیں گائوں دیہات میں جب مرد حضرات عید الفطر کی نماز ادا کر نے کے لئے مسجد یا عید گاہ جاتے ہیں تو اس دوران خواتین یا بچیاں اپنے عزیز اقارب کے گھروں تک پہنچ کر سیوئی سے لفط اندوز ہو تی ہے.

 اور مردوں کی واپسی سے قبل اپنے گھروں کو لوٹ جا تی ہیں گو یا عیدین کا تیوہار سنوئیوں کے بغیر ادھوار ہے موجودہ وقت میں چھوٹی بڑی بازاروں میں مختلف اقسام کی سوئیاں آسانی سے دستیاب ہیں لیکن چند دہائی قبل جب ذرائع کم تھے خواتین گھروں میں ہی سیوئیاں  مل جل کرتیار کرلیاکر تی تھیں اتنا ہی نہیں پو رے گائوں میں بس چند مشینوں سے خواتین مل جل کر سیوئیاں تیار کر لیاکر تی تھیں اور گھر کی تیار سوئیوں کو لوگ بڑے ہی شوق سے عید کے موقع پر نوش کیا کر تے تھے تو وہیں بعض خواتین کسی خاص تقریب کے لئے سیوئیاں تیار کیا کر تی تھیں ترقی ہو ئی تو بڑے شہروں میں سیوئی تیار کر نے کے لئے  صنعت لگائی گئی ۔


جہاں ایک دن میں ہزاروں کلو سیویاں آسانی سے تیار ہو جاتی ہیں یوں تو ۸۰ کی دہائی تک خواتین کے ذریعہ گھروں میں سیوئی تیار کر نے کا چلن عام تھا محنت کش کام ہو نے کے بعد بھی خواتین پوری دل جمعی کے ساتھ سیوئیاں تیار کیا کر لیتی تھیں۔ سیوئی بنانے کے لئے میدہ اور پانی کی ضرورت ہو تی ہے میدہ ۔تیار کر نے کے لئے چار پائی کو الٹ کر کے اس کے چاروں پائے میں باریک کپڑا باندھ دیاجا تا تھا اس کے نیچے کوئی برتن رکھ دیا جاتا تھا کپڑے کے اوپر آٹا گرا کر کسی پیالے یا برتن سے خوب ہلایا جا تا تھا اس طرح ضرورت کے مطابق میدہ تیارہو جانے پر خواتین مل کر جل پانی ڈال کر میدہ کو تھوڑا سخت گوند کر تیارکرلیتی تھیں۔ 

سیوئی بنا نے والی مشین کو پہلے کسی پلنگ و تخت کے پائے کے ساتھ فٹ کر دیا جا تا تھا اس دوران چند خواتین مل کر لوئی تیار کرتے ہوئے مشین میں ڈالا کرتی تھی ایک خاتون مشین کے ہنڈل کو پوری طاقت کے ساتھ گھماتی تھی تو نیچے سے سیوئی بن کر تیارہوتی تھی اس کے بعد لچھا کی شکل میں تیار ہو نے والی سیوئی کو مشین سے علیحدہ کر کے کسی چار پائی یا درسی وغیرہ کے سہارے دھوپ میں رکھ کر کے خشک کر لیا جا تا ۔


ا س کے کام میں خواتین کا ساتھ چھوٹے بچے بھی بڑے ہی شو ق سے ساتھ دیا کر تے تھے ضرورت پڑنے پر گھر کے مرد حضرات بھی مشین کا ہنڈل گھما یا کر تے تھے سیوئی تیار ہو جانے کے بعد کسی برتن میں رکھ کر محفوظ کرلیا جا تا تھا موجودہ وقت میں بازاروں میں مختلف نوع کی سوئیاں دستیاب ہیں جس میں کیمامی ، رومالی ، فینی ، پراٹھا سیوئی آسانی سے دستیا ب شامل ہیں سیوئیوں میں عام طور پر کیمامی سیوئی کا استعمال کثرت سے ہو تا ہے ۔ 


گھر میں تیار ہو ئی سیوئی کو بنانے کے لئے کسی برتن میں ڈال کر دیسی گھی یا ڈالڈہ گھی ڈال کر سر خ ہو نے تک خواتین خوب بھونا کر تی تھیں اس کے بعد گڑ کی چاشنی بنانے کے لئے پہلے گڑ کو گھول کر کسی باریک کپڑے سے چھان لیا جاتا تھا تاکہ فضلات ضائع ہو جائیں اس کے بعد ضرورت کے مطابق ایک بڑے برتن میں گھی ، لونگ ایلائچی ، وغیرہ ڈال کر چھونک لگا نے کے ساتھ ہی چاشنی کو تیارکر نے کے بعد اس کو چولہے سے اتار کر سرد کر لیا جا تا پھر کچھ دیر کے بعد اس میں پہلے سے سرخ ہوئی سیوئیوں کو ڈال کر خواتین خوب ہلا تی تھیں ۔


ترقی ہو ئی تو بازاروں میں سیوئی بنانے کی صنعت لگنے لگی او رچھوٹی بڑی بازاروں میں مختلف نوع کی سیوئیاں آسانی سے دستیاب ہوگئی ہیں ۔ایک ضمن میں بنارس کے بھد ئو واقع پریتی فوڈ پروڈکٹس کے امرت لال (۷۴) سے بات کی گئی تو انھوںنے بتایا کہ سیوئی بنانے کا کام ہمارے دا دا نے شروع کیا تھا سیوئی بنانے کے لئے میدہ اور پانی کی ضرورت ہو تی ہے آٹو میٹک مشینوں سے سیوئیاں تیار کی جا تی ہے پہلے میدہ کو مشین میں گو ندا جا تا ہے اس کے بعد ضرورت کے مطابق ایک نمبر دو نمبر تین نمبر سیوئی تیار کی جا تی ہےایک دن میں موٹی سیوئی دس کنٹل تک آسانی سےتیار ہو جاتی ہے وہیں باریک سیوئی ۶ کنٹل تک تیار ہو پاتی ہے


 سیوئی تیار ہو نے کے بعد بانس و لوہے سے تیار جالیوں پر رکھ کر سیوئیوں کو خشک کر لیا جاتا ہے موسم باراں میں سیوئیوں کو خشک کر نے میں دقت ہو تی ہے اس لئے گھریلو صنعت کو بند کر دیا جا تا ہے ۔بقیہ دنوں میں سیوئیاں آسانی سے تیار کی جا تی ہیں یوپی  کے بیشتر اضلاع ، بہار ، بنگال ، مہا راشٹر وغیرہ سے خریدار پہنچتے ہیں اور ٹرکوں وغیرہ سے تیار سیوئیاں ان تک پہنچا ئی جا تی ہیںرمضان کے مہینے میں سیوئی کی ڈیمانڈ بڑھ جا تی ہے اس کی تیاری مہینوں قبل ہی کرلیتے ہیں عام دنوں میں سیوئی کے خریدار کم ہو تے ہیں۔بتاتے ہیں کی بازاروں میں عوام کی پہلی پسند کیمامی سیوئی ہے جو مہینوں خراب نہیں ہو تی ہے ۔


کیمامی سیوئی اور رومالی سیوئی بنانے کے لئے پہلے سیوئی کودیسی گھی یا ڈالڈا گھی میں ڈال کرسرخ کر لیا جا تا ہے موجودہ وقت میں بازاروں میں شکر ( چینی ) آسانی سے دستیاب ہے ایک کلو سیوئی میں تین کلو سے لے کر ۷ کلو چینی کا استعمال ہو تا ہے مالی فراوانی ہوئی تو موجودہ وقت میں سیوئی کو بنانے میں میوہ جات کثرت سے استعما ل ہو نے لگے ہیں ۔ چاشنی تیار کر نے کے لئے پہلے شکر ، دودھ ، پانی ڈال کر اگ پر رکھ کر خوب چلا یا جا تا ہے ایک کلو سیوئی پکانے کے لئے کم سے کم تین کلو شکر اور تین کلو سے پانچ کلو دودھ اور حسب ضرورت پانی ڈال کر چاشنی تیار کر لی جا تی ہے اس کے بعد گھی ، لونگ ایلائچی ، کا چھونک لگا یا جا تا ہے ۔ 


اس سے قبل لاوا ، گری ، کاجو ، بادام ، کشمش ، کھوا ، چرونجی ، مونگ پھلی وغیرہ کو ایک برتن میں ڈال کر گھی کےسہارے سرخ کرلیا جاتا ہے اس کے بعد میوہ او ر سیوئی کو پہلے سے تیار چاشنی میں ڈال دینے کے بعدکچھ دیر ہلانے کے بعد برتن کے بالائی حصہ کو باریک کپڑسے سے ڈھک دیا جاتا ہے کچھ لوگ سیوئی میں علیحدہ دودھ ڈال کر استعمال کر تے ہیں تو کچھ لوگ بغیر دودھ کے سیوئی استعمال کر تے ہیںرومالی سیوئی موٹی ہو تی ہے اس کو تیار کر نے کے لئے پہلے سیوئی کو سرخ کر لیا جا تا تھا ۔


پھر کسی سوتی کپڑے میں باندھ کر گرم پانی میں ڈال دیا جا تھا کچھ دیر کے بعد سوتی کپڑے سے نکال کر اس کے اوپر میوہ شکر وغیرہ ڈال کر رکھ دیا جا تا تھا ۔ دودھ اور شکر گرم کر کے پراٹھا سیوئی اور فینی سیوئی اس میں ڈال دیا جا تا ہے جو بہت آسان ہے لیکن لوگوں کی پہلی پسند کیمامی سیوئی ہے جو ہفتوں خراب نہیں ہو تی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad