تازہ ترین

جمعرات، 16 نومبر، 2017

عقد نکاح کا مسنون طریقہ


عقد نکاح کا مسنون طریقہ
تحریر،مقبول احمدسلفی اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف،مسرہ 

جائز طریقے سے باہم ملنے کا نام نکاح ہے، اسلام میں اس نکاح کی بڑی اہمیت ہے اسی سے نسل انسانی آگے بڑھی اور بڑھ رہی ہے اوریہ مومن ومسلم کے ایمان کی تکمیل کا باعث ہے۔ اس کا اہم مقصد عفت وعصمت کی حفاظت ہے۔یہ انسانی زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے اور اللہ کی طرف سے اس کے بندوں کے لئے نایاب تحفہ ہے۔ اول وآخر سارے انبیاء نے شادی کی اور اپنی اپنی امت کو شادی کا پیغام دیا تاکہ انسان اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کرے اور جائز طریقے سے اپنی خواہشات پوری کرے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر کیا ہے ۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّیَّۃً (الرعد:38)
ترجمہ : ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔ 
یہ دور بہت ہی پرفتن ہے ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کی جوان ہوتے ہی کہیں دینی اعتبار سے اچھا رشتہ دیکھ کر شادی کردے ۔ شادی کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا:
وَأَنکِحُوا الأَیَامَی مِنکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَاءِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَاء یُغْنِہِمُ اللَّہُ مِن فَضْلِہِ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ(النور:32)
ترجمہ :تم میں سے جو مرد، عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو، اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی۔ اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
اورنبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ منکُم الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاءٌ (صحیح البخاری:5066و صحیح مسلم :1400)
ترجمہ :اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے ، پس یہ اس کے لئے ڈھال ہوگا۔
یہاں میں نکاح کے مسائل پہ بات نہیں کروں گا بلکہ یہ بتلاؤں گا کہ نکاح کیسے منعقد ہوتا ہے؟ ، نکاح پڑھانے میں نبی ﷺ کا نمونہ اور اسوہ کیا ہے ؟ 
نکاح جس قدر عظیم امر الہی ہے اس کاا نعقاد بھی اسی قدر آسان ہے مگر لوگوں نے اسے تصنع اور رسم ورواج کا رنگ دے کر اسلامی رنگ سے بہت الگ کردیا ۔ ایک حدیث پیش کرتا ہوں اس سے اندازہ لگائیں کہ نکاح کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے ؟ نبی ﷺ کا فرمان ہے : 
إذا خطبَ إلیکم مَن ترضَونَ دینَہ وخلقَہ ، فزوِّجوہُ إلَّا تفعلوا تَکن فتنۃٌ فی الأرضِ وفسادٌ عریضٌ(صحیح الترمذی:1084)
ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔
اس میں نکاح کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنی شادی کا پیغام کسی لڑکی کے والد؍سرپرست کو دے کہ میں فلانہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور لڑکی کے والد لڑکے میں دین واخلاق پائے تو اس سیلڑکی کی شادی کردے یعنی لڑکی کا ولی لڑکے سے کہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کرتا ہوں کیا تمہیں قبول ہے ، لڑکا کہے ہاں مجھے قبول ہے ۔ شادی ہوگئی ۔یہی شادی کا اسلامی طریقہ ہے جس میں کسی محفل ، کوئی رسم ورواج اورکوئی تصنع کا ذکر نہیں ۔جو اس طریقہ یا اس طرح سے شادی نہیں کرتا تو اس سیفتنہ پھیلتا ہے ۔ آج زمین پر فتنہ وفساد کی کثرت اس سبب سے بھی ہیکہ شادی میں ہم نیسنت کا دامن چھوڑ دیا اور غیروں کی روش اختیار کرلی حتی کہ آج فلمی ستاروں کو دیکھ دیکھ کر مسلمان لڑکے کافرہ سے یا مسلم لڑکیاں کافر لڑکوں سے شادی کررہی ہیں ۔ العیاذ باللہ 
جو شادیاں مسلمانوں کی آپس میں ہوتی ہیں ان میں ذات وبرادری، رنگ ونسل، حسن وجمال ، دولت ومنصب، رسم وراوج ، ریاونمود ، تکلف وتصنع اور بدعات ومنکرات کی آمیزش ہوتی ہیں جبکہ نبی ﷺ کے زمانے کی شادیاں بالکل سادہ اورعام ہوتی تھیں ۔ ایک طرف سے پیغام آیا دوسری طرف سے پیغام قبول کرکے شادی ہوگئی ۔ دیکھیں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی شادی ۔ بخاری شریف کی روایت ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 
أنَّ النبیَّ صلَّی اللہُ علیہِ وسلَّمَ رأی عبدَ الرحمنِ بنِ عوفٍ أثرَ صُفرۃٍ، قال :ما ہذا؟ . قال : إنی تزوجت امرأۃً علی وزنِ نواۃٍ من ذہبٍ، قال :بارک لک اللہُ، أولمْ ولو بشاۃٍ .(صحیح البخاری:5155)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے دعوت ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کی ہو ۔
اس شادی میں حضرت عبدالرحمن نے امام کائنات حضرت محمد? تک کو نہیں بلایا جبکہ دونوں ایک ہی جگہ موجود ہیں ۔کتنی سادگی ہوگی اس شادی میں ؟ ۔نبی ? جنگ خیبر کے سفر پہ تھے مال غنیمت میں بنوقریظہ کے سردار کی بیٹی صفیہ آئیں ان سے نبی ﷺ کی شادی کا ذکر چند لفظوں میں دیکھیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: 
أنَّ رسولَ اللہِ صلَّی اللہُ علیہِ وسلَّمَ أعتَقَ صفیَّۃَ وتزوَّجَہَا وجعَلَ عِتْقَہَا صدَاقَہَا ، وأولمَ علیہا بِحَیْسٍ(صحیح البخاری:5169)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور پھر ان سے نکاح کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیااور ان کا ولیمہ ملیدہ سے کیا ۔
بخاری شریف میں ایک عورت کی شادی کا اس طرح ذکر کیا جسے نبی ﷺ نے منعقد کروائی ۔ 
جاء ت امرأۃ إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت : إنی وہبت منک نفسی . فقامت طویلا ، فقال رجل : زوجنیہا إن لم تکن لک بہا حاجۃ ، قال : ( ہل عندک من شیء تصدقہا ) قال : ما عندی إلا إزاری ، فقال : ( إن أعطیتہا إیاہ جلست لا إزار لک ، فالتمس شیئا ) . فقال ما أجد شیئا ، فقال : ( التمس ولو خاتما من حدید ) . فلم یجد ، فقال : ( أمعک من القرآن شیء ) . قال : نعم ، سورۃ کذا ، سورۃ کذا ، لسور سماہا ، فقال : ( زوجناکہا بما معک من القرأن ) .(صحیح البخاری:5135)
ترجمہ: ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہی ۔ اتنے میں ایک مرد نے کہا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کا نکاح مجھ سے فرمادیں ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس انہیں مہر میں دینے کے لئے کوئی چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس اس تہمد کے سوا اور کچھ نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنا یہ تہمد اس کو دے دوگے تو تمہارے پاس پہننے کے لئے تہمد بھی نہیں رہے گا ۔ کوئی اور چیز تلاش کرلو ۔ اس مرد نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ تو تلاش کرو ، ایک لوہے کی انگوٹھی ہی سہی ! اسے وہ بھی نہیں ملی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ۔ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن مجید ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! فلاں فلاں سورتیں ہیں ، ان سورتوں کا انہوں نے نام لیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ہم نے تیرا نکاح اس عورت سے ان سورتوں کے کے بدلے کیا جو تم کو یاد ہیں ۔
نکاح سے متعلق تمام احادیث کا حلاصہ یہ ہے کہ بس ایجاب وقبول کا نام نکاح ہے ، نہ قاضی وامام کی ضرورت ، نہ تقریب کا انعقاد ، نہ بارات و جہیز کا تصور اور نہ ہی کسی قسم کے رسم ورواج کی ضرورت ہے۔ سطور ذیل میں اب اختصار سے نکاح پڑھانے کا ذکر کرتا ہوں تاکہ نکاح خواں کے لئے آسانی ہو اور مسنون طریقہ سے نکاح پڑھائے ۔ 
نکاح سے پہلے شادی کا پیغام آچکا ہوتا ہے اور طرفین سے منگنی کے ذریعہ رضامندی کے ساتھ شادی کی بات پکی ہوچکی ہوتی ہے ۔ اب مسجد، مدرسہ یا کسی گھر پہ لڑکے والے جمع ہیں جہاں لڑکی کا ولی (اگر ولی حاضر نہ ہو تو اس کی رضامندی کے ساتھ کوئی وکیل) اور اس کے رشتہ دار بھی جمع ہیں ۔ نکاح کے ذریعہ لڑکا اورلڑکی کا عقد مسنون کیسے کیا جائے ؟ 
پہلی بات : بارات کا رواج غلط ہے لیکن نکاح کے موقع پر کچھ لوگوں کا جمع ہونا مستحب ہے اس سے نکاح کا اعلان ہوجائے گا جس کا حکم نبی ﷺ نے دیا ہے ۔ 
أعلِنوا ہذا النِّکاحَ واضرِبوا علیْہِ بالغربالِ(صحیح ابن ماجہ:1549)
ترجمہ: اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس موقع پر دَف بجایا کرو۔
ٌٌ شیخ البانی نے اس حدیث کے پہلے ٹکڑے کو ثابت مانا ہے۔ 
دوسری بات : اس وقت سماجی اور حکومتی سطح پہ نکاح نامہ کی بڑی سخت ضرورت بن گئی ہے اس لئے قاضی صاحب جنہیں نکاح پڑھانے کے لئے مدعو کیا گیا ہے انہیں چاہئے کہ نکاح نامہ اور دیگر کاغذی امور مکمل کرلیں ۔
تیسری بات : مہر طے ہو تو بہتر ہے اور اسے بھی لکھ لیا جائیتاکہ زوجین یا ان کے خاندان والوں میں بعد میں کوئی تنازع نہ ہو اور مہر طے کرنے کی دلیل ملتی ہے ، اللہ کا فرمان ہے : 
وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ(البقرۃ:237)
ترجمہ: اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا۔ 
چوتھی بات : لڑکی کی طرف سے اس کے ولی کی رضامندی حاصل ہواور وہ وہاں موجود ہو یا اس کی رضامندی سے اس کا کوئی وکیل موجود ہوکیونکہ بغیر ولی کے کوئی نکاح نہیں ہوگا ۔ 
نبی ﷺکا فرمان ہے : لا نِکاحَ إلَّا بولیٍّ(صحیح ابن ماجہ :1537)
ترجمہ: بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے ۔
اسی طرح یہ بھی فرمان رسول ہے :أیُّما امرأۃٍ نَکَحَت بغیرِ إذنِ مَوالیہا ، فنِکاحُہا باطلٌ ، ثلاثَ مرَّاتٍ۔(صحیح ابوداؤد: 2083)
ترجمہ: جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔یہ بات آپ ﷺ نے تین بار کہی ۔
پانچویں بات : نکاح ہوتے وقت دو عادل گواہ کی بھی ضرورت ہے جو اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے ۔ 
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْہِدُوا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنکُمْ (الطلاق:2)
ترجمہ: پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یاتو قاعدہ کے ساتھ اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کردو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو۔ 
اس معنی کی کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے لیکں موقوفا صحیح ہے شیخ البانی نے حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت حسن سے موقوفا صحیح کہا ہے ۔ 
لا نکاحَ إلا بولیٍّ وشاہدَینِ(إرواء الغلیل:1858)
ترجمہ: ولی اور دو گواہ کے بغیر نکاح نہیں ہوگا۔ 
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ولی گواہ نہیں بن سکتا ۔ 
چھٹی بات : مذکورہ بالا کام ہوجانے کے بعد اب قاضی کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرکے خطبہ مسنونہ جسے خطبہ الحاجہ کہا جاتا ہے وہ پڑھیں ۔ یاد رہے خطبہ الحاجہ پڑھنا ضروری نہیں ہے اس کے بغیر بھی صرف ایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہوجائے گاتاہم اس کا پڑھنامستحب ہے ۔ خطبہ الحاجہ کے الفاظ بتحقیق شیخ البانی جو نبی ﷺ سے منقول ہیں وہ اس طرح ہیں : 
إن الحمد للہ نحمدہ ، و نستعینہ ، ونستغفرہ ، ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ، ومن سیئات أعمالنا .من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ، ومن یضلل فلا ہادی لہ ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ .وأ شہد أ ن محمداً عبدُہ و رسولُہ .یَاأَیہا الذین آ مَنُوا اتقُوا اللہَ حَق تُقَا تہ ولاتموتن إلا وأنتم مُسلمُون,یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَتَسَاءَ لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیباً, یَا أ یہا الذین آ منوا اتقوا اللہ وقولوا قَو لاً سَدیداً یُصلح لَکُم أَ عما لکم وَ یَغفر لَکُم ذُ نُو بَکُم وَ مَن یُطع اللہ وَ رَسُولَہُ فَقَد فَازَ فَوزاً عَظیماً( أ ما بعد ) (خطبۃ الحاجۃ للالبانی)
ساتویں بات : لوگوں کی کثرت ہو توا ما بعد کے بعد خطبہ میں مذکور تینوں آیات کی مختصر تشریح کردی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے مگر خطبہ کے بعد تقریر وبیان کوضروری سمجھنا یا تقریر کرنے والے نکاح خواں کو بلانا تاکہ زوردار تقریر کرے سنت سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔ عہد رسول میں نکاح کے موقع پر تقریر کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، خطبہ میں اپنی جانب سے قرآنی آیات اور احادیث کا پڑھنا بھی نکاح خواں کیطرف سے زیادتی ہے جس کا ثبوت نہیں ہے۔ 
آٹھویں بات : خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد امام ؍ قاضی صاحب(جنہیں لڑکی کے ولی نے اپنا وکیل بنایا ہے) کو چاہئے کہ وہ لڑکے سے کہے کہ میں اپنی وکالت میں فلانہ بنت فلاں کا نکاح آپ سے کرتا ہوں کیا آپ کو قبول ہے ؟ تو لڑکا کہے کہ مجھے قبول ہے ۔ نکاح مکمل ہوگیا۔ ایجاب وقبول میں مہر کا ذکر ضروری نہیں ہے طے ہوجانا ہی کافی ہے۔ 
نویں بات : بعض جگہوں پر قاضی صاحب لڑکی سے بھی رضامندی لینے جاتے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ، لڑکی کی رضامندی اس کے ولی کو چاہئے جوکہ منگنی کے وقت ہی ہوچکی ہوتی ہے پھر لڑکی کی جانب سے اس کا ولی شادی کی رضامندی کا اظہار کرتا ہے ۔منگنی کے موقع سے چاہے تو لڑکا لڑکی کو دیکھ سکتا ہے سنت سے اس کی دلیل ملتی ہے ۔ 
دسویں بات : ہاں شروع میں نکاح کا فارم پر کیا گیا تھا اس پہ زوجین کے دستخط لے لئے جائیں ، لڑکی کے پاس اس کا ولی یا اس کا کوئی محرم جاکر دستخط کروائے ۔ 
ہر نکاح خواں ، ولی ، دلہا اور دلہن کو چاہئے کہ وہ نکاح کے ارکان وشروط کو جانے بلکہ ہر مسلمان کو جاننے کی ضرورت ہے۔
نکاح کے دوارکان ہیں ۔
(1زوجین کا وجود اور ان دونوں کا آپس میں شادی جائز ہونا یعنی شادی میں رضاعت ونسب ،عدت ،حمل وغیرہ کی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ 
(2ولی یا اس کے وکیل کی طرف سے ایجاب یعنی تعیین کے ساتھ فلانہ کی شادی کرانے کا ذکر اور لڑکے کی جانب سے قبول کرناحاصل ہو ۔ 
اورنکاح کی دو شرطیں بھی ہیں ۔ 
ایک ولی کی اجازت ورضامندی اور دوسری دو عادل گواہ کی موجود گی ہیں اور نکاح کا اعلان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ دوارکان اور دو شرطیں پائی گئیں تو نکاح درست ہے ۔ 
نکاح کے بعد اجتماعی صورت میں دعا کرنا ثابت نہیں ہے بلکہ انفرادی طور پر دلہا اور دلہن کو مبارکبادی دینا چاہئے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو اس کی شادی کی مبارک باد دیتے تو فرماتے بارک اللہ لک وبارک علیک وجمع بینکما فی خیر اللہ تمہیں برکت دے ، تم پر اپنی برکت فرمائے اور تم دونوں کو خیر کے ساتھ اکٹھا رکھے۔(صحیح أبی داود:2130)
اور دلہا کو چاہئے کہ لڑکی کی رخصتی کے بعد ولیمہ کرے ۔ولیمہ سے متعلق عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی شادی کی حدیث گزری جس میں نبی ? نے کہا کہ ولیمہ کرو خواہ ایک ہی بکری ہو۔ 
نکاح سے متعلق مزیدچند باتوں کی وضاحت 
(1نکاح پڑھانے کے لئے کسی دوسری جگہ سے عالم یا قاضی بلانے کی ضرورت نہیں ہے لڑکی کا ولی لڑکا سے کہے میں فلانہ بنت فلاں کی شادی آپ سے کرتا ہوں اور لڑکا کہیمیں قبول کرتا ہوں ۔ شادی ہوگئی۔ گاؤں میں عالم موجود ہو تو ان سے نکاح پڑھالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 
(2 نکاح کے وقت لڑکا یا لڑکی سے کلمہ پڑھا نا ، توبہ کرانا اور ایمان مجمل وایمان مفصل بیان کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے یہ دین میں نئی ایجاد ہے ۔ 
(3 عقد نکاح کے لئے عربی کلمات مثلا زوجت، نکحت، قبلت کے الفاظ کہنا ضروری قرار دینا غلط ہے کسی بھی زبان میں ایجاب وقبول ہوسکتا ہے ۔
(4 لازما تین دفعہ ایجاب وقبول کروانا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک مرتبہ بھی کافی ہے ۔ 
(5 نکاح کے بعد چھوہارا تقسیم کرنا رسول اللہ یا اصحاب رسول اللہ کی سنت نہیں ہے یہ محض رسم ہے اسے ہٹانا بہتر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اکثرجگہوں پر تنازع ہوتا ہے ۔ بیہقی کی روایت اس روایت کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے۔ : کان إذا زوَّج أو تزوَّج نثَر تمرًا. ( السلسلۃ الضعیفۃ:4198)
ترجمہ: جب نبی ﷺ شادی کرتے یا کراتے تو کھجور تقسیم کرتے ۔ 
(6 نکاح ہونے کے بعد آنگن یا صحن میں دلہا اور اس کے خواص کو طلب کرنا اور اجنبی لڑکیوں کاان سب سیہنسی مذاق ، چوری چماری، نازیبا کلام وحرکات ناجائز وحرام ہیاس کا گناہ وہاں موجود دیکھنے سننے اور مددکرنے والے تمام لوگوں کو ملے گا۔ 
(7 مہر نہ تو ارکان نکاح میں سے ہے اور نہ ہی شروط میں سے ،اگرنکاح کے وقت مہر طے نہیں ہوا تو بھی نکاح صحیح ہے لیکن نکاح ہوجانے سے مہرمثل واجب ہوجاتا ہے ۔ 
(8 مسجد میں نکاح کو سنت قرار دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ مسجد میں نکاح سے متعلق روایت ضعیف ہے ، نکاح مسجد، غیرمسجد کہیں بھی کرسکتے ہیں ۔ 
(9 صرف چار لوگوں کی موجود گی ولی ، لڑکا اور دوعادل گواہان سے شادی ہوجائے گی تاہم کچھ لوگ مزید جمع ہوجائیں تو اعلان نکاح ہوجائے گا مگر مروجہ بارات کا تصور اسلام میں نہیں ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔ 
(10 اوپر بیان کئے نکاح کے ارکان وشرائط پائے جائیں تو ٹیلی فون پر بھی نکاح درست ہے مگر لڑکی کو بھگاکر ایک دوسرے کے گلے میں ہار ڈال دینے یا انگوٹھی پہنا دینے یا کورٹ میں رجسٹریشن کرالینے یا پارک میں جھولہ چھاپ نکاح خواں سے نکاح پڑھوا لینے سے نکاح نہیں ہوگا جب تک کہ لڑکی کا ولی راضی نہ ہو۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad