تازہ ترین

ہفتہ، 9 مئی، 2020

"اردو کے دبنگ افسانہ نگار "سعادت حسن منٹو" کی فن و شخصیت

محمد عباس دھالیوال، مالیر کوٹلہ ،پنجاب. 
معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی پیدائش 11 مئی 1912کو موضع سمرالہ، ضلع لدھیانہ میں ہوئی ۔ منٹو کے والد لدھیانہ کی ایک تحصیل میں تعینات تھے- منٹو کے والد کا نام غلام حسن تھا اور وہ منٹو قوم اور ذات کے کشمیری امرتسر کے ایک محلے کوچہ وکیلاں میں ایک بڑے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔منٹو اپنے گھر میں ایک سہما و ڈرا ہوا بچہ تھا۔ جو سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے اپنا آپ ظاہر نہ کر سکتا تھا۔ ان کی والدہ ان کی طرف دار تھیں۔ وہ ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی اور 1921ء میں منٹو کو ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ منٹو کا تعلیمی کریئر کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا جس کے نتیجے میں میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہوئے بعد میں انھوں نے یہ امتحان 1931 میں پاس کیا ۔ جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے اردو ادب کا سرمایہ ہیں. منٹو کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے.

ایک جگہ سعادت حسن منٹو اپنے افسانوں کی تخلیق کے بارے میں لکھتے ہیں "میں افسانہ نہیں لکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ افسانہ مجھے لکھتا ہے." اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ " زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں میری تحریر میں کوئی ایسا نقص نہیں جس کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔ میں ہنگامہ پسند نہیں۔ میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی میں اسے کپڑے پہنانے کی کوش بھی نہیں کرتا۔ اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں۔ لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور نمایاں ہو جائے. " ایک جگہ مذید لکھتے ہیں" جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا تو گھر والے سب بیزار تھے باہر کے لوگوں کو بھی میرے ساتھ دل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے۔’’ بھئی! کوئی نو کری تلاش کرو۔ کب تک بیکار پڑے افسانے لکھتے رہو گے۔‘‘ آٹھ دس برس پہلے افسانہ نگاری بیکاری کا دوسرا نام تھا۔ آج اسے ادب جدید کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن نے کافی ترقی کر لی ہے۔"
آج ہم یہاں منٹو کی شہرہ آفاق تخلیقات سے چند اقتباسات لیتے ہوئے ان کے فن و شخصیت کو سمجھنے کوشش کرتے ہیں. 
منٹو اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ "یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ادیبوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے سچ تو یہ ہے ہبوط آدم سے لے کر اب تک ہر مرد کے اعصاب پر عورت سوار رہی ہے۔ اور کیوں نہ رہے۔ مرد کے اعصاب پر کیا ہاتھی گھوڑوں کو سوار ہونا چاہئے۔" 

’’ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ لمبے لمبے جلوس نکال کر ، منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر ،چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر ، ہماری قوم کے یہ نام نہاد راہ نما صرف اپنے لیے راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتا ہے۔یہ چند لوگ اکھٹے کرتے ہیں، مگر کیا انہوں نے آج تک بے کاری کا حل پیش کیا ہے؟یہ لوگ مذہب مذہب چلاتے ہیں مگر کیا انہوں نے خود کبھی مذہب کے احکام کی پیروی کی ہے؟یہ لوگ جو خیرات میں دیے ہوئے مکانوں میں رہتے ہیں، چندوں سے پیٹ پالتے ہیں،جو مستعار اشیاء پر جیتے ہیں ۔ جن کی روح لنگڑی، دماغ اپاہج ، زبان مفلوج اور ہاتھ پیر شل ہیں ملک و ملت کی رہبری کیسے کر سکتے ہیں"

افسانہ ’’ لائسنس‘‘ مشمولہ ’’ خالی بوتلیں خالی ڈبے‘‘ میں ایک جگہ سعادت لکھتے ہیں کہ ایک دن کمیٹی والوں نے نیتی کو بلایا اور اس کا لائسنس ضبط کر لیا۔وجہ یہ بتائی کہ عورت ٹانگہ نہیں چلا سکتی۔نیتی نے پوچھا ’’ جناب عورت ٹانگہ کیوں نہیں چلا سکتی۔‘‘
جواب ملا ’’ بس نہیں چلا سکتی تمہارا لائسنس ضبط ہے۔‘‘
نیتی نے کہا ’’ حضور آپ گھوڑا ٹانگہ بھی ضبط کر لیں پر مجھے یہ تو بتائیں کہ عورت کیوں ٹانگہ نہیں جوت سکتی؟ عورتیں چرخہ چلا کر اپنا پیٹ پال سکتی ہیں۔عورتیں ٹوکری ڈھو کر روزی کما سکتی ہیں۔عورتیں لینوں پر کوئلے چن چن کر اپنی روٹی پیدا کر سکتی ہیں۔مجھے اور کچھ آتا ہی نہیں، ٹانگہ گھوڑا میرے خاوند کا ہے۔میں اسے کیوں نہیں چلا سکتی؟ میں اپنا گزارہ کیسے کروں گی؟حضور آپ رحم کریں۔محنت مزدوری سے کیوں روکتے ہیں مجھے؟ میں کیا کروں ، بتائیے نا مجھے۔‘‘
افسر نے جواب دیا ’’جاؤ بازار میں جا کر بیٹھو۔وہاں زیادہ کمائی ہے۔‘‘
ایک اور جگہ خود کے فن کا خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "میں ہنگامہ پسند نہیں۔میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا۔میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔اس لیے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا۔سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔یہ میرا خاص انداز ،میر اخاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کیا کچھ جاتا ہے۔لعنت ہے سعادت حسن منٹو پر کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔"

افسانہ ’’سہائے" میں ایک جگہ منٹو لکھتے ہیں" یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔۔۔یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔۔۔اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔۔۔ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ ہندو مذہب مر گیا لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کر کے ہندووں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے۔مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے۔وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جا سکتے ہیں۔۔۔"
بمبئی کے کالج میں پڑھے جانے والے ایک مضمون جو لذتِ سنگ میں درج ہے میں منٹو لکھتے ہیں" چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئین نہیں ہو سکتی۔میرے افسانوں کی ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کوجاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اُٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آرہا ہے۔اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اُچٹی ہوئی نیندیں منجمند ہو گئی ہیں میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں،اس کا چڑ چڑا پن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔"
سیاہ حاشیے منٹو لکھتے ہیں کہ" دیکھو یار، تم نے بلیک مارکیٹ کے دام بھی لیے اور ایسا ردی پٹرول دیا کہ ایک دکان بھی نہیں جلی۔‘‘
 جدید ادب کے حوالے سے ایک جگہ رقمطراز ہیں " میں عرض کر رہا تھا کہ زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہا ہے…. آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے۔ اس کے خلاف اخباروں میں مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہر اگلنا بالکل بیکار ہے۔ وہ لوگ جو ادب جدید کا ترقی پسند ادب کا فحش ادب کا یا جو کچھ بھی یہ ہے خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں۔ تو صحیح راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کر دیا جائے جو اس ادب کے محرک ہیں۔"
لڑکوں کے عشق کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں" کسی لڑکے کو لڑکی سے عشق ہو جائے تو میں اسے زکام کے برابر اہمیت نہیں دیتا۔ مگر وہ لڑکا میری توجہ اپنی طرف ضرور کھینچے گا جو ظاہر کرے کہ اس پر سینکڑوں لڑکیاں جان دیتی ہیں لیکن درحقیقت وہ محبت کا اتنا ہی بھوکا ہے جتنا بنگال کا فاقہ زدہ باشندہ۔" 
محنت کش عورت اور چکلے والی عورت کے حوالے سے ایک جگہ منٹو لکھتے ہیں کہ" چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے۔ اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے۔ میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک مکھیائی ہو سکتی ہے۔ جو رات کو جاگتی اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی یہ ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔"
ایک جگہ قانون ساز لوگوں پہ اظہارِ تمسخر کرتے ہوئے لکھتے ہیں "قانون بنانے والے جاہل نہیں ہو سکتے، لیکن سمجھ میں نہیں آتا قوانین میں اکثر مضحکہ خیز خامیاں کیوں رہ جاتی ہیں" 
انسانی فطری کمزوریوں کے تعلق سے کہتے ہیں "ہم انسان کی فطری کمزوریاں دبا سکتے ہیں، ان کو کسی حد تک روک سکتے ہیں، مگر ان کا قطعی انسداد نہیں کر سکتے"
ایک جگہ اسی توسط سے لکھتے ہیں" گورنمنٹ نام نہاد عصمت فروشی کے انسداد کی تدبیریں سوچتی ہے اندھا دھند وہ اس عمارت کو ڈھانے کیلئے ہتھوڑے چلاتی ہے۔ جس کی بنیادوں کو معاشرے کے بڑے بڑے اونچے ستونوں نے سیسہ پلایا ہے۔ اس عمارت میں، اگر بنظر غور دیکھا جائے تو ہمیں بڑی بڑی تقدس مآب ہستیوں کے ماتھے کی محرابیں مل جائیں گی اور گناہ کی ان بیٹیوں کی شکل و صورت میں کئی جانے پہچانے ناک نقشے ابھر آئیں گے۔ "

ایک جگہ حقیقت پسندی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں" 
سوال ہے۔ جو چیز جیسی ہے اسے من و عن کیوں نہ پیش کیا جائے۔ ٹاٹ کو اطلس کیوں بنایا جائے۔ غلاظت کے ڈھیر کو عود و عنبر کے ا نبار میں کیوں تبدیل کیا جائے" اور مذید ایک جگہ لکھتے ہیں" قیقت سے انحراف کیا ہمیں بہتر انسان بننے میں مدد و معاون ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں "ایک جگہ مذید لکھتے ہیں کہ" حقیقت خواہ شکر ہی میں لپیٹ کر پیش کی جائے، اس کی کڑواہٹ دور نہیں ہوگی "
اپنے افسانوں کے حوالے سے انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں" 
میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کیلئے ہیں۔ نورمل انسانوں کیلئے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ جو عورت اور مرد کے رشتے کو استعجاب کی نظر سے نہیں دیکھتے" 
بھوک کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بھوک کسی قسم کی بھی ہو، بہت خطرناک ہے ۔۔۔ آزادی کے بھوکوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور برپا ہوگا ۔۔۔ روٹی کے بھوکے اگر فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آ کر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے ۔۔۔ مرد کی نظروں کو اگر عورت کے دیدار کا بھوکا رکھا گیا تو شاید وہ اپنے ہم جنسوں اور حیوانوں ہی میں اس کا عکس دیکھنے کی کوشش کریں " اور مذید لکھتے ہیں" دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے" مذید آگے کہتے ہیں کہ" روٹی اور پیٹ، عورت اور مرد ۔۔۔۔۔۔ یہ دو بہت پرانے رشتے ہیں۔ ازلی اور ابدی"

جن حالات کے پیش نظر انسان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ان کے حوالے سے لکھتے ہیں" انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ جو غلطی ایک مرد کرتا ہے، دوسرا بھی کر سکتا ہے۔ جب ایک عورت بازار میں دکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دنیا کی سب عورتیں کر سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن غلط کار انسان نہیں، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔"
مرد عورت کے ابدی رشتہ پر منٹو کہتے ہیں" ملک، ملک سے سیاسی طور پر جدا کیئے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک مذہب دوسرے مذہب سے عقیدوں کی بنا پر علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ دو زمینوں کو ایک قانون ایک دوسرے سے بیگانہ کر سکتا ہے۔ لیکن کوئی سیاست، کوئی عقیدہ، کوئی قانون، عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے دور نہیں کر سکتا. "
اپنی تحریروں کی تلخی کے تعلق سے صاف کہتے ہیں" 
ہماری تحریریں آپ کو کڑوی اور کسیلی لگتی ہیں، مگر اب تک مٹھاسیں آپ کو پیش کی جاتی رہی ہیں۔ ان سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ نیم کے پتے کڑوے سہی، مگر خون ضرور صاف کرتے ہیں۔​"
مرد اور عورت کے رشتے کے حوالے سے منٹو کہتے ہیں کہ 
"عورت اور مرد کے درمیان اس وقت تک مفاہمت کا کوئی رشتہ پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ میاں بیوی نہ بن جائیں۔ عورت مرد کی طرف یوں دیکھتی ہے جیسے بکری قصائی" اور جگہ مذید کہتے ہیں کہ مرد کا تصّور ہمیشہ عورتوں کو عصمت کے تنے ہوئے رسے پر کھڑا کر دیتا ہے"
حکومت و رعایا کے رشتے کو بھی منٹو خاوند بیوی کے تعلق کی طرح دیکھتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں "میں تو بعض اوقات ایسا محسوس کرتا ہوں کہ حکومت اور رعایا کا رشتہ روٹھے ہوئے خاوند اور بیوی کا رشتہ ہے۔ بظاہر ہے لیکن درحقیقت کچھ بھی نہیں۔"

ایک جگہ عورت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ" میں پوچھتا ہوں اگر عورت کی عصمت ہے تو کیا مرد اس گوہر سے خالی ہے؟ اگر عورت عصمت باختہ ہو سکتی ہے تو کیا مرد نہیں ہوتا؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے تیروں کا رخ صرف عورت کی طرف ہوتا ہے. "اسی ضمن میں مذید آگے لکھتے ہیں کہ "سوسائٹی کے اصولوں کے مطابق مرد مرد رہتا ہے خواہ اس کی کتاب زندگی کے ہر ورق پر گناہوں کی سیاہی لپی ہو، مگر وہ عورت جو صرف ایک مرتبہ جوانی کے بے پناہ جذبے کے زیر اثر کسی اور لالچ میں آ کر یا کسی مرد کی زبردستی کا شکار ہو کر ایک لمحے کیلئے اپنے راستے سے ہٹ جائے، عورت نہیں رہتی۔ اسے حقارت و نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ سوسائٹی اس پر وہ تمام دروازے بند کر دیتی ہے جو ایک سیاہ پیشہ مرد کیلئے کھلے رہتے ہیں "
اسی طرح دنیا میں طوائف کے وجود کے بارے میں کہتے ہیں" ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہیں یا خود بنتی ہے۔ جس چیز کی مانگ ہوگی منڈی میں ضرور آئے گی۔"ایک جگہ مذید اس حوالے سے کہتے ہیں کہ" ویشیا کا مکان خود ایک جنازہ ہے جو سماج اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی ہی رہیں گی" اسی طرح ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں" مشاہد بتاتا ہے کہ ویشیا ئیں عام طور پر خدا ترس ہوتی ہیں." ایک جگہ کہتے ہیں "ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔" عام گھریلو عورت ویشا میں جو تضاد ہے اس بارے میں بتاتے ہیں" ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہر گز ہر گز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور باعصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔"

اکثر ہم لوگ سماج سے شکوہ کرتے ہیں چنانچہ اس حوالے سے منٹو لکھتے ہیں" سماج کو گالیاں ضرور دی جائیں، اگر ہو سکے تو اس کو پھٹے ہوئے جوتوں کا ہار بھی پہنا دیا جائے۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی، مگر سوال یہ ہے کہ سماج ہے کیا؟"
زندگی کے فلسفے کو دو جملوں میں سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں "مختصر الفاظ میں زندگی کے متعلق صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک آہ ہے جو واہ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔"
عشق کے تعلق سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں." عام طور پر عورت سے عشق و محبت کرنے کا واحد مقصد جسمانی لذت ہوتا ہے." 
زمانے کے نئے چلن کے بارے لکھتے ہیں" یہ نئی چیزوں کا زمانہ ہے۔ نئے جوتے، نئی ٹھوکریں، نئے قانون، نئے جرائم، نئی گھڑیاں، نئی بے وقتیاں، نئے آقا، نئے غلام اور لطف یہ ہے کہ نئے غلاموں کی کھال بھی نئی ہے جو ادھڑ ادھڑ کر جدت پسند ہو گئی ہے۔ اب ان کیلئے نئے کوڑے اور نئے چابک تیار ہو رہے ہیں۔" 
انسان، عورت سے محبت کرتا ہے تو ہیر رانجھا کی داستان بن جاتی ہے۔ روٹی سے محبت کرتا ہے تو ا یپی کیوریس کا فلسفہ پیدا ہو جاتا ہے۔ تخت سے پیار کرتا ہے تو سکندر، چنگیز، تیمور یا ہٹلر بن جاتا ہے اور جب خدا سے لو لگاتا ہے تو مہاتما بدھ کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ 
انسانی فطرت کے بارے میں خلاصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں "
ہر انسان دوسرے انسان کے پتھر مارنا چاہتا ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کے افعال پرکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے جسے کوئی بھی حادثہ تبدیل نہیں کر سکتا۔" 
اپنے باغی تیور کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں "میں بغاوت چاہتا ہوں۔ ہر اس فرد کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو ہم سے محنت کراتا ہے مگر اس کے دام ادا نہیں کرتے"

عہد حاضر کے سربراہان پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں "
یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، یہ لوگ جن کا کیریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کیلئے نکلتے ہیں ۔۔۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے!" ایک جگہ مذید اسی ضمن میں کہتے ہیں "یہ لوگ جنہیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔ "
مذہب کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ" مذہب جیسا تھا ویسا ہی ہے اور ہمیشہ ایک جیسا رہے گا۔ مذہب کی روح ایک ٹھوس حقیقت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ مذہب ایک ایسی چٹان ہے جس پر سمندر کی خشمناک لہریں بھی اثر نہیں کر سکتیں۔" ایک مذہب کے ضمن خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں "مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُ لّو سیدھا کرنے کیلئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ " قومی رہنماؤں کے حوالے کہتے ہیں" لمبے لمبے جلوس نکال کر، منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر، چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر، ہماری قوم کے یہ نام نہاد رہنما صرف اپنے لئے ایسا راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتا ہے۔"
ایک جگہ لیڈر کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں" 
ہمارے ملک کو صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو حضرت عمرؓ کا سا اخلاص رکھتا ہو، جس کے سینے میں اتاترک کا سپاہیانہ جذبہ ہو۔ جو برہنہ پا اور گرسنہ شکم آگے بڑھے اور وطن کے بے لگام گھوڑے کے منہ میں باگیں ڈال کر اسے آزادی کے میدان کی طرف مردانہ وار لیئے جائے۔ “ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ" یاد ر کھیئے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کیلئے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجئے۔" عہد حاضر کے لیڈروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں "یہ لیڈر کھٹمل ہیں جو وطن کی کھاٹ میں چولوں کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔"ایک جگہ مذید سخت لہجے میں کہتے ہیں کہ" یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا سلیئے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔" 
غربت کو لعنت تصور کرنے والوں کے حوالے سے کہتے ہیں. " یاد ر کھیئے غربت لعنت نہیں ہے جو اسے لعنت ظاہر کرتے ہیں وہ خود ملعون ہیں۔"
اسی طرح ایک اور جگہ منٹو کہتے ہیں کہ" وہ غریب اس امیر سے لاکھ درجے بہتر ہے جو اپنی کشتی خود اپنے ہاتھوں سے کھیتا ہے ۔۔۔ اپنی کشتی کے کھویا خود آپ بنئے ۔" 

منٹو اپنی برادری یعنی ادباء کے بارے میں کہتے ہیں "آج کا ادیب ایک غیر مطمئن انسان ہے۔ اپنے ماحول، اپنے نظام، اپنی معاشرت، اپنے ادب، حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی"
انسانی کمزوریوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ "
جب تک انسانوں میں اور خاص طور پر سعادت حسن منٹو میں کمزوریاں موجود ہیں، وہ خوردبین سے دیکھ دیکھ کر باہر نکلتا اور دوسروں کو دکھاتا رہے گا "
ان کے معاصرین انھیں سیاہ قلم قرار دیتے تھے اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں" لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں، میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔" اسی طرح سعادت خود ایک آرٹسٹ مانتے ہیں اور برجستہ کہتے ہیں کہ "میں آرٹسٹ ہوں اور اوچھے زخم اور بھدے گھاؤ مجھے پسند نہیں"
انسان میں پائے جانے والے اوصاف و خامیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ" انسان اپنے اندر کوئی برائی لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ خوبیاں اور برائیاں اس کے دل و دماغ میں باہر سے داخل ہوتی ہیں۔ بعض ان کی پرورش کرتے ہیں، بعض نہیں کرتے"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad