تازہ ترین

بدھ، 8 جولائی، 2020

ہستئی دوروزہ کاعیش وعشرت ،توچند روزہ ہی ہے!!

 ازقلم :انوارالحق قاسمی ،نیپالی   جب سے یہ ارض وسماء  قائم ہے،اس کے سائے تلے جتنے بھی باشعور فرد انسانی چین راحت یا حزن و ملال کی زندگی بسر کر چکے ہیں،یاکررہے ہیں، ان کا دنیا کے ہر امور کے متعلق شدید وخفیف اختلاف رہا ہے ،اور آئندہ بھی ممکن ہے ؛مگر موت ہی ایک واحد ایسا قضیہ ہے، جس کے وقت موعودہ اور وقت مقررہ آجانے کے بعد،نہ ایک ساعت آگے اور نہ ہی  ایک لمحہ پیچھے وقوع میں کسی فرد بشر کا اختلاف رہا ہے،نہ ہے اور نہ ہی رہے گا، موت کے سامنے بڑے بڑے اطباء اور فلاسفہ اور سائنس دانوں کوبھی  اپنے گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں، اور انہیں کہنا پڑاہے،شعر:موت سے کس کورستگاری ہے ☆آج ہماری کل تمہاری باری ہے۔

   ہر جاندار نفس کو بسر و چشم یابخاطررنج موت کا سامنا کرنا ہی ہے ،جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:كل نفس ذائقة الموت وإنما توفون اجوركم يوم القيامة فمن زحزح عن النار وادخل الجنة فقد فاز وماالحيوة الدنيا إلا متاع الغرور.سورة آل عمران :١٨٥.ترجمہ: ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے،اور تم کو تمہاری پوری اجرت قیامت ہی کے روز ملے گی، تو جو شخص دوزخ سے نکالا گیا، اور جنت میں داخل کیا گیا، سووہ پوراکامیاب ہوا ،دنیوی زندگی تو کچھ بھی نہیں، صرف دھوکے کا سودا ہے۔
  
 مومن کی اصل زندگی مابعد الموت  شروع ہوتی ہے، چین وراحت  کی زیست ،جس کا ہر مرد مومن مشتاق رہتا ہے، اس کا لطف بعد المرگ ہی ممکن ہے ،اور یہ دنیوی حیات ،تودرحقیقت ایک دھوکے کا سودا ہے، یعنی دنیاوی زندگی کو ہر چیز سمجھ کر دنیا حاصل کرنے میں پوری طرح مہمک  ہو جانا اورآخرت سے غافل ہوجانا،دھوکے کا سودا کرنے کے مترادف ہے۔

   دنیاوی زندگی کا عیش و عشرت میں گزرنا یہ عنداللہ مقبولیت و محبوبیت کی علامت نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر یہی مدار مقبولیت ہوتا، تو پھر کوئی بندہ مومن اپنی حیات مستعار کلفت  و مشقت کی نہیں بسر کرتا، اور کوئی بندہ کافر عیش و آرام اور چین راحت کی زندگی ہرگز نہیں گزارتا ،جب کہ بہت سے مشرک اور کافر اپنی دنیوی زندگی  بڑے ہی ٹھاٹ باٹ کے ساتھ گزار رہے ہیں ،اور اکثر مرد مومن  قید خانہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، معلوم ہوا کہ عیش و عشرت کی زندگی گزارنا، عنداللہ مقبولیت نہیں ہے، اس لیے دنیا کی چند روزہ راحت پر مغرور نہیں ہونا چاہیے؛ کیوں کہ دنیا کی زندگی تو مسافرت کی جگہ ہے اور اس کی حیثیت زندگی کے سفر میں پڑاؤ  کی ہے،  اصل زندگی تو آخرت کی ہے، اور مومن کوسچی راحت اوردائمی عیش و عشرت آخرت ہی میں نصیب ہوگی۔

   جب موت یقینی ہے، اور ہر شخص کو اس کا سامنا کرنا ہے ،تو پھر ہر شخص کو چاہیے کہ وہ آخرت کی تیاریوں میں مکمل طریقے پر لگ جائے، اور سب سے دانہ اور عقلمند انسان بھی وہی ہے جو مابعدالموت والی زندگی کی تیاریوں میں اپنے قیمتی اوقات کو صرف کریں تاکہ مرنے کے بعد دفع افسوس نہ ماننا پڑے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الكيس مادان نفسه وعمل لمابعد الموت. {عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو دبائے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیئے عمل کرے}۔

   حقیقت تو یہ ہے کہ جو بھی کلمہ طیبہ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" کو دل سے ماننے والے ہیں ،ان کے قلب  میں موت اور آخرت کا اشتیاق بدرجہ اتم  ہونا چاہیے ؛مگر افسوس کہ انسان چند روزہ عیش و راحت کےوقتی لطف کےچکر میں  شوق آخرت ختم کرچکے ہیں ،یہ ایک ضابطہ ہے ،کہ جو انسان دنیا میں منہمک ہو گا، اس کی شہوات کی محبت میں غرق ہو گا ،نتیجتاً اس کا دل موت سے غافل ہو جائے گا ،جس کا دل موت سے غافل ہو گیا، وہ طبعا ذکر موت کونا پسند کرے گا ،اور موت سے وحشت محسوس کرے گا، نیز ملاقات الہی سے بھی ،بے تحاشا دہشت اور خوف محسوس کرے گا ،جب کہ موت رب کائنات سے ملاقات کا ایک اہم اور بہترین ذریعہ ہے، جو شخص جنت اور دیدار الہی کا خواہاں اور متمنی ہوتا ہے، اس کی آرزو یہی ہوتی ہے،کہ وہ اس دار  فانی سے جلد ہی رخصت ہو جائے ،تاکہ باری تعالی کی زیارت نصیب ہو ،اور جنت کی لذات سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملے؛ اسی لئے فخر کونین  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو مومن کے لئے ایک عظیم تحفہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: تحفة المؤمن الموت.《 مومن کا تحفہ موت ہے》 اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ دنیا میں  اس قدر منہمک اور مصروف نہ ہوں کہ  ان کے دل سے موت کی محبت ختم ہو جائے، بل کہ میں تو کہتا ہوں کہ موت کا تذکرہ بار بار کرتے ہی رہنا چاہیے ؛تاکہ دنیا کی محبت دل میں جگہ نہ بناسکے، اور آخرت کا ہمہ وقت استحضار ہے ۔

  عالم ناسوت سے عالم آخرت کی طرف رحلت فرمانے والےمومن کے جگر اور قاشہ قلب  میں ،خالق مطلق کے تئیں حسن ظن کے جذبات موجزن ہونے چاہیے، اور جان جان آفریں کے سپرد کرتے وقت زبان پر کلمہ شہادت" أشهد أن لا إله   الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمد عبدہ ورسوله " جاری ہو ، اس موقع سے موجودہ رشتہ داروں، عزیزوں، مخلصین ،اور محبین کو چاہیے کہ وہ قریب المرگ شخص کو کلمہ طیبہ "لاالہ اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "کی تلقین کرے، یا اس کے روبرو کلمے کا بار بار وردکریں، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لقنوا امواتكم لا اله إلا الله[اپنے مرنے والوں کولا اله إلا الله کی تلقین کرو]۔

   جب مومن کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے اور موت کی ابدی نیند سو جاتا ہے،تووہ ہستئی دوروزہ اور ہستئی جاودواں کے  بیچ بیچ عالم برزخ میں پہنچ جاتا ہے ،اور پھر عالم  برزخ ہی  میں جزا وسزا کا دور شروع ہو جاتا ہے ،یعنی عالم برزخ کے اندر مرنے والے شخص میں   اتنی حیات ہوتی ہے ،کہ  وہ اگر  مومن اور متقی ہے، تو وہ عذاب خداوندی،تو وہ نعمتوں سے لطف اندوز ہوتارہتاہے،اور اگر معاملہ برعکس ہے،یعنی وہ کافر ومشرک اور فاجر وفاسق ہے،تووہ عذاب خداوندی سے گزند  محسوس کرتارہتا ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صاحب شرح العقائد النسفی نے اپنی کتاب "شرح عقائد"  میں رقم طراز ہیں:بقد الالم والالذ۔

   جب عزیز و اقارب اور متعلقین ومحبین مردہ کو قبر میں دفن کر کے ملک خموشاں سے اپنے اپنے گھروں کی طرف رواں دواں  ہونے لگتے ہیں، تو معا ہی دو فرشتے قبر میں داخل ہوتے ہیں، اور پھر اسے بٹھلاتے ہیں، پھر اس سے سوال کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں تیرا کیا عقیدہ تھا ؟چناں چہ اگر وہ مومن ہوگا ،تو وہ فی الدور  بول اٹھے گا: اشہد انه عبداللہ رسول. پھر فرشتے اس سے کہتے ہیں، کہ تو اپنا دوزخ  کا ٹھکانہ دیکھ، فاطر السموات والارض نے  وہ مقام بدل کر جنت میں تمہاری شایان شان دائمی مستقر  عطا فرمایا ہے ؛چناں چہ وہ دونوں قیام گاہوں کو ایک ساتھ ہی دیکھتا ہے یہ تو مومن کی حالت ہوئی؛ لیکن جب منافق و کافر سے سوال کیا جائے گا، کہ دنیا فانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں تیراکی عقیدہ تھا؟ تو وہ حسرت و افسوس کے لہجے میں کہے گا:لاادري كنت اقول مايقول الناس.تو فرشتے جواب دیں گے کہ تونے نہ عقل سے  دریافت کیا ،اورنہ ہی قرآن کریم میں پڑھا ،پھر اس پر لوہے کے گرزوں  سے ضرب شدید شروع ہوتی ہے،اور یہ چیختاچلاتاہے،اس چیخ وپکار کو جن وانس  کے علاوہ سب سنتے ہیں،بقول شخصے :موت وہ جام ہے ،جوہرشخص کوپیناہوگا☆قبر وہ باب ہے ،جہاں ہرشخص کوجاناہوگا۔

  دعا کریں، کہ اس عالم آب وگل  کی رنگینیاں ہر مرد مومن کے قریب بھی نہ بھٹکے، چہ جائے کہ قلب و دماغ میں جاگزیں اورمستحکم ہو،اور واصل بحق ہوتے وقت ،زبان پر کلمہ طیبہ "لا اله إلا الله محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم "بھی جاری ہو،نیز بعد الموت سے وقوع عالم آخرت سے قبل تک ،یعنی عالم برزخ کے عذاب  سے باری تعالی ہم خردوں  کی حفاظت فرمائے، (آمین)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad