تازہ ترین

منگل، 12 مئی، 2020

ظلم پھرظلم ہےبڑھتاہےتومٹ جاتا ہے

محمد طاسين ندوي 
 بسم اللہ الرحمن الرحیم
روئے زمین پر رہنے بسنے والے نوع بنوع کے انسان مختلف نظریات، اطوار،عادات کے حامل ہیں یہاں بود وباش کرنے والے کے افکار  وسوچ بھی بہت مختلف ہیں  اللہ کی زمین پر چلنے پھرنے والوں میں مختلف انواع واشکال کے فرشتہ صفت انسان بھی ہیں اور اس کے برعکس کچھ درندہ کی صفت سے متصف انسان بھی اگر انسان اپنے من کی کرنے پر آمادہ ہوتاہے  تو نسلیں تباہ  ہوجاتی ہیں زمین اپنی تمام ترکشادگی، رعنائی ،حسن ،دلکشی وجذابیت کے باوجود بہت تنگ ہوجاتی ہے. جیتے جی انسان مردہ ہوجاتا ہے سوچنے، سمجھنے،کی طاقت و صلاحیت ختم ہوجاتی ہے خوف و ہراس ذلت، بے چارگی دامن تھام لیتی ہے انسان انسان سے خوف کھاتا ہے ظلم سر چڑھ کر بولتا ہے ارباب اقتدار ، چودھری،سرپنچ، مکھیا، پردھان الغرض یہ کہ جو بھی کسی نہ کسی درجہ میں ذمہ دار کی فہرست میں ہوتے ہیں یا ذمہ دار باور کرتے ہیں اپنے رعایا، ماتحتین،کم فہم وکم گو، غریب و نادار لوگوں کا استحصال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اوریہ ہوتا اس لئے کہ  کچھ تو کرسی کے نشے میں دھت ہوکر بدمست اپنے ذیلی لوگوں پر اپنی طاقت و پاور کا رعب اور اپنا سکہ دلوں میں بیٹھانے کی بے جا کوشش کرتا ہے بالفاظ دیگر نعوذ باللہ صاحب اقتدار اپنے کو مالک،رازق، کہلوانے کے چکر میں پڑ جاتےہیں باوجود یہ کہ انہیں معلوم ہوتا ہیکہ مالک و رازق وہ ذات عالی صفات ہے  جس کے برکات عام ہیں  یہ جاننتے ہوئے بھی اگر انادار،مسکین اور اس زمرے کے لوگ اس پر عمل نہ کرے تو اسے اس دنیا میں رہنے کا حقدار ہی نہیں سمجھا جاتا

 طرح طرح کے اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے اگر گاؤں اور سماج کا غریب ونادارطبقہ ہے تو اس کی آمدو رفت نشست و برخاست خوردو نوش پر بھی پابندی لگانے کی فکر میں چودھری اور اپنے کو اس سے بلندسمجھنے والے کر گزرتے ہیں .اگر ماتحت نوکر، ملازم، اسٹاف ہے تو ارباب و ذمہ داران انکے ساتھ بھی ظلم کرنے سے نہیں چوکتے ..اور مختلف النوع مظالم مفاسد ہیں کہاں تک گنایا جائے .البتہ یہ بات ذہن نشین رپے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے الله تعالى نے حديث قدسي میں فرمایا   "ياعبادي أني حرمت الظلم فلاتظالمو " رواه مسلم اے میرے بندو میں نے ظلم کو حرام کیا ہے تو تم سب ظلم سے رک جاؤ باز آؤ آپ صلی اللہ نے مزیدفرمایا"اتقوا الظلم فان الظام ظلمات یوم القیامۃ" رواه مسلم اے ظالمو اپنے ظلم و جبر سے  ڈرو باز آؤ ظلم ظالم وجابر کے لئے روز قیامت  تاریکی بن کر سامنے آئیگا . 

قارئین کرام!  ہمیں قیامت کامنظر  ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اس دن  ہماری زبان پر اللہ تعالی تالا لگادیں گے اور زبان کے علاوہ ہر اعضاء جسمانی اللہ کے حضور گویا ہوگا اور اپنا کچا چٹھا سامنے لائے گا چنانچہ فرمان باری تعالی ہے "اليوم نختم على أفواههم وتكلمنا أيديهم وتشهدأرجلهم بماكانوا يكسبون"سورةيسين٦٥آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ہمارے ساتھ ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے اس پر جو وہ کیا کرتے تھےعلماء تفسير نے لکھا ہیکہ روز قیامت لوگ گونگے ہوجائیں گے نہ بات کرسکیں گے اور نہ اپنے اعمال جو انہوں نے انجام دیئے ہیں اس سے مکر ہی سکیں گے مختصر یہ کہ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف ظلم کی حرمت و نحوست کو بیان کیا ہے اور اس کے برے انجام پر متنبہ کیا ہے بلکہ ظالم و مظلوم  کی مدد کرنے کی تعلیم دی ہے فرمان نبوی ہے "أنصر أخاك ظالما أومظلوما"رواه البخارياپنے ظالم بھائی کا ہاتھ روک کر اس کی مدد کرو اور مظلوم کی مدد  ظالم کے چنگل سے  نکال کر کرو اور مظلوم کی آہ وبکا ردنہیں ہوتی یہ مظلوم اور باری تعالی کےدرمیاں کوئی پردہ نہیں ہوتا .ظالم کا دیرپا نہیں رہتا ایک نہ ایک دن اس کے شوکت کو زوال آنا ہے 

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں 
ناؤکاغد کہ سدا چلتی نہیں  

دین اسلام کے علاوہ بھی دنیا کےسارے مذاہب نے بلاکسی تفریق کہ ظلم کو روا اور درست نہیں کہا بلکہ دنیاوی قوانین و ضوابط نے بھی اس کی روک تھام کی ہے ناروا کہا ہے لیکن آئیے طائرانہ نظر ڈالتے ہیں دنیاوی ضوابط اور قوانین ساز اقوام پر  تو یہ معلوم ہوگا کہ امن کے ٹھیکدار خود ہی ظلم و جبر سے اپنا دامن بچانے میں ناکام ہیں باتیں تحریرتو ضرور ظلم کی مخالفت  میں کرتے ہیں لیکن عمل ندارد اگر مدعیان امن شتر بے مہار حکومت و مملکت کو لگام دینے کی کوشش کرتے تو اس دور افتاد جس میں ایک طرف تو دنیا اپنی خیر منانے  کی فکر میں سر کھپا رہی جان توڑ کوششیں کررہی تو دوسری طرف نفرت کی گرم بازاری ہے واقعی اگر مدعیان امن وامان،  شانتی بنائے رکھنے کی تگ دو کرتے اور ظالم کو اس عمل کے پاداش میں عبرتناک سزادیتے تو جو حالات اقوام و ملل کے ہوگئے ہیں وہ نہ ہوتے اور افکار،نظریات، قبائل، مذہب و مسلک،  رنگ ونوع کے اختلاف کے ساتھ یہ دنیا امن کا گہوارہ ہوتی جس میں ہر زندگی گزارنے والے اپنی زندگی اپنے مذہب ودین کے دائرے میں رہ کر آزادانہ  گزار تے آپس میں شیروشکر ہوتے فرحت وانبساط دکھ و کلفت کو ساتھ ساتھ پار لگاتے.لیکن نہ جانے ایسا کب ہو کہ متحد ہوں ملنساری کا جذبہ موجزن ہو اور آپس میں ہندو، مسلم ،سکھ، عیسائی سب مل جل کر رہیں اور ظلم ہم سے گبھرائے .اور یاد رکھیں 

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے 
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

اللہ تعالی سے دعاگو ہوں کہ اللہ ہم مسلمانون کو بنھی درست سوچ دے اور ظالم کے ظلم سے نجات کا سامان مہیا فرمادے. آمين ياربنا الرحمن الرحيم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad