تازہ ترین

بدھ، 20 مئی، 2020

ترکی ڈرامہ ارطغرل ۔ ایک انقلاب کا اشارہ

ڈاکٹر علیم خان فلکی صد ر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
ترکی کے ڈرامے ارطغرل جس کو اردو میں غازی ارطغرل یا ارطغول کہا جاتا ہے، اس وقت ساری دنیا کا موضوع بنا ہوا ہے۔ امریکہ میں اسے ''بے آواز ایٹم بمSilent atomic bomb'' کہا جارہا ہے۔ مصر اور سعودی عرب میں اسے Banned کردیا گیاہے، کئی علما اس کو مسلمانوں کی شاندار تاریخ کا ایک سبق کہہ رہے ہیں تو کچھ علما اس کا دیکھنا ناجائز اور حرام کہہ رہے ہیں۔ لیکن عوام کا یہ حال ہے کہ Netflix & Youtubeپر اس سیرئیل نے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے بھی تمام TRP Records توڑ دیئے ہیں۔ گھر گھر مرد اور خواتین ہی نہیں بچہ بچہ اس کا دیوانہ ہوچکا ہے۔ 150 قسطوں پر مشتمل یہ سیرئیل تاریخی، ادبی اور عہدِ حاضر کی تمام فنّی مہارتوں سے پُر ہے ۔اس سیرئیل کو کئی اعتبار سے ایک انقلابی Turning point کہا جاسکتا ہے۔ پہلے ہم اس پر ہونے والے چند اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔

سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے اور سارے واقعات Dramatised ہیں۔ یہ بالکل صحیح تجزیہ ہے،ارطغرل کا کردار حقیقی ہے لیکن واقعات کو ڈراماٹائز کیا گیا ہے، لیکن جتنے کردار ہیںسارے کے سارے آج کی دنیا کے چلتے پھرتے کردار ہیں،سچے ہیںاور آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو امت مسلمہ کی ذلّت و رسوائی کا سبب ہیں۔ اس سیرئیل کو غور سے دیکھئے اور اپنے موجودہ حالات پر نظر ڈالیئے۔ کیا Ural اور Kortuglu جیسے غدّار لیڈر بننے اور Power حاصل کرنے کے لئے دشمنوں سے ہاتھ ملا کر اپنے ہی بھائیوں کو نقصان نہیں پہنچاتے؟کیا آج عزیز جیسے بےوقوف حکمران موجود نہیں ہیں جن کو یہی خبرنہیں کہ انہی کے محل میں ان کی محبوبائیں اور وزیر مسلمانوں کے بھیس میں گُھسے ہوئے ہیں جو دراصل عیسائی Crusaders ہیں؟ کیاNoyan اور Alanchak جیسے منگولوں کی شکل میں اسلام دشمن کفّار آپ پر مسلّط نہیں ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں؟ کیا Aytulan, Gonchagul اور Colpan جیسی چالباز عورتیں ہمارے خاندانوں میں نہیں ہیں ؟ کیا Saaduddin Vazirکی طرح کے منافق ہمارے درمیان نہیں ہیں جو جس کا نمک کھاتے ہیں اسی کی پیٹھ میں چُھرا گھونپتے ہیں؟ کیا Bahadur Bey, Batulan, Alptakin اور Gumustakinجیسے مسلمان جاسوس ہمارے اپنے محلّوں میں نہیں ہیں جو چند سِکّوں کی خاطر جاسوسی کرتے ہیں اور اپنے ہی ہیروز کو پسپا کرتے؟ کیا Titus, Aeris, Cardinal اور Bazantinians جیسے عیسائی اور یہودی مسلمانوںکو لڑوانے کی عالمی سیاست نہیںکھیل رہے ہیں؟ کیا Dundar Bey جیسے سگے بھائی نہیں ہیں جو ایک لڑکی کی عاشقی کی نادانی میں خاندانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں؟

یہ سارے کردار سچے ہیں اور ہر جگہ موجود ہیں۔ نہیں ہے تو آج ایک ارطغرل نہیں ہے جو کبھی واقعی تھا۔ جس کی ہمت، ذہانت اور بہادری کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت ، سلطنتِ عثمانیہ وجود میں آئی۔ یہ سیرئیل دیکھتے ہوئے ہر دل میں ایک ارطغرل بننے کی تمنا پیدا ہوتی ہے۔ یہ فلم ان تمام غدّاروں سے مقابلہ کرنے کے لئے تلوار سے زیادہ عقل اور جوش سے پہلے ہوش استعمال کرنے کے گُر سکھاتی ہے۔ ارطغرل کا مقصدِ حیات مظلوم کی مدد اور عدل و انصاف کا قیام دکھایا گیا ہے، اسی مقصد کے لئے وہ اپنی جان کی پروا نہیں کرتا اور ہر دشمن کو مارگراتا ہے۔ عدل اور انصاف کا قیام ہی ایک اسلامی ریاست کو قائم کرسکتا ہے، یہی اس سیرئیل کا اصل میسیج ہے۔ 

دوسرا الزام اس سیرئیل پر یہ ہے کہ یہ محض ایک فلم ہے اور فلم دیکھنا اسلام میں حرام ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں انگریزوں کی ہر ایجاد پہلے حرام قرار دے دی جاتی ہے، پھر اسے حلال ہوتے ہوتے کئی سال لگ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم زمانے سے کئی سال بلکہ کئی سو سال پیچھے ہیں۔ جس طرح پرنٹنگ مشین حرام تھی، لاؤڈاسپیکر، گھڑیا ل دیکھ کر اذان دینا حرام تھے ، اسی طرح ہم نے حالیہ تاریخ میں بھی انٹرنیٹ، TV، فلم، موبائیل، تھیئٹر، سوشیل میڈیا، کیمرہ اور ویڈیووغیرہ ایجاد ہونے ساتھ ہی انہیں حرام قرار دے دیئے۔ ان فتوؤں پر مشتمل بے شمار کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ برسوں بعد یہ رفتہ رفتہ حلال ہونے لگے بھی تو اس حد تک کہ آپ مولاناؤں کی تقریریں سن سکتے ہیں۔

    غورفرمایئے۔ ہماری کم سے کم دو نسلیں علمی اور تہذیبی طور پر انٹرنیٹ کے دور میں اپنے شعور کو پہنچی ہیں۔ Tom & Jerry کے ساتھ بچپن گزرا ہے، مائیکل جیکسن کے ساتھ جوان ہوئے ہیں اور گوگل سے دین، History اور کلچر سیکھا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اکثریت کو وہی تاریخ معلوم ہے جو انہیں TV،یا انٹرنیٹ پر انگریزوں نے بتائی ہیں۔ جس میں ہمارے ہیروز کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا لیکن ان کے ہیروز کا تذکرہ اس طرح ہوتا ہے جیسے کہ وہ اصلی مہذب اور تاریخ ساز لوگ تھے۔ حالانکہ صدیوں پورے ایشیا، افریقہ اور آدھے یورپ پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ سائنس، ٹکنالوجی، حساب، فنِ تعمیر اور ادب میں صرف مسلمانوں ہی کی تہذیب تھی جس کا عشرِ عشیر بھی کسی اور قوم کے پاس نہیں تھا۔ آغازِ اسلام سے لے کر 19th سنچری تک مسلمانوں سے منگولوں ، عیسائیوں اور یہودیوں نے بے شمارخونی جنگیں لڑی ہیں، لیکن جیت آخر میں مسلمانوں ہی کی ہوئی ہے۔ لیکن جب کیمرے ، ویڈیو اور انٹرنیٹ ایجاد ہوئے تو ہم حلال حرام کی بحثوں میں اٹک گئے ۔ اسی طرح جس طرح بغداد میں جب ہلاکو خان داخل ہوا اس وقت ہم گدھے اور کوّے کا گوشت حلال ہے یا حرام کی بحثوں میں مشغول تھے۔ غیروں نے میڈیا، فلموں، ڈاکومینٹریز اور E-Libraries کے ذریعے انٹرنیٹ پر اتنا مواد بھر دیا کہ آج خود ہماری نسلیں اس کامپلیکس میں مبتلا ہیں کہ کیا کبھی مسلمانوں نے جنگوں اور مذہبی اختلافات پر بحثوں کے علاوہ بھی کچھ اور کیا ہے؟ کیونکہ پورے میڈیا میں مسلمانوں کا کردار طالبان، القاعدہ یا داعش ISIS کی طرح صرف خون بہانے والوں کا ہے۔ 

    تنی طویل تمہید کا حاصل یہ ہے کہ ارطغرل سیریز نے پہلی مرتبہ امریکہ اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ کسی نے آج تک تاریخ میں یہود ونصٰرٰی کا وہ مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا تھا جیسے اس سیریز میں پیش کیا گیا ہے۔ چونکہ تاریخ کے یہ سچے اوراق ہیں اس لئے امریکہ یا یورپ اسے جھٹلا نہیں سکتے۔مسلمان اگر ٹکنالوجی کو حرام نہ کئے ہوتے ، اور کئی اہم مضامین کی طرح Historyکو بھی مدرسوں کے نصاب سے نکالے نہ ہوتے تو ارطغرل جیسے کئی ہیروز کو اسکرین پر پیش کرکے ہم امریکہ و یورپ کو ہی نہیں ساری دنیا کو اسلامی تہذیب، طاقت اور کارناموں کا قائل کرچکے ہوتے۔ اس سیریز نے مثبت سوچ اور ہمت رکھنے والوں کو اور بالخصوص خلافِ اسلام بننے والی فلموں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ایک زبردست پیغام دیا ہے کہ اگر آپ خود آگے بڑھ کر حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی نے نہیں روکا، احتجاج اور فتوے بند کیجئے اور خود کچھ کردکھانے کا اعتماد پیدا کیجئے۔ جو لوگ شادیوں پر اور نفل عمروں پر اور کئی دوسری فضولیات پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیتے ہیں، اگر وہ امت کے لئے ایک تعمیری کام کریں ، اور یہ پیسہ مثبت کام میں لگائیں تو ہم ہندوستان سے ایسے کئی ارطغول بنا کر دکھا سکتے ہیں جو فاشسٹوں کے ہرجھوٹ کو بے نقاب کرسکتے ہیں۔ ہم صحیح اسلام کی تصویر کروڑوں گھروں میں پہنچا سکتے ہیں۔

اب جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تصویر، ویڈیو، فلم، عورت کا اسکرین پر آنا سب حرام ہیں، لہوالحدیث ہیں تو ان اعتراضات میں بھی کوئی دم نہیں ہے۔ اعتراض کرنے والوں میں 90%وہ لوگ ہیں جن کی نمازوں میں بھی جیبوں میں Samsung,اور IPhone ہوتے ہیں۔ ان کے گھر والوں کے ہاتھوں میں دن بھر موبائیل، IPad اور لیپ ٹاپ ہوتے ہیں۔ یہ سب دن میں کتنی بار تصویریں دیکھ رہے ہیں، عورتوں کو دیکھ رہے ہیں اور سوشیل میڈیا کے ذریعے کتنے لہوالحدیث کے مرتکب ہورہے ہیں انہیں اس کا اندازہ ہے۔ اس کے باوجود اگر فلم حرام، عورت کا اسکرین پر آنا حرام اور لہوالحدیث حرام کے فتوے دے رہے ہیں تو ''وما یخدعون الّا انفسھم وما یشعرون'' یہ کسی کو نہیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ 
    جس طرح اب وقت نے ہمیں یہ سکھادیا ہے کہ اب ہمیں شوگر، کرونا، ایڈز اور کینسر کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا، ہمیشہ لاک ڈاؤن نہیں چل سکتا اسی طرح اب ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ سیرئیلس، فلموں، ٹی وی، انٹرنیٹ اور گوگل کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا۔ اسلام کا ان کے ذریعے تصوّر پہنچانا ہوگا ، ورنہ ان کو حرام کرکے ہم دین کودنیا سے اور بھی دور کردیں گے۔ نہ ویڈیو حرام ہے نہ فلم لہوالحدیث ہے، اور نہ عورت کا اسکرین پر آنا زِنا ہے۔ یہ سب Depend کرتا ہے آپ کے مقصد پر کہ آپ ان چیزوں کو ایک نیک مقصد کے لئے استعمال کررہے ہیں یا برے مقصد کے لئے۔ گھر کے کچن کی چُھری سے اگر کوئی کسی کا قتل کردے تو کیا چُھری رکھنے کو حرام کردیں گے؟

یہ بھی ایک اعتراض ہے کہ ارطغرل میں کام کرنے والے ایکٹرز یورپین کی طرح کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے طرزِ زندگی سے کہیں اسلام نہیں جھلکتا۔ یہ بھی ایک لغو الزام ہے۔ مسجد کی تعمیر کرنے والے مزدوروں کا اسلامی لباس پہن کرآنا، باوضو ہونا اور نمازی ہونا شرط نہیں ہے۔ ایکٹرز بھی ایک مزدور کی طرح ہیں جنہوں نے کام کیا، مزدوری لی اور چلتے بنے۔ کئی علما اور مشائخین ایسے ہیں جو جہیز اور جوڑے کی رقم کو حرام کہتے ہیں، اس کے خلاف خوب تقریریں کرتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ اپنے گھروں کی شادیوں میں ان حرام چیزوں کو نہیں روک سکتے ،، کیا ان پر آپ ارطغرل کے ایکٹرز کی طرح فتویٰ لگائیں گے، کیا ان کی اتباع بند کردیں گے،؟ علامہ اقبال، قائدِ اعظم، مولانا ابوالکلام آزاد کی نہ بڑی داڑھیاں تھیں اور نہ ٹوپیاں یا عمامے۔ لیکن ان کے کاموں کی وجہ سے مسلمانوں کی تاریخ روشن ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا عالم یا اپنے وقت کا ولی بھی ان کے کارناموں سے انکار نہیں کرسکتا۔ ہمیں کسی کے چہرے یا لباس کو دیکھ کر اس کے ایمان کی پیمائش Measure کرنے کی روش کو بدلنا ہوگا۔ 

ایک بات اور سمجھنے کی ہے ۔ وہ یہ کہ جس طرح اب دور e-Commerice, e-Banking اور e-Education کا ہے، ہر ہر چیز انٹرنیٹ کے تابع ہوتی چلی جارہی ہے، اب اسلام کو بھی e-Islam کرنا ہوگا۔ جن گھروں میں دادا جان کی لائی ہوئی اسلامی کتابوں کی ضخیم جلدیں تھیں اب انہیں دیمک کھارہی ہے۔ انہیں اب کوئی پڑھنے والا نہیں ہے۔ آپ کی زبان کے ساتھ ہی آپ کا پورا علمی اور تہذیبی سرمایہ ختم ہورہا ہے۔ جمعہ کا خطبہ سننے کے لئے کسی پاس وقت نہیں ہے، چاہے خطیب کتنا ہی شاندار کیوںنہ ہو۔ لوگ جماعت کھڑی ہونے سے پانچ منٹ پہلے آتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکل جاتے ہیں، کیوں؟ ۔۔۔ کیونکہ انہیں انٹرنیٹ پر ہی ان کی پسند کے علما، کلاسس اور لکچرز اتنے مل رہے ہیں کہ وہ اب کسی عالم یا مولوی یا مسلک یا جماعت کے پابند نہیں رہے۔ اب e-Islam کا دور ہے۔ آئندہ وہی دین چلے گا جو انٹرنیٹ ، موبائیل یا کمپیوٹر پر ویڈیو اور کیمرے کے ذریعے ہوگا۔ اب تعلیم یافتہ طبقہ اجتماعات، جلسوں یا خطبوں میں نہیں آئے گا بلکہ Zoom, Facebook, Skype پر E-Ijtema میں آئے گا۔ اسی طرح اگر آپ کو اپنی History کو زندہ کرنا ہو تو یہ ارطغرل کی طرح Youtube & Netflix پر زندہ کرنا ہوگا۔ اگر آپ ان چیزوں کو حرام کرکے لوگوں کو پرانی روش پر واپس لانا چاہیں گے تو یہ ناممکن ہے۔ اب تو بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ نہ ویڈیو حرام ہے، نہ انٹرنیٹ اور نہ عورت کا اسکرین پر آنا حرام ہے۔ ہاں ان چیزوں کا استعمال حلال یا حرام ہوسکتا ہے۔ اگر عورت کو اسکرین پر آپ اخلاقی اور تعمیری مقصد کے ساتھ لائیں گے تو یہ جائز ہوگا اور اگر اسے ناچنے، تِھرکنے اور فحش کاری کے لئے پیش کرینگے تو حرام ہوگا۔ عورت کے متعلق ہمارے رویّہ اور سوچ کو بدلنا ہوگا۔ وہ دور چلا گیا جب عورت کو ناقص العقل اور ساقط الاعتبار کہا جاتا تھا۔ اسے صرف اتنی ایجوکیشن کی اجازت تھی کہ وہ دھوبی کا حساب لکھ سکے اور اپنے ماں باپ کو خط لکھ سکے۔ آج عورت ایکٹر ہے، نیوز ریڈر ہے، پائلٹ ہے، جج اور ایڈوکیٹ ہے، وزیراعظم ہے، سرجن اور جرنلسٹ ہے، پروفیسر ہے اور کیا نہیں ہے؟ اب آپ عورت کو اس دور میں دھکیل نہیں سکتے جس دور میں ہم نے صدیوں اسے Patriarchy کی مضبوط زنجیروںمیں جکڑ کر رکھا۔ ہاں اگر کوئی عورت برقع پہنتی ہے، نقاب لگاتی ہے اور دستانے پہنتی ہے تو آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ فلاں مسلک کے اصولوں کی پابندی کرتی ہے۔ لیکن جو عورتیں یہ نہیں کرتیں ان کو یہ کہہ دینا کہ زنا کررہی ہیں یا غیراسلامی ہیں یہ غلط ہے۔ یہ اپنے خودساختہ دین کے تصور کا تکبر ہے۔ ہندوستان، پاکستان، سعودی عرب ، انڈونیشیا اور دوسرے کئی مسلم ممالک میں کروڑوں عورتیں نوکریاں کررہی ہیں شاپنگ کے لئے نکل رہی ہیں جو برقع نہیں پہنتیں۔ خود ہر شخص کے گھر یا خاندان میں کئی عورتیں ایسی ہیں جو نوکری بھی کررہی ہیں، شاپنگ بھی کررہی ہیں بہت اچھی مسلمان ہیں لیکن پردہ نہیں کرتیں۔ کیا معاذاللہ یہ ساری عورتیں زنا کررہی ہیں۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ یہ اسلام کی غلط تعبیر ہے۔ 

    ارطغرل پر بعض لوگوں کا یہ بھی اعتراض ہے کہ ڈرامہ یا تھیٹر سے اسلام نہیں پھیلتا۔ اس غلط فہمی کو ذہنوں سے نکالنا ضروری ہے۔ یہاں ہم اِس دور کے ایک اہم انٹلکچول جنہوں نے ندوہ اور جامعۃ الفلاح دونوں سے عالم کی سند حاصل کی، پھر IRFاور تلنگانہ ٹی وی کے میڈیا ڈائرکٹر رہے، کئی اہم ڈاکومینٹڑیز بناچکے ہیں، بہترین اسکرپٹ رائٹر، اسپیکر اور گیت کار ہیں۔ میڈیا کی اہمیت پر کئی ورکشاپ منعقد کرچکے ہیں - جناب صداقت حسین فلاحی صاحب، ان کی تقاریر کا لب لباب پیش کریں گے کہ قرآن کی دعوت میں میڈیا، ڈراماٹائزیشن اور تھیٹر کے سارے عناصر موجود ہیں۔ نبی کے معنی ہی خبر دینے والے کے ہیں۔'' عم یتساء لون، عن النباء العظیم؟'' نبا کہتے ہیں خبر کو۔ نبی جو خبر لاتے ہیں وہ لوگوں کے لئے ہوتی ہے۔ لوگوںمیں بات پھیلانے کو میڈیا کہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہرنبی سے اس دور کے مروّجہ مزاج کو سامنے رکھ کر میڈیا کا کام لیا ہے۔ فرعون کے جادوگروں کے دل میں بات اتارنے کے لئے اللہ نے موسیٰ ؑ سے تقریر نہیں کروائی۔ بلکہ سانپوں کا ایک سین پیدا کیا۔ اس کو میڈیا کی زبان میں Dramatisation کہتے ہیں۔ اس کے کلائمکس پر لوگ حیرت زدہ ہوجاتے ہیں ، اور ایمان لے آتے ہیں۔ یہ بھی دعوت کا ایک طریقہ ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کا چھوٹے بتوں کے سروں کو توڑ دینا اور کلہاڑی کو بڑے بت کے گلے میں ٹانگ دینا۔ جب لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارے بتوں کے سروں کو کس نے توڑدیا، تو آپ ؑ کا یہ کہنا کہ ''بڑے بت سے پوچھو''۔اس کو میڈیا کی زبان میں Suspense پیدا کرنا کہتے ہیں۔ اس کے کلائمکس سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھانا مقصود تھا کہ جو بت خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟سسپنس پیدا کرکے دعوت پہنچانا بھی دعوت کا ایک اہم جز ہے۔ اسی طرح ابراہیم ؑ کا قوم سے یہ کہنا کہ سیّارہ ہمارا رب ہوسکتا ہے، جب وہ ڈوب گیا تو کہنا کہ نہیں، چاند ہمارا رب ہوسکتا ہے، پھر کہنا کہ یہ تو ڈوب گیا،یہ ہمارا رب نہیں ہوسکتا، سورج کو ہمارا رب ہونا چاہئے۔ پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو سیارے ، چاند اور سورج کو جس اللہ نے پیدا کیا اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا۔ کیا ابراہیم ؑ نے شرک کیا؟ کیا انہوں نے جھوٹ کہا؟ نعوذباللہ۔ دراصل یہ سب کچھ اللہ ہی نے ان سے کہلوایا۔ یہ تھیٹر کی ایک مثال ہے۔ اس سے لوگوں میں دلچسپی، تجسس اور Logical thinking پیدا کی جاتی ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سیدھے سیدھے ابراہیم ؑ سے تقریر کرواکر چاند سورج کی عبادت کو حرام کرکے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم پہنچا سکتا تھا۔ 

    بہرحال دعوت یا تبلیغ کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف درس یا تقریر کرنے سے دین پھیلتا ہے، وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کام کے لئے میڈیا کے تمام Elementsکا بھرپور استعمال کرتا ہے۔جیسے نوح ؑ کا کشتی بنانا، لوگوں کا جمع ہونا، کسی کا مذاق اڑانا، کسی کا غور کرنا، اسی طرح یونس ؑ کا مچھلی کے پیٹ میں پہنچ جانا، یوسف ؑ کا کنویں میں پھر محل میں، پھرجیل میں اور پھر محل میں پہنچ جانا۔ چونکہ ڈرامہ، سسپنس، کلائمکس، تھیٹر وغیرہ کے الفاظ ہمیشہ حرام کی زد پر رہے ہیں اس لئے ان الفاظ کے ساتھ ایک منفی تصوّر قائم ہوچکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ان الفاظ کے استعمال کرنے پر ہمیں فتوؤں سے نواز دیں۔ لیکن اگر وہ ٹھنڈے دماغ سے غور کریں تو قرآن کے ان تمام واقعات میں جو ڈراماٹائزیشن نظر آئے گا وہی دعوت کےلئے بھی لازمی ہے۔ عہدِ حاضر میں ہم کو اسلام پہنچانے کے لئے وہی میڈیا استعمال کرنا ہوگا جو ارطغرل میں پیش کیا گیا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ارطغرل میں بالکل جھوٹ پیش کیا گیا ، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہی کام ہم پر فرض نہیں ہے۔ اگر آپ اسے غلط سمجھتے ہیں تو آگے بڑھئے اور صحیح کیا ہے پیش کیجئے۔ خود کچھ نہیں کرینگے اور صرف فتوے دیں گے تو اس سے امت کو بھی اور دین کو بھی سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ انڈین ٹی وی پر مسلسل غیرسائنٹفک، غیرعقلی، خرافات اور جھوٹی مذہبی داستانوںکو ڈراماٹائز کرکے اس طرح پیش کیا جارہا ہے کہ اس کے سیرئیل بھی کروڑوں لوگ دیکھ کر پاگل ہورہے ہیں اور خرافات کو صحیح سمجھ رہے ہیں اور غلط عقیدوں پر اور سختی سے جم رہے ہیں؟ اب ضرورت ہے کہ امت مسلمہ میڈیا کا بھرپور استعمال کرے ورنہ جس طرح آپ کے بچے یہ خرافات دیکھ دیکھ کر متاثر ہورہے ہیں کل ہوسکتا ہے اپنا ایمان ہی نہ بدل ڈالیں۔ اہلِ مدرسہ اور اہلِ مسالک اب یا تو دور رہیں اور فتوؤں کو بھی دور رکھیں ، یا پھر میدان میں اتریں اور ٹکنالوجی سیکھ کر صحیح دین کو میڈیا کے تقاضوں کے مطابق پیش کریں، یہی e-Islam ہے۔ اب مسلمان ہوں کہ غیرمسلم، جو تعلیم یافتہ ہوں گے اسی کے ذریعے اسلام کے قریب آئیں گے۔ 

    اب آیئے ارطغرل کی کہانی کی طرف۔ ارطغرل کی کہانی دلوں میں ایک ایمان کی بجلی پیدا کرتی ہے۔ پوری مسلم ورلڈ میں مسلمانوں کی جو سیاسی اور معاشی اور تعلیمی حالت ہے اس کی وجہ سے جو لوگوں کے دلوں میں مایوسی اور ایک طرح کی الحاد پرستی Atheism پیدا ہوتی جارہی ہے ایسے مایوسی کے اندھیروں میں ارطغرل ایک مردانہ عزم وحوصلے اور ہمت کی ایک کرن ہے۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ بدر، جنگ یرموک اور جنگ قادسیہ کس طرح لڑے گئے ہوں گے۔ اسے دیکھ کر یہ جوشِ ایمانی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ پر مکمل یقین رکھنے والے چاہے مٹھی بھر چند ہی کیوں نہ ہوں ، وہ بڑی سے بڑی فوج کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ اس سیریز میں ارطغرل کو جن حالات میں گِھرا دکھایا گیا ہے وہ آج کے حالات سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک طرف اسلام دشمن منگول ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ اگر کوئی ان کا ذبیحہ کھانے کے بجائے اسلامی طریقے پر جانور کو ذبح کرکے کھاتا ہے تو اس کی گردن ماردیتے ہیں۔ مسجدوں کے مینار گِرا کر مسجدوں میں گھوڑے باندھنے کا حکم دیتے ہیں۔ اگر کسی نے اذان دینے کی کوشش کی، ٹوپی ، داڑھی یا کسی اور طریقے سے اسلام کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو اس کی سزا موت ہوتی تھی کیونکہ اس زمانے میں بڑے بڑے جیل خانے نہیں ہوا کرتے تھے۔ منگول یہ چاہتے تھے کہ ساری دنیا پر صرف ان کا راشٹرقائم ہو۔

دوسری طرف مسلمان حکومتیں جیسے سلجوق اور ایوبی وغیرہ تھے، ایک دوسرے سے جنگ کررہے تھے اور خونِ مسلماں دونوں طرف بہہ رہا تھا۔ تیسری طرف بیت المقدس کو واپس لینے کے لئے انگلینڈ، Crusaders, Templars & Bazantine ہر طرف سے حملے کررہے تھے۔ ان کے پاس تربیت یافتہ جنگجو Mercenaries تھے جن کی Main strategy مسلمانوں کو لڑوا کر دونوں کا خاتمہ کردینا تھا تاکہ پورے عرب پر ان کی حکومت قائم ہوجائے اور وہ یروشلم سے حکومت کریں۔ چوتھی طرف ارطغرل کے اپنے قبیلے قائی کی طرح ہزاروں قبیلے تھے۔ ہر قبیلہ کے سردار تمام قبیلوں کا سردار بننا چاہتا تھا۔ قبیلے کے اندر ہر شخص لیڈر بننے کے لئے کسی کے بھی ہاتھوں بِک سکتا تھا۔ پانچواں مسئلہ یہ تھا کہ ہر قبیلے میں عورتوں کی سیاست مردوں سے زیادہ تھی۔ بڑے بڑے سردار عورتوں کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ ان حالات میں ارطغرل اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے عدل قائم کرنے کے مقصد سے اٹھتا ہے۔ اس کا آخری مقصد اللہ کی رضا اور اسلام کا پرچم بلند کرنا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے سگے بھائی اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور اسے قبیلہ چھوڑنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ قبیلے کے دوسرے لوگ جو منگولوں، عیسائیوں اور سلجوقیوں یا ایوبیوں کے لئے اشرفیاں لے کر جاسوسی کا کام کرتے ہیں، وہ حسد یا جلن کی وجہ سے یہ برداشت نہیں کرتے کہ ارطغرل ہیرو بن جائے۔ وہ اس کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ سارے واقعات کو اس قدر مضبوطی کے ساتھ جوڑا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اب تک یہ غرور صرف ہالی ووڈ کو ہی تھا کہ ایسی بڑی فلمیں صرف وہی بناسکتے ہیں۔ لیکن ارطغرل کے بنانے والوں نے ثابت کردیا کہ مسلمانوں میں ہالی ووڈ سے زیادہ ذہین لوگ موجود ہیں۔ کہانی کا مقصد اور میسیج ایسا ہے کہ دیکھنے والا پہلے سین سے ہی اپنے اندر ارطغرل کا جذبہئ ایمانی ساتھ لے کر دیکھتا ہے۔ یہ دیکھنے سے لوگوں کے اندر خوف اور Inferiority Complex ختم ہورہا ہے۔ منافقت کے خلاف ضمیر زندہ ہورہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کو پھر سے زندہ کرنے کا جذبہ پیدا ہورہا ہے۔ اگر ایسے ایک دو چار اور سیرئیل بنادیئے گئے تو یہ ایک انقلاب کانقارہ ثابت ہوں گے۔ 

    جہاں تک سعودی عرب اور مصر وغیرہ کے ارطغرل کے خلاف غصہ اور فتوؤں کا تعلق ہے، یہ مکمل سیاسی ہیں۔ یہ تاریخ ہے کہ ترکی سے انگلینڈ کی دشمنی محض پہلی جنگِ عظیم کی وجہ سے نہیں تھی۔ انگلینڈ ہمیشہ سے مسلمانوں کو ختم کرکے اسرائیل کی ریاست کو قائم کرنے کے لئے صلاح الدین ایوبی کے زمانے سے کوشش کرتا آرہا تھا۔ ہمیشہ ناکام ہوا لیکن آخری میں 1923 میں اسے کامیابی حاصل ہوئی جب وہ رشیا اور فرانس کی مدد سے سلطنتِ عثمانیہ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس مرحلے میں سعودی عرب اور مصر بجائے ایک مسلمان کا ساتھ دیتے انہوں نے انگلینڈ کا ساتھ دیا۔ انگلینڈ کلکتہ میں مقیم وائسرائے کے ذریعے عمان کے راستے ہتہیار فراہم کرتا رہا۔ آل سعود کے عبدالعزیز جو اس وقت تک کِنگ نہیں بنے تھے ترکوں سے دوستی کا عہد کرکے بھی پیچھے سے انگلینڈ کے ہمنوا تھے۔ترک فوجیں انگلینڈ اور فرانس کے خلاف کئی محاذوں پر لڑرہے تھے۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر عبدالعزیز نے احصا اور دمام سے ترکوں کو نکال کر قتل کیا اور شریف آف مکہ نے اپنی فوجیں ایک انگلش کمانڈر Lawrence of Arabia کے حوالے کردیں۔ ہزاروں ترکی قتل کئے گئے، ترکی کی ترکی سے مکہ تک کی ریلوے لائن اڑادی گئی۔ شائد اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے انعام کے طور پر عبدالعزیز اور شریف آف مکہ کو ایک ایک ملک مل گیا لیکن ایک عظیم سلطنتِ مسلمان جو سلطنتِ عثمانیہ کہلاتی تھی، جو مسلمانوں کی آخری Super power تھی، جو چالیس ملکوں پر یعنی تین براعظموں 3 Continets پر پھیلی ہوئی تھی، وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی۔ اس طرح مسلمانوں کی ایک شان، ایک طاقت اور دنیا پر رعب اور دبدبہ کا خاتمہ ہوگیا۔ ترکوں اور سعودیوں کی دشمنی کی یہ ایک وجہ تو مسلّم ہے۔ 

ارطغرل کی مخالفت کی دوسری وجہ ایک سعودی صحافی خشوقجی کا قتل بھی ہوسکتا ہے جس کو چھپانے بلکہ دبانے کے لئے سعودی عرب کو کئی ملین ڈالر کی رشوت امریکہ کو دینی پڑی، اس کا راز فاش کرنے والا ترکی ہی تھا۔ تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ 2023 میں ترکی ان تمام پابندیوں سے آزاد ہوجائیگا جو پہلی جنگ عظیم کے بعد اس پر عائد کردی گئی تھیں۔ اس کے بعد ترکی کے مسلم ورلڈ میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بن جانے کے پورے پورے امکانات ہیں جو سعودی عرب کے لئے خطرہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے جس طرح ایک فقیرمسکین ملک افغانستان پر حملہ کرنے مسلمان ملکوں نے یہودونصری کا ساتھ دیااسی طرح پھر سے یہی مسلمان ممالک دوبارہ ترکی کے خلاف غیروں کا ساتھ دیں اور ترکی کو آزادی سے روک دیں۔ چونکہ ارطغرل بنانے میں طیب اردگان کا ہاتھ ہے، یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ طیب اردگان کی طرف سے ایک بار پھر خلافت قائم کرنے کا اشارہ ہے۔ چونکہ طیب اردگان کی مقبولیت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، برما ہو کہ فلسطین، کشمیر ہو کہ یغور (چین)، جہاں بھی ظلم ہوتا ہے سب سے پہلے آواز اٹھانے والا ترکی ہی ہوتا ہے اس لئے امکانات ہیں کہ ترکی کو ختم کرنے سعودی عرب اورمصر کو پھر سے استعمال کیا جائے گا، کیونکہ ان کی تاریخ یہ رہی ہے کہ ترکی میں اردگان سے پہلے مصطفیٰ اربکان اور مصر میں محمد مرسی پر جھوٹے الزامات لگا کر یہ لوگ اسلامی حکومت قائم ہونے کے راستے روک چکے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad