تازہ ترین

ہفتہ، 8 اگست، 2020

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دےمارا

از:محمد طاسین ندوی
باسمہ تعالی 
باری تعالی نے ہمیں اشرف و اکرم بنا کر جہاں اس صفحۂ ہستی پر رہنے بسنے والے دیگر اقوام و انسان کے مقابلے اپنی شفقت و احسانسے نمایاں کیا ہے ,اور ایک ایسا گائیڈ لائن اور دستور حیات دیا جس پر چلنے سے ہم بام عروج و اوج کمال کوپہنچ سکتے ہیں ,آسمان پر کمندیں ڈال سکتے ہیں آفاق و انفس کی سیر بڑے ہی سکون و اطمینان سےکرسکتے ہیں ,ایسا ہوا یا نہیں تاریخ اس پر شاہد ہے ,ہمارے اسلاف نے جب اس دستور حیات کو اپنایا تو کامیابیاں نے اپنے تمام تر تانے بانے سمیت ان کے سامنے ڈیرہ ڈالدیا اوران کی قدم بوسی کو اپنے لئے صد افتخار وطرہ امتیاز سمجھا کیونکہ ہمارے آئمہ و علماء اسلاف نے اپنے کو کندن بنایا تھا اپنی زبان کو پابند شریعت کیا تھا غیبت, الزام تراشی, چغلخوری اور انواع و اقسام کے ہتک آمیز افکار سے اجتناب کیا تھا اپنے نفس کو مغلوب اور حکم الہی کو غالب رکھا تھا تو بھلا کیونکر تاریخ ان کے اسماء کو اپنے سینے میں محفوظ نہ کرتی ,لیکن جوں جوں اسلاف سے ہماری دوریاں بڑھتی گئیں ہم نے اپنے کو ہی عقل کل کا مالک گرداننا شروع کیا تو ہم خائب و خاسر, شکستہ و درماندہ ہوتے چلے گئے آج نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ہمارے وطن کے لوگ اجنبی سمجھنے لگے  اور اجنبیت ہی پر بس نہیں کیا بلکہ عداوت و دشمنی کے راہ پر گامزن ہوئے اور ہمارے آثار قدیمہ مساجد و مکاتب کو تاراج و سبوتاژ کرنے کی کوشش شروع کی اور اس میں وہ لوگ کامیاب ہوئے بغداد جو علوم اسلامیہ کا مرکز تھا اسے ہم سے چھینا گیا

 اور اس جیسے اور بھی اسلامی قلعے تھے جسے ہمیں اپنے غیر دانشمندانہ فکر و نظر کی وجہ سے کھونا پڑا اور حالیہ دنوں میں  اسکی ایک بین و واضح دلیل مسجد بابری اور اس جیسے کئی مساجد پر غاصبانہ و ظالمانہ قبضہ اور مسجد کے اعمال ناپید اس کی جگہ گائے بھینسے اونٹ و گھوڑے کا اصطبل بنایا گیا  اور کہیں مندر تو کہیں میوزیم  و گرجا گھر کہیں چرچ و گردوارہ سے تبدیل کیا گیا .آخر ایسا کیوں ہوا کبھی ہم نے غور کیا؟اگر ہم نے غور کیا ہوتا تو ہمیں جواب بڑی آسانی سے مل سکتا تھا ...وہ یہ کہ ہم نے اپنی زندگی کے سنہرے ایام کو عیش وعشرت رقص و سرود آسائش و زیبائش میں تمام کیا ہم نے کل کی فکر ہی نہیں کی,  نہ حکم الہی  فرمان نبوی کے مطابق  بادشاہت و حکمرانی کیا نہ اپنے عاقبت کو ملحوظ خاطر رکھا, اگر ہمیں یہ فکر دامن گیر ہوتی تو آج ہم بالکل دو ٹکے کے لوگ نہ ہوتے ہمارا ملک وہ بھی سیکولر ملک  میں عزت و احترام کیا جاتا جملے چست نہ کئے جاتے مسجد و مدارس نہیں توڑے جاتے ہمارے گھروں محلوں کو ویران نہ کیا جاتا ,ہم اپنے حقوق کے مطالبے پر دیس دروہ جیسا طعنہ نہ دیا جاتا اور نہ ہمارے دانشوران, قائدین کو پس زنداں کیا جاتا.ہم تو اپنے مرغوبات کی بازیابی میں محو منہمک رہے کبھی یہ خیال آیا ہی,نہیں کہ بادشاہت تو اللہ کی ہے تو الملك لله والحكم لله .ہم نے اپنی زندگی کے قیمتی و بیش بہا سرمایہ کو  داد عیش دینے  میں  عالیشان باغات و محل بنانے میں خاکستر کردیا رہے دیناوی رنگینیاں میں ایسے کوشاں ہوئے کہ اپنی بھی فکر نہ رہی چہ جائیکہ عام مسلمان کی فکر رہتی اور ایسا اس لئے کہ  جو قوت و طاقت ایمانی جذبہ ایثار و قربانی و انفاق و اکرام ,فقر و استغناء ہم نے اپنے اسلاف علیھم الرحمہ سے مستعار لیا  اس کو منوں مٹی تلے ایسا دبا دیا دفن کردیاکہ اس کی کمر بالکل ازکار رفتہ ہو گئی ٹوٹ گئیاور دوبارہ اٹھنے کے قابل نہ رہی

قارئین کرام ! اسلامی شعار اور ہندوستانی مسلمانوں کی آئینی ملکیت مسجد بابری کی اگر بات کی جائے تو اس کی جگہ تو عدلیہ غیر منصفہ نے ہندتوا کے حوالے بغیر کسی ثبوت و دلیل کے سونپ ہی دیا تھا  ابھی گذشتہ کل 5 اگست 2020ء کو مسجد بابری کی جگہ رام مندر کا شیلانیاس ہوا جو ایک بہت ہی شدید  رنج و الم وتکلیف و کوفت والا عمل تھا ہم مسلمانوں کے لئے کیونکہ یہ  خبیث عمل بالکل غیر آئینی طور پر عمل میں آیا اس پر مسلم پرسنل لاء نے  بھی مخلتف زبانوں میں یہ لکھا  اور باور کیا کہ بابری مسجد پہلے بھی مسجد تھی,اب بھی مسجد ہے اورہمیشہ مسجد رہیگی .ہاں وہی مسلم پرسنل لاء بورڈ جو ہندوستانی مسلمانوں کی ایک مہتم بالشان اور نمائندہ فاؤنڈیشن سمجھا جاتا ہے اس نے پھر بعد میں انگریزی ٹویٹ مٹا کر ایک طفلانہ عمل کیا یا اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا یہ خود ایک سوال ہے  اب یہ نہیں معلوم کہ کیسا پریشر اور کیسی دباو تھی کہ جس کی وجہ سے  جس  نے ایمانی جذبہ سے سرشار ہوکر یہ لکھا تھا کہ بابری مسجد پہلے مسجد تھی اور مسجدہے اورمسجد رہیگی پھر ایک دن بعد  اس جذبہ کا خون کیونکر کیا ایا بی جے پی حکومت نے اپنی سرخ آنکھ دیکھائی یا کسی آقا کو خوش کرنے اور مسلمانان ہند کو بے وقوف بنانے کا  ڈھونگ رچایا گیا  یہ اپنی جگہ مستقل موضوع بحث ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ بورڈ کو  وجہ مسح بھی واضح کر دینا چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ  یہ  ہماری نمائندہ یونٹ و فاونڈیشن و پرسنل لاء بورڈ صرف ایک مسخرہ ہو کر رہ گیا ہے اس کا علم تو اللہ کو ہے لیکن مساجد و مدارس کا ہم سے چھین جانا  صرف اور صرف ہماری ناعاقبت اندیشی اور منہج اسلاف سے دوری کے نتائج ہیں اورہم یاد رکھیں ہم مسلمانوں عالم  جب اپنا محاسبہ کرنا شروع کریں گے

اس کے بعد قدرت کا کرشمہ ضرور نظر آئیگا.چاہے ہم جتنا چیخیں چلائیں کمی تو ہمارے اندر بہت ہے  ہم جادہ حق سے رو گرداں ہورہے ہیں جو ہمارے اسلاف کا نصب العین و مقصد حیات تھا علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کیاخوبصورت تصویر کشی کی ہے

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اللہ ہمیں دین اسلام پر گامزن رہنے کی توفیق دے ہمارے اندر جو بزدلی نے اپنے لاو لشکر کے ساتھ پڑاو ڈالے ہیں اس کا خاتمہ فرما کر اسد اللہ الغالب بنادے آپس میں انسجام پیدا فرمادے .آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad