تازہ ترین

پیر، 24 فروری، 2020

نفرت آمیز سِیاست کا خاتِمہ ہونا چاہئیے !

محمد قاسم ٹانڈؔوی
کسی بھی فلّاحی مَملکت کی شِناخت اس میں آباد عوام کی ترقی، خوشحالی اور کامیابی سے ہوتی ہے، اور اس کام کی ذمہ داری از اَوّل تا آخِر حکومت کے کاندھوں پر عائد ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنی رِعایا اور ماتحتوں کو خوشحال زِندگی گزر بسر کرنے اور خود کی زیرِ اِنتظام مملکت میں پائے جانے والے مالی وسائل سے مکمل طور پر بہرہ ور ہونے اور فائدہ اٹھانے کے مواقع کس طرح فراہم کراتی ہے؟جمہوری ملک میں جمہوری انداز پر منتخب ہونے والی حکومتوں کو اِستِحکام اپنے ملک کی تمام آئینی شِقوں کی حفاظت اور جمہوری دستور کی بھرپور رعایت کرنے اور اسی کے مطابق عوام کے حق میں نفع بخش اسکیمیں تیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے، بصورتِ دیگر جو حکومتیں رائج اور طے شدہ آئین سے اِنحراف برتتی ہیں یا طاقت و اقتدار کے نشہ میں مغرور و مدہوش ہو کر اور گذِشتہ حکومتوں سے برتری و تفوّق کا راستہ اپنا کر حقیقت میں عوامی حُقوق کا اِستِحصال اور آئینی دستور پر شب خون مارنے کی ناکام جسارت کرتی ہیں تو ایسی حکومتوں کو بہت جلد زوال پذیر ہوتے دیکھا گیا ہے۔ 

یہ ایک اَٹل اور تاریخی حقیقت ہے کہ حکمراں طبقات میں سے جس جس نے بھی اپنے دورِ حکومت میں عوام کو نیچا دکھانے یا ان کے جائز حقوق اور آئینی مطالبات کو کُچلنے کے لئے اسباب و وسائل کی اِستِحصالی دوڑ میں خود کو پیش پیش کیا، عوام نے ان کو ایسا سبق سِکھایا کہ آج وہ سب حکومت و اقتدار میں واپس آنے کو ترس رہے ہیں، عوام کا یہ اِستحصال چاہے رِیاستی سطح پر برتا گیا ہو یا مرکزی حکومت میں شامل ہوکر ملکی پیمانے پر آزمایا گیا ہو ہر دو طرح کی مثالیں تاریخ کے دامن میں مرقوم ہیں، مغربی بنگال میں سی پی ایم، یوپی میں کانگریس و بی ایس پی اور مرکز سے کانگریس کی بےدخلی؛ اس کا واضح ثبوت ہیں۔اور پھر ہمارے ملک ہندوستان کی اصل خوبی اور خاصِیّت ہی یہ ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اسے نہ صرف قدر و منزِلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ یہاں کا مُروَّج جمہوری دستور اور ہرقِسم کی تفریق سے پاک آئین کی مثالیں آج بھی وہاں کی عدالتی کاروائی میں دورانِ مقدمات پیش کی جاتی ہیں اور ہمارے آئین کی روح کو سیکولراِزم پر مبنی قرار دیا جاتا ہے۔

آر ایس ایس؛ جس کی بِناء مذہبی تفریق، وطنی عصبیت اور علاقائی اِنتہا پسندی کو فروغ دینے اور ایک متحدہ سماج کو توڑ کر قومی ملکی پیمانے پر اختلاف و انتشار برپا کرنے پر رکھی گئ ہے، جس کی پوری تاریخ ہی قتل و غارت گری اور بےگناہوں کے خون سے بھری ہوئی ہے وہ اور اس کے تیار کردہ زعفرانی سوچ سے ہم آہنگ افراد آج بھی ملک کی پُرامن آب و ہوا اور خوشگوار ماحول میں سانس لیتے عوام کا جینا دوبھر کئے ہوئے ہیں، جن کی اوّلین کوشش اور چھپے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد "فِرقہ پرستی، اِنتِہا پسندی اور کسی بھی طرح کا تشدُّد" بھڑکا کر امن و امان کو سبوتاژ کرنا اور ملک کو فِرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونکنا ہے جبکہ یہ بات بار بار کہی جاتی ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ فرقہ پرستی خواہ مذہبی ہو یا عِلاقائی، مسلکی ہو یا لِسانی اس کے عمل دخل کو ملکی سلامتی اور قومی ملی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور عالمی سطح پر اپنی شناخت برقرار رکھنے کے واسطے سمّ قاتِل تصور کیا گیا ہے۔ مگر نہ جانے کیوں حکمراں جماعت اور اس کی طرف سے پیش کی جانے والی ہر رائے پر لبّیک کہنے والوں کے ذہن و دماغ سے یہ بات محو ہو گئ ہے کہ اسی فرقہ پرستی کو آڑ بنا کر ملک کے تانے بانے کو منتشر کرنے اور ملک کو ترقی کی دوڑ سے باہر کر دینے کا کھیل کھیلنے میں لگے ہیں؟

فِرقہ پرستی اور قومی تعصّب اکثریتی فرقہ کی طرف سے برتا جائے یا اقلیتی طبقہ کے رہنماؤں کی طرف سے بیانی طور پر سامنے آئے؛ بہر صورت قابلِ مذمت اور قابلِ رَدّ امر ہے، ایک جمہوری مملکت یا اس کے زیرِ انتظام آنے والی فلاحی ریاستوں میں یہ سب تخریبی سرگرمیاں اپنے اپنے مقاصد میں مُنہمِک لوگوں کو زیب نہیں دیتیں اور ان پھر ان سرگرمیوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر جو شبیہ ملک کے تئیں قائم ہوتی ہے اس کا انجام ذِلّت و رُسوائی کے سوا کسی اور صورت سامنے نہیں آتا، اس لئے تشدد پر مبنی جاری ہونے والے بیانات اور تخریب پسند عناصر کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا اور ان کو ان کی ناپاک کوششوں میں کامیاب ہونے سے روکنا ضروری ہو جاتا ہے، تاکہ ملک اور اس کے پُرامن شہری مستقبل میں کسی بڑے حادثے سے دوچار نہ ہوں۔

لیکن ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج یہ سب چیزیں حکمراں جماعت بی جے پی اور اس کے ہمنوا لیڈران کےلئے اپنی سیاست کو برقرار رکھنے اور مُفسِدانہ خیال کے حامل اشخاص کےلئے مُرغّن غِذا بن چکی ہیں، جو کہ آئے دِن آگ و خون سے کھیلنے اور بےگناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے جیسے بھڑکاؤ بیانات سے بازارِسیاست کو گرمانے اور اپنے حواریوں کو تیار رہنے کی ہدایات جاری کرتے رہتے ہیں۔ جن میں سرِفہرست مرکزی وزیر گِری راج سنگھ، ممبر پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکر، یوپی کے وزیرِاعلی یوگی ادتیہ ناتھ، آتے ہیں ادھر سماج کو کچھ ایسے لوگوں سے بھی سامنا ہے جو قومی ملکی مفادات سے بیزار اپنے ہی فائدہ کو پیش نظر رکھ کر نازیبا الفاظ اور ناشائستہ گفتگو سے ماحول کو پراگندہ اور معاشرے میں کشمکش پیدا کرتے رہتے ہیں، مثلاً:

گورنر کیرالہ عارف محمد خاؔن، ایم آئ ایم سربراہ اویسی برادران اور انہیں کی پارٹی کے وارث پٹھان؛ یہ چند ایسے افراد ہیں جنہیں نہ تو اپنے عہدے اور مرتبہ کا لحاظ پاس ہے اور نہ ہی ملک کی ترقی، خوشحالی اور اس کی سالمیت کی فکر ہے۔ انہیں تو بس اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنا اور ہر موقع پر ہندو مسلم تفریق کو بڑھاوا دینا ہے، اب چاہے اس کےلئے سماج میں 'کرنٹ' چھوڑنا پڑے یا 'گولی' چلانی پڑے، یا ایک دوسرے کو 'غدّارِوطن' قرار دینے، قومی دھارے سے باہر کرنے اور دہشت گرد ثابت کرنے کےلئے جس حربے کا بھی استعمال کرنا پڑے، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا؟انہیں تو زہر میں بُجھے ہوئے تیروں کو اپنے ترکش سے نکال کر فضا میں چھوڑنا ہے چاہے ان کا شکار بوڑھا بنے یا کمسِن بچہ، ان کا شِکار مرد ہوں یا بےبس خواتین، انہیں کوئ سروکار نہیں انھوں نے اپنے مَن میں جو طے کر لیا ہے وہ یا پارٹی ہیڈکوارٹر سے انہیں جو ایجینڈا سونپ دیا گیا ہے انہیں اسی کو عملی جامہ پہنانا ہے، اب اس ایجنڈے کو لاگو کرنے کےلئے چاہے پہلے ٹی وی شو کا سہارا لے کر اس کو مشتَہر کرنا پڑے یا نفرت آمیز بیان بازی کا سہارا لے کر بِلاواسطہ عوام کو آپس میں لڑانا اور جان و مال کا نقصان کرانا ان کا شیوہ بن چکا ہے۔

آج کے ان مُتشَدِّد ذہن لیڈران کو یہ سمجھنا ہوگا اور طے کرنا ہوگا کہ ان سب باتوں سے ملک یا عوام کا بھلا ہونے والا نہیں، اگر لیڈران واقعی ملک و قوم کے خیرخواہ ہیں اور انہیں ملک کی ترقی خوشحالی، اس کی سالمیت اور جمہوری بنیادوں کی آبیاری و حفاظت کرنی ہے تو وہ اوّل مرحلے میں خون خرابہ، قتل و غارت گری اور ملک کے پُر امن حالات کو اپنی بےتُکی بیان بازی، فرقہ وارانہ سوچ سے فضا کو مسموم کرنا بند کریں اور وہاں سے سیاست کریں جہاں سے ہرسِمت نوجوانوں کو روزگار مہیا ہوتا ہو، قرضے کے بوجھ تلے کسانوں کو معقول آمدنی اور کمزوروں کو بآسانی آگے بڑھنے کے مواقع فراہم ہوتے ہوں۔ یہی سیاست خود ان کے حق میں اور عوام کے حق میں بہتر و مفید ہوگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad