تازہ ترین

پیر، 18 مئی، 2020

ذمہ دارانِ مدارس بھی نوشتۂ دیوار پڑھیں(1)

محمد قاسم ٹانڈؔوی
حالات حاضرہ کی سنگینی کا نہ صرف ہر شخص کو سامنا ہے بلکہ ہر شخص کے فہم و ادراک میں یہ بات پختہ اور یقینی ہو چکی ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے پھیلنے والا "کووڈ=19" نامی وائرس ایک ایسا متعدی اور مہلک مرض کی شکل میں سامنے آیا ہے جس نے ایک طرف تو خوشحال و پُرسکون لوگوں کی مصروفیت پر یکا یک بریک لگا کر زندگی کے ہرشعبہ کو متاثر و بےمعنی کرکے رکھ دیا ہے جس کی واہی تباہی سے نہ تو صنعت و حرفت کے کارخانے، سرکاری و غیر سرکاری ادارے محفوظ رہ سکے اور نہ ہی غریب مزدور کے کھانے کمانے کے ذرائع اور اس کی آمدنی کے راستے جاری و ساری رہ سکے۔ بلکہ شہر در شہر مقیم؛ اس مزدور طبقہ کی معاشی حالت کی طرف اور طویل مدتی مرحلے وار سرکاری لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں ہجرت پر مجبور ان غریب مزدور اور راہ چلتے بےکس و بےسہارا افراد کی دوران سفر سامنے آنے والی بھیانک تصویروں کو اگر بطور عبرت و نصیحت دیکھا جائے تو یہ بات بہت جلد بآسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہےکہ: "نہ تو قدرت ابھی اپنی مخلوق سے راضی ہے اور نہ ہی اس کی طرف سے فی الحال کوئی راحت و سکون کی گھڑی کے آثار نمایاں ہیں" باقی حالات کی درستگی کےلئے ہم یہی دعا کر سکتے ہیں "أللہم ارفَع عنا البلاء والوباء، أللہم سہل لنا فی امرنا، أللہم عافنا فی عاقبتنا"۔

دوسری طرف بھیانک و خطرناک انداز سے پھیلنے والا یہ وائرس عام لوگوں کی زندگی میں اور بھی دیگر بہت ساری آزمائشوں اور پریشانیوں کا سبب بنا ہے۔ جیسا کہ برابر اس بات کا مشاہدہ ہو رہا ہے کہ یومیہ مزدوری اور آمدنی کی اہلیت رکھنے والے لوگوں کی آمدنی ختم ہونے سے گھریلو ٹینشن میں اضافہ ہوا ہے، چھوٹے درجے کے کاروباری لوگ جن کے باہمی لین دین کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ کاروبار نہ رہنے سے انہیں مالی فراہمی کی دقت در پیش ہے اور کھیتی کسانی کے پیشے سے منسلک لوگوں کی بروقت کھاد اور بیج کی عدم دستیابی نے مزید مشکلوں میں اضافہ کر دیا ہے، اسی طرح مختلف میدانوں میں ملازت و نوکری کے پیشہ سے وابستہ افراد بھی اس عالمگیر وائرس کی تباہ کاریوں کے شکار ہیں، گویا اس وائرس کے حملے سے شدید طور پر ہرشعبہ کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں مدارس و مکاتب کے خدمت گذار حضرات بھی اس وائرس کی واہی تباہی سے محفوظ و مامون نہ رہ سکے بلکہ ان کو دوہرے حالات سے سامنا کرنا پڑا ہے، ایک تو سب کے ساتھ اسی قدرتی آفت کی مار، دوسرے ایک اور اہم انسانی مار ہے، جسے آج کے اس مضمون کا مرکز بنا کر تحریر کو قلم بند کرنے کی نوبت آئی ہے اور وہ اہم سبب بلکہ انسانی ظلم و ستم انتہائی افسوسناک اور حیران کن پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ ہوتا کیا ہے؟

ملک میں 'لاک ڈاؤن' کا سرکاری اعلان اور وقفہ وقفہ سے ہونے والی توسیع کے بعد سے مختلف علاقوں سے مسلسل یہ خبر موصول ہوتی ہیں کہ ذمہ داران مدارس و مکاتب نے بھی 'لاک ڈاؤن' کے چلتے اپنے یہاں کے ملازمین و مدرسین کو مشغولیات سے فارغ کر دیا ہے مگر ان کی یہ فراغت ان کو مزید مصیبت و پریشانی میں مبتلا کر دینے والے قدم پر مبنی ہے، بایں طور یا تو انہیں اپنے یہاں سے ڈھائی تین مہینے کےلئے مستعفی کر دیا ہے یا ان کو ان ایام کی تنخواہ دینے سے منع کر دیا ہے یا آگے کی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے طور پر انتظام کرنے کو بول دیا ہے۔ ایسی شکایات یوپی، بہار کے ہرعلاقے اور خطے سے موصول ہوئی، جن کا سلسلہ تا حال جاری ہے، اور مذکورہ دعووں کی صداقت کےلئے اتنا ہی کافی ہے کہ آغاز رمضان پر مولانا محمود مدنی صاحب (جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء ہند) اور اب مولانا ولی رحمانی صاحب (آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) جیسے حضرات کو اہل مدارس سے اس سلسلے میں اپیل کرنے کی ضرورت پیش آئی، جنہوں نے اپنے وضاحتی بیانات اور اپیلیں جاری کر اہل مدارس و مکاتب کو سخت آفت و ناگہانی کے وقت میں ان کے اس نامناسب قدم سے باز رہنے اور اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، چنانچہ ملت کی ان دو مقتدر شخصیات کا اس طرح اعلان اور اپیل کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ان حضرات کے سامنے معاملہ کو پیش کرنے کوئی نہ کوئی ضرور حاضر ہوا ہوگا؛ تبھی تو انہوں نے ذمہ داران مدارس کو متنبہ اور پابند کیا ہے کہ وہ ایسا ہرگز نہ کریں؟ (ہاں اس حساس مسئلے کے تئیں جن پختہ عزائم اور سخت انداز میں وارننگ ان دو حضرات کی طرف سے آنی چاہیے تھی وہ نہ آ سکی، اس موقع پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ حضرات صورت حال کی جانچ پڑتال کرتے اور جو بھی اس سلسلے میں خطاوار پایا جاتا ایسے تمام مدارس و مکاتب کے ذمہ داروں کو سزا سناتے اور یہ اعلان کرتے کہ جس مدرسہ کے استاد کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا ہے اس کی تصدیق و تائید کالعدم کر دی گئی ہے اور بغرض چندہ کوئی بھی تصدیق آئندہ انہیں جاری نہیں کی جائے گی؛ ان دونوں حضرات سے یہ شکایت رہےگی)

الغرض جن ذمہ داران مدراس نے بھی ایسا کیا ہے، تو دراصل انہوں نے اپنے اس اقدام سے دین کو مزید نقصان پہنچانے، خدام دین کے ساتھ انتہائی توہین و تحقیر آمیز معاملہ کرکے اپنی کم ظرفی، کم علمی اور موجودہ حالات کی سنگینی سے اپنی لاشعوری کا ثبوت دیا ہے، اسی لئے ہم نے اوپر کہا ہےکہ:"موجودہ حالات میں مدارس کے اساتذہ و ملازمین کو دوہری پریشانی کا سامنا ہے، جو ان کےلئے یقیناً انتہائی تکلیف دہ صورتحال کی عکاسی و ترجمانی کرنے والا اور صبر آزما وقت ہے"۔یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ اس تحریر کو بنیاد بنا کر کسی بھی صورت مجھے مدارس مخالف نہ سمجھا جائے، بلکہ میں مدارس و مکاتب کے ان ذمہ داروں کی روش اور اساتذۂ و ملازمین پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑنے والے مہتمم و نظماء و صدور کے خلاف ہوں جو خود کو "وقت کا خدا" تصور کئے قوم و ملت کے مال کو ڈکارنے میں مست و ملنگ ہیں، جو خود کے یہاں بڑے سے بڑے عالم و فاضل اور مفتی و قاضی کو بھی اپنے آگے ہیچ سمجھتے ہوئے دین کی تنزلی اور اس کا بیڑا غرق کرنے میں لگے ہیں، بظاہر دیکھنے میں تو ان کی شکل و صورت کسی نورانی مخلوق سے کم نہیں دکھتی، مگر اساتذہ و ملازمین کو پورے سال ذہنی کرب میں مبتلا رکھنے اور مہمان رسول (ﷺ) جن کے نام اور تعداد پر بزعم خود پوری دنیا میں یہ اس کارخیر کو انجام دینا کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، کسی ظالم و جابر حاکم اور تشدد پسند سربراہ سے کم نہیں ہوتے۔ ان کے اسی رویہ، بداخلاقی اور کم علمی و کم فہمی کی بنیاد پر نہ جانے کتنے فضلاء مدارس اور ماہرین علم و فن کی استعداد چوپٹ ہو کر نقصان کی دہلیز سے جا لگیں اور زمانۂ طالب علمی میں دیکھے جانے والے سنہری خواب ان کے تعلیم و تدریس کا باقاعدہ آغاز ہونے سے قبل ہی آئے دن چکنا چور اور ملیا میٹ ہو رہے ہیں، اس لئے کہ ذمہ داران مدارس کے فساد نیت اور شوخ مزاجی کی بدولت ہی کامل علم و فن کی دولت سے سرفراز یہ طبقۂ علماء و فضلاء مجبوراً یا تو منصب امامت کو ترجیح دینے پر آمادہ ہے یا پھر ان حضرات کے رویوں سے پریشان و تنگ ہو کر کسی کاروباری لائن سے خود کو وابستہ کرنے میں عافیت و خوشحالی محسوس کر رہا ہے۔

 لیکن ان ظالم و جابر قسم کے مہتمم کو اس بات کا چنداں بھی احساس و ادراک نہیں کہ ہماری ان حرکتوں سے عاجز ہو کر یہ استعداد و صلاحیت کے مالک اور دین متین کے محافظ اگر اسی طرح مدارس و مکاتب کی طرف رخ کرنے کے بجائے دیگر لائن اختیار کرتے چلے گئے تو دینی تعلیم کی نشر و اشاعت، احیاء سنت کا فروغ اور سب سے بڑھ کر قیام مدارس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یعنی باطل طاقتوں سے پنجہ آزمائی اور فتنہ فساد پھیلانے والوں سے لوہا لینے والے جید علماء کرام، ماہر مفتیان عظام اور مبلغین کہاں سے امت کو میسر کرائے جائیں گے؟ کیوں کہ خود کی استعداد و صلاحیت کا عالم یہ ہےکہ نہ تو دامن اتنی علمی لیاقت و استعداد سے بھرے ہیں کہ وقتا فوقتا ظاہر ہونے والے فتنوں کی بروقت سرکوبی کر سکیں اور نہ ہی ایسے ماہر افراد کی اہمیت و افادیت ان کی نظروں میں ہے؟ بلکہ مشاہدہ تو یہاں تک گواہی پیش کرتا ہے کہ ہر علاقے اور خطے میں قائم مدارس و مکاتب کے پھیلے جال کے سربراہ اور ناظم و مہتمم ایسے کم علم و کم فہم، ناتجربہ کار اور تحریر و تقریر سے یکسر نابلد لوگ ہیں جن کو ہمارے بڑے اور قومی مدارس میں جاری نہ تو اس کے نصاب تعلیم کی وجہ تسمیہ کا علم ہے اور نہ اس میں شامل کتب سے کامل طور پر واقفیت ہے، اور تو اور قیام مدارس کے تعلق سے جو زریں اصول ہشتگانہ مرتب ہیں ان کی ہوا بھی ان کے کانوں کو لگی ہوئی نہیں ہے؟

 ان کی علمی قابلیت کا حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کو "مَدرسہ اور دستْخَط" کا صحیح تلفظ تک نہیں آتا اور بوقت ادائیگی "مُدرسہ اور دستَخَط" استعمال کرتے سنے جاتے ہیں، اب بھلا ان سے کوئی کیا امید اور توقع کر سکتا ہے اور کیا یہ اپنے خدام و ملازمین کے ہمدرد و غم خوار ہو سکتے ہیں؟ بس حکمرانی کا چابک ہاتھ میں لے لیا ہے جس سے یہ کم ظرف و کم نظر اور خسیس طبع لوگ ہر ایک کو ہانکنے اور چلتا کرنے کا کام لے رہے ہیں اور اپنی ماتحتی میں کام کرنے والوں پر ظلم و ناانصافی سے کام لینے پر مسلط ہیں، اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے: علم کی دولت اور فکر و فن کی اصلی روشنی کے پاس سے ان کا گزر نہ ہونا، اس لئے ہر وہ ظلم و ستم کی طرف سے آنکھیں موند لیتے ہیں، اب ایسے میں کیا بار بار حالات کا رونا رویا جائے اور کیوں گلے شکوں پر اپنے تآثرات قلمبند کرکے اپنے ساتھ دوسروں کا قیمتی وقت بھی ضائع کیا جائے؟ مگر جب بات آتی ہے خادمین قرآن و حدیث پر معمور حضرات پر ہونے والے ظلم و ستم اور جبر و ناانصافی کی تو پھر کچھ کہے اور لکھے بغیر طبیعت کو قرار نہیں آتا اور اس وقت ذمہ داری نبھانے پر ضمیر کچوکے مارنے لگتا ہے۔

 اس لئے ہم نے اوپر کہا کہ ہم نہ تو مدراس و مکاتب کے مخالف ہیں اور نہ ہی تمام مدراس و مکاتب کے ذمہ داروں سے بدظن اور شکوہ کناں، بس یہ شکایت و اشکال ان ہی سے ہے جن کا ضمیر مردہ اور دل پتھر کی مانند سخت ہو گیا ہے، جو کسی بھی ظلم و زیادتی کو اس کے محمل پر رکھنا جانتے ہی نہیں۔ ورنہ تو قارئین اخبار کو یاد ہوگا کہ ہم نے دوسرے 'لاک ڈاؤن' کے اعلان کے معاً بعد (20/اپریل کو) ہی ایک طویل اور مفصل مضمون بعنوان: "معاشرے کے اصل محسنین بھی پیش خاطر رہیں" قلم بند کیا تھا، اس میں ہم نے عوام الناس بالخصوص صاحب ثروت، اہل خیر معاونینِ مدارس و مکاتب کے روبرو اپنی ناقص رائے رکھتے ہوئے ان کی توجہ اس اہم امر کی جانب مبذول کراتے ہوئے لکھا تھا:"یہ بات ہمارے علم میں ہر وقت رہنی چاہیے کہ ان مدارس و مکاتب کے بےلوث و بےغرض خدام اور خودداری و غیرت مندی کے مجسم نمونے حضرات علماء کرام ہی ہمارے معاشرے کی صلاح و فلاح کے ضامن اور تعمیر و ترقی کے اصل محسنین ہیں، جہاں یہ سال بھر نو نہالان ملت کو زیور تعلیم سے آراستہ اور اخلاق حسنہ سے مزین کرنے میں رات و دن ہمہ تن مشغول و مصروف رہتے ہیں، وہیں ان کی آمدنی کے ذرائع دراصل اسی ماہ رمضان المبارک کی آمد پر موقوف ہیں،

 جس میں قوم و ملت کے یہ حقیقی علمبردار، غازئی ملت، رہبر ملک و قوم اور "قال اللہ و قال الرسول" کی پُرکیف صداؤں سے ماحول اور معاشرے کو معطر زار بناتے ہیں اور روزے کی حالت میں در بدر اور ایک شہر سے دوسرے شہر کی خاک چھان کر سماج کے امراء اور مالداروں کے گھر کے چکر لگا کر زکوٰۃ کی وصولیابی کرکے ایک تو مالداروں پر احسان عظیم کرتے ہیں، دوسرے دین و ملت کی بجا طور پر خدمت بجا لانے کےلئے سال بھر کے تعلیمی اور تعمیری اخراجات کا کسی حد تک بندو بست ہو جائے، اسی فکر میں پریشان و سرگرداں اور محنت و جفاکشی کرتے ہیں، تاکہ مابعد رمضان اپنے مشغلہ میں مکمل تندہی کے ساتھ منہمک و مصروف ہو سکیں۔لیکن جیسا کہ سب ہی کو معلوم ہے کہ امسال 'لاک ڈاؤن' کی وجہ سے ہر شئ اپنی جگہ ساکت اور ہر شخص اپنی جگہ مقید و قیام پذیر ہے اس لئے صاحب استطاعت حضرات اور توفیق خداوندی سے نوازے گئے اہل ثروت اشخاص کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ "معاشرے کے اصل محسنین" یعنی مدارس و مکاتب سے وابستہ حضرات کو "پیش خاطر رکھیں" یعنی ادائیگئی زکوٰۃ اور تقسیم مال کے وقت ان کے حصص ان تک پہنچانے کی کوشش کریں"۔

یہ ہمارا ایک "اپیلی مضمون" تھا، جس میں اس مقصد کو ظاہر و نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ رمضان المبارک کے موقع پر مدارس و مکاتب کو بڑی مقدار میں جو مال کی حصولیابی بشکل زکوٰۃ کرائی جاتی ہے اس سال 'لاک ڈاؤن کے سبب کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آمدنی کم یا بالکل ختم ہو جائے؟ جس کی وجہ سے آئندہ سال تعلیم و تربیت کے نظام کو برقرار اور ضروری تعمیرات کو پورا کرنا اہل مدارس کےلئے مشکل ہو جائے اور حالات کے معمول پر آنے تک ان امور پر بندش لگانے کی نوبت نہ آجائے یا ان قومی اداروں سے کسی قسم کے منفی اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں؟ دوسرے وہ خدشات بھی پیش نظر تھے جو اس مضمون کو رقم کرنے کا سب بنے ہیں؛ کہ اساتذہ و ملازمین کے ساتھ مصیبت و پریشانی کی اس گھڑی میں کہیں دیگر ناگفتہ بہ حالات پیش نہ آجائیں؟ یہ مقصد تھا مضمون بالا کو ترتیب دینے کا۔(جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad