تازہ ترین

پیر، 3 فروری، 2020

شاہین باغ: ہندوتو وادیوں کی غنڈہ گردی اکھاڑہ سمیتی، بجرنگ دل، گئو رکشا سمیتی کے شرپسندوں نے شاہین باغ خالی کرو، گولی مارو۔۔۔کو، وندے ماترم، اور جے شری رام کے نعرے لگائے، دھرنا ختم کرانے کی کوشش ناکام، احتجاج کو ۵۰ دن مکمل، مظاہرہ بدستور جاری

نئی دہلی۔ ۲؍فروری: (محمد علم اللہ) دہلی کے شاہین باغ علاقہ میں مسلح شخص کی فائرنگ کے ایک دن بعد اتوار کو حالات اس وقت کشیدہ ہوگئے جب کچھ ہندو تو تنظیموں جن میں بجرنگ اکھاڑا سمیتی، گئو رکشا، بجرنگ دل وغیرہ سے وابستہ افراد شاہین باغ میں مظاہرہ کررہی خواتین کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ شرپسند افراد شاہین باغ سے ۳۰۰ میٹر کی دوری پر شور شرابہ اور سڑک کو کھلوانے کے نام پر ہنگامہ کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ  فسادیوں میں سے زیادہ تر افراد فرید آباد، باغپت، بلبھ گڑھ کے تھے جن کا کہنا تھا سڑک خالی ہونی چاہئے اگر مظاہرین چاہیں تو رام لیلا میدان، جنتر منتر یا کہیں اور احتجاج کریں۔ مظاہرین’شاہین باغ خالی کرو، جے شری رام، گولی مارو۔۔۔ کو، اور وندے ماترم‘ کے نعرے لگا رہے تھے، پولس نے تقریباً ۵۲ افراد کو حراست میں لے لیا ہے، دہلی پولس کے سائوتھ رینج کے جوائنٹ پولس کمشنر شری واستو اور ڈی سی پی چمنے بسوال جائے وقوعہ پر موجود تھے۔ افسروں نے مظاہرین سے بات کرکے انہیں امن وامان قائم رکھنے کی اپیل کی۔ 

مظاہرہ میں شریک ریکھا دیوی نے کہاکہ ہم سڑک صاف چاہتے ہیں، اس سے ہمیں پریشانی ہورہی ہے، ہمارے بچے اسکول نہیں جاپارہے ہیں، کیوں کہ دھرنے پر بیٹھے لوگوں نے سڑکوں کو جام کردیا ہے۔ شاہین باغ کے پاس جسولہ کے رہنے والے دیپک پٹیل نے کہا کہ پولس کڑی بریکیڈ کے درمیان ہمیں دھرنے والی جگہ سے نہیں گزرنے دیتی ہے کیوں کہ وہاں ایک ماہ سے خواتین احتجاج کررہی ہیں، میں کسی طرح اس علاقے کو پار کرتا ہوں لیکن سنیچر کی واردات کے بعد سے وہاں چیکنگ ہورہی ہے ہمیں اپنا آئی ڈی کارڈ دکھائے بنا وہاں سے جانے نہیں دیاجاتا ہے۔ بتا دیں کہ کئی روز سے شاہین باغ کے مظاہرین کو مسلسل دھمکی آمیز فون اور ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے شاہین باغ خالی کرانے اور اس سے نمٹنے کی دھمکی دی جاری تھی، شدت پسند ہندوئوں نے کہا تھا کہ ہم ۲؍فروری کو احتجاجیوں پر حملہ بولیں گے اور بزور طاقت انھیں وہاں سے ہٹا دیں گے  ہندو سینا نامی ایک تنظیم نے باضابطہ ایک ویڈیو کے ذریعے اتوار کے روز شاہین باغ سے تمام شہری مخالف ترمیمی قانون (سی اے اے) مظاہرین کو ہٹانے کی دھمکی دی تھی۔ 

ہندو سینا نیاپنے ایک پریس ریلیز میں بھی کہا تھا کہ وہ 2 فروری اتوار کی صبح 11 بجے تمام ’’شاہین باغ جہادیوں‘‘ کو ختم کردے گی۔ ان کی پریس ریلیز کے بعد آج ہندو تو شدت پسند تنظیموں سے منسلک افراد کے ہجوم نے اتوار کی صبح  مقامی لوگوں اور مظاہرین کا ایک بڑا گروہ شاہین باغ دھرنے کے احتجاج کے مقام پر آنے کی کوشش کی جنہیں سریتا وہار میں پولس نے روک دیا۔ شاہین باغ خالی کروانے آئے مظاہرین اشتعال انگیز اور فرقہ پرستی پر مبنی نعرے لگا رہے تھے۔ جامعہ سور شاہین باغ میں حملے کے بعد  دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل نے سنیچر کی رات ہی دہلی پولیس کو سیکیورٹی بڑھانے کا حکم دے دیا تھا،جس کی وجہ سے کل رات سے ہی پولس کی نفری بڑھا دی گئی تھی اور بڑی تعداد میں سی آر پی ایف کے جوان تعینات تھے۔ دہلی پولیس نے صبح میں شاہین باغ احتجاج کے خلاف ماحول کشیدہ کرنے والے کچھ مظاہرین کو حراست میں لیا اور انہیں بسوں کے ذریعے دیگر جگہوں پرمنتقل کردیا، تاہم اس کے باوجود کچھ مظاہرین علاقے میں دیر گئے رات تک نعرے بازی کر تے دیکھے گئے۔شاہین باغ کے مظاہرہ کو سبوتاز کرنے اور انہیں وہاں سے ہٹانے کی کوشش کے بعد بڑی تعداد میں علاقے کے عوام شاہین باغ پہنچنا شروع ہوگئے تھے اتوار کی وجہ سے لاکھوں کی بھیڑ وہاں جمع تھی جن میں آس پاس کی ریاستوں کے افراد اور تنظیموں کے ذمہ داران بھی بلاتفریق مذہب وملت شامل تھے۔ 

ہندو سینا کی اپیل کے بعد سیٹو اور کسان سبھا کے اراکین بڑی تعداد میں شاہین باغ پہنچے تھے۔ جن میں اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے جنرل سکریٹری حنان ملا، سیٹو کے سندھو،وریندر گور، شکیل احمد، اور ماکپا کے ممبر پارلیمنٹ کے کے راگیش، سوم پرساد وغیرہ شامل تھے۔ آج صبح سے ہی شاہین باغ کے مظاہرین کسی بھی ناگہانی حادثہ سے نمٹنے کے لئے ہیومن چین بنا کر گھیرا بندی کئے ہوئے تھے۔ پولس کے ساتھ ساتھ شاہین باغ کے احتجاج میں شامل رضاکار ان بھی چوکنا تھے اور احتجاج میں شامل ہونے والے افراد پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور ہر آنے جانے والے افراد کی چیکنگ کررہے تھے کہ کہیں ان کے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ تو نہیں ہے۔ ادھر اس احتجاج کے خلاف آواز اُٹھانے والے افراد پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج میں شامل مظاہرین نے کہا کہ ہم صرف ایک سڑک کو روکے ہوئے ہیں پھر بھی ہمارے خلاف شدت پسند سازشیں کررہے ہیں جبکہ ہماری جانب سے نہ تو اسکولی بسوں اور نہ ہی ایمبولینس کو روکا جارہا ہے بلکہ ہمارے رضاکاران کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں۔ احتجاج میں شامل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم اجیت کمار نے کہا کہ کچھ لوگ اسے بلا وجہ مذہبی رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

 جس میں وہ کامیاب نہیں ہوں گے یہ معاملہ ہندو مسلم ہے ہی نہیں اس میں تمام مذاہب کے افراد شریک ہیں اور اس سے تمام ہندوستانیوں کو نقصان پہنچنے والا ہے لیکن کچھ لوگ سیاسی روٹی سیکنے اور اپنا اقتدار دیر پا رکھنے کیلیے ہندو بنام مسلم بناکر آپسی خلیج کو گہرا کرناچاہتے ہیں۔ شاہین باغ میں احتجاج میں شامل ابھینو مشرا نے کہاکہ ہم پنجاب  سے یہاں آئے ہیں اور گزشتہ کئی روز سے مسلسل اپنے دوستوں کے ساتھ آرہے ہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس ہورہا ہے کہ کچھ لوگ مظاہرہ میں شریک خواتین و بچوں کے تعلق سے بھونڈے الزامات عائد کررہے ہیں تاکہ ان کی ہمت ٹوٹ جائے اور وہ گھروں کو لوٹ جائیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ہم سب مل جل کر اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک حکومت اس قانون کو واپس نہیں لے لیتی ہے۔ ادھر آج کے واقعے نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا کہ مظاہرین کے پائے استقامت میں کمی نہیں آئی ہے اور پے درپے متعدد حادثوں نیز دہشت گردانہ حملوں کے باوجود بھی مظاہرین کے عزم وہمت میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ وہ پہلے سے زیادہ تازہ دم ہوکر سی اے اے کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔آج دیگر ایام کے مقابلے شاہین باغ احتجاج اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لاکھوں کی بھیڑ تھی جوآزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کی واپسی کا مطالبہ کررہی تھی۔ آج مظاہرین کے ہر پانچ افراد میں سے چار کے ہاتھوں میں ترنگا تھا اور جو حب الوطنی کے جذبے سے سر شار نعرے لگا رہے تھے اور گیت گارہے تھے۔ خبر لکھے جانے تک شاہین باغ اور جامعہ علاقے میں حالات پرامن تھے جبکہ پولس کی بڑی تعداد چپے چپے پر تعینات تھی وہیں دونوں جگہ شاہین باغ سور جامعہ کے اسٹین سے افواہوں سے بچنے کی اپیل کی جارہی تھی۔  شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ احتجاج کا آج پچاسواں دن جبکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج کا ۵۲ دن تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad