تازہ ترین

جمعرات، 6 اگست، 2020

ہندوتوا دہشتگردی اللہ کی مار ہے؟ دعوت اسلامی کے نام پر ناکامیوں کو چھپانے کے نئے خوشنما دلائل:

سمیع اللہ خان
ان حضرات کا یہ رویہ بہت غلط ہے جو اپنا سارا زور کار دعوت پر صرف کرتے اور داعیوں کی جماعت تیار کرتے ہیں۔ کسی مقام پر بعض ہندو جنونی لنچنگ کردیں اور اس سانحے پر تاسف و الم کا اظہار ہو تو جواباً یہ حضرات پکار اٹھتے ہیں کہ درحقیقت اس وقوعہ کے پس پردہ اصل مجرم ہم مسلمان ہیں جنہوں نے اس سنگھی بھیڑ تک اسلام کی دعوت کو نہیں پہنچایا کہیں مسلمان بھائی کی ظالمانہ موت ہوجائے یا کہیں ان کی مساجد پر حملہ ہوجائے ابھی دشمنوں کے دیے ہوئے گھاؤ مندمل نہ ہوتے کہ یہ حضرات زخموں پر نمک پاشی کرتے پکار اٹھتے ہیں کہ یہ جو ظلم ہوا ہے اس کے ظالم بھی مظلوم ہی ہیں کیونکہ انہوں نے دعوت نہیں پہنچائی علاوہ ازیں جب کوئی فلمی اداکار خودکشی کا ارتکاب کرے تو بھی مسلمانوں ہی کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگتا ہے، اب بابری مسجد میں رام مندر کے شیلانیاس کے بعد یہ لوگ کہہ رہےہیں کہ جو کچھ ظلم ہندو دہشتگرد کرتےہیں وہ اللہ کی مار ہے، سوال یہ ہیکہ کیا اللّٰہ ناانصافی کرتاہے؟ یا الله کی عدالت کو بھی بھارت کی سپریم کورٹ کی طرح سمجھا جارہاہے؟ اگر نریندرمودی تک دعوت اور سَنگھی شاخوں میں اسلام قبول کرنے کی دعوت نہیں پہنچانے کے سبب اللّٰہ سزا دلوا رہا ہے تو یہ سزا غریب ٹھیلے والے اور ایڑیاں رگڑ کے بمشکل جینے والے عام مسلمانوں کو کیوں؟ آپ نے تو ان ظالموں کے عمل میں اللہ کی منشاء شامل کردی ہے تو پھر الله رب العزت یہ سزائیں بےقصوروں پر کیوں اتار رہا ہے؟ جو لوگ ذمہ۔دار ہیں بڑے بڑے عہدیدار ہیں جو خواص ہیں جن کی درحقیقت ذمہ داری تھی کہ وہ سترسال میں دعوتی فریضے کو انجام دے لیں لیکن انہوں نے اس فریضے کو انجام نہیں دیا ان پر ہندوتوا دہشتگردی کے ذریعے اللہ کی مار کیوں نہیں پڑ رہی؟ یہ سوالات آپ کے نقطۂ نظر کے حساب سے ہیں جب آپ ہندوتوا مظالم کو الله کی طرف سے سزا قرار دیتےہیں ۔

موقع کی مناسبت سے ترغیب اور الزام تراشی میں خاصا فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ مزید برآں، دیگر خادمان اسلام کے تئیں ان داعی حضرات کی زبان بسا اوقات بڑی غیر داعیانہ اور ملامت آمیز ہوتی ہے۔ جس طرح تبلیغی جماعت فقط اپنے کاموں کو عملاً دینی اور داعیانہ کام باور کرتی رہی، اسی طرح بعض دانشوروں اور کچھ تنظیموں کے مفکرین اور ارباب دانش جا بجا یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم جس فکر، نظریہ اور کام کو راجح قرار دے رہے ہیں وہ عین صواب ہے۔ وہ تقریر و تحریر میں بڑی شد و مد سے اسلام کے اُس طرز دعوت پر سارا زور بیان صرف کرتے ہیں جس کو انہوں نے اِس ماحول میں ضروری سمجھا۔ ان کی حرکات و سکنات اور زبان و قلم بارہا اس کی چغلی کھاتے ہیں کہ اس مخصوص انداز دعوت کے سوا ملت کے دیگر تمام کام ہیچ اور غیر ضروری ہیں۔

داعیوں کی یہ نئی پود اگر اپنے رویے میں اصلاح نہیں کرے گی اور دوسروں کو انتہاپسند/ Extremist, جذباتی، جوشیلا اور ہیچ قرار دیتی رہے گی تو مستقبل میں ان کے لیے  اپنے اس رویے کے نقصانات کا شمار بھی مشکل ہو جائے گا۔  یاد رکھیں، آپ جس کو حق سمجھتے ہیں بلا خوف و خطر اس کی اشاعت کریں اور اس نظریے کے افراد تیار کریں لیکن مخالف نظریات رکھنے والوں کو  ہدف ملامت بنانا ان کے دلوں پر وار کرنا ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا اور انہیں کمتر باور کرانا کسی مصلح اور داعی کو زیب نہیں دیتا۔ اگر پلٹ کر انہی حضرات کے ماضی کو دیکھا جائے تو صورت حال بالکل برعکس نظر آتی ہے آج جو لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا مظالم پر صرف صبر کی تلقین کرتے ہیں وہی ماضی میں سَنگھی ظالموں کے خلاف بے صبری کا مظاہرہ کرتے تھے آج جو حضرات ظالموں کے خلاف اقدام کی جگہ برداشت اور ظلم سہنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ کل تک اسی کے برخلاف انتہائی عدم برداشت سے جلسے جلوس میں چیخا کرتےتھے کانگریسی اور غیر بھاجپائی عہد کے ہندوستان میں یہی لوگ مسلمانوں پر پولیس،  سسٹم،  آر ایس ایس کے ہندو دہشتگردوں اور ہندوتوا کے ظالموں پر اپنے عہد شباب سے لیکر کانگریس کے زوال اور اپنے بڑھاپے تک یہی لوگ پورے ہندوستان میں گھوم پھر کر جلسے جلوس اور ریلیاں کر کر کے ہندوتوا اور آر ایس ایس کو للکارتے تھے یہاں تک انہی نے ایک حقيقي دشمن تراشنے کے عمل میں مخالف فرقے کا مکمل سیاسی رول بھی ادا کیا، لیکن اب کہتے ہیں سیاسی طاقت کچھ نہیں، پولیٹیکس میں حصہ نہ لو دعوت دو دعوت!  جبکہ  یہ حضرات سیاسی اور جوشیلے مشہور ہوئے بڑے ہوئے اپنی اپنی زندگیاں اور اپنی نسلوں کی زندگیوں کے لیے کاروبار فِٹ کرچکے اور جب برہمنی طبقاتی نظام کے حقیقی ہندوتوا علمبردار اقتدار میں آئے بھاجپا آر ایس ایس اور ہندو احیاء پرستوں کو جیسے ہی اقتدار کی قوت حاصل ہوئی ان لوگوں نے ظالموں کے خلاف مزاحمت کو خود ہی جذباتیت غیر دعوتی اور حکمت کے خلاف قرار دینا شروع کردیا اور مسائل کے حل کا واحد راستہ دعوت قرار دینے لگے ہیں جبکہ یہ لوگ جو داعی بننے اور بنانے کے اچانک علمبردار ہوگئے ہیں انہوں نے اپنے پاس  ہزار وسائل اور مال و اسباب کی فراہمی کے باوجود دعوت کے نام پر اپنی زندگی کے گزشتہ  \50 /60 اور ستر سالوں میں کچھ بھی نہیں کیا، ان سے پوچھیے کہ آپکا پڑوسی اور چوراہے پر پان کی دوکان لگانے والا جو غیرمسلم ہے اس تک آپ نے کتنی دفعہ اسلام کی دعوت پہنچائی ہے؟ البتہ اگر آپ تحقیق کرینگے تو ان کے آس پاس رہنے والے غیرمسلموں کو اسلام سے اسلیے بدظن پائیں گے کہ ان کے معاملات اور اخلاق نے ہی ان کو بدظن کررکھاہے، یہ مکی زندگی اور دعوت کے مرحلے کو ظلم کا جواز بناکر فراہم کرتے ہیں لیکن اسی حد تک جس میں آپکو ظالموں کے خلاف مزاحمت نہ کرنا پڑے اور خود انہیں حکمرانوں سے ٹکراو نہ اختیار کرنا پڑے لیکن جب آپ انہی کو مکی زندگی اور سیرت کے مکی عہد کی نظیر پیش کر یہ کہیں گے کہ زمین، معاشرہ نکاح اور عبادات کے معاملے میں مکّی زندگی ایسی تھی تو وہ اسے قبول نہیں کرتے یہ کہہ کر کہ ہم جو مکّی دور سمجھاتے ہیں وہ صرف اتنی چیزوں میں ہے جو ہم نے بتادیے باقی سب میں نہیں، یہ اس قسم کی دعوت جو بڑی شدت سے پیش کی جاتی ہے اور جس کے ذریعے نوجوانوں کو ظلم پر برداشت اور حکمرانوں پر صبر کی تلقین ہوتی ہے وہ اسلامی دعوت کی اسٹریٹجی تو ہے نہیں ۔ تاہم اب جسے حق سمجھ لیا،  اس کو بلا لحاظ ہر فرد پر تھوپنا انتہا پسندانہ عمل ہے، جبکہ خود ان کی زندگی اسی سمجھے ہوئے حق پر کامیابی کا ایک ڈھیلا یا عملدرآمد کا ایک ہفتہ بھی پیش نہیں کرتی، اس قسم کی دعوت اپنی زندگی بھر کی ناکامی چھپانے کا اچھا بہانہ ہے، ہمیں بڑا تعجب ہوتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر کے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ ظلم کے خلاف شور نہ مچاو تم سب مجرم ہو تم نے ہندوستان کے ہندؤوں تک دعوت نہیں پہنچائی حیرت ہوتی ہیکہ وہ لوگ جو گزشتہ کئی دہائی سے ہندوستان میں اسلامی کاز کے علمبردار تھے وہ آج پیدا ہونے والے مسلمان بچوں پر ناکامی کا ٹھیکرا پھوڑتے ہیں ۔ سر دست میں ان تمام الفاظ کا احاطہ نہیں کروں گا جنہیں اس قسم کی دعوت اسلامی کے علمبرداروں کے زبان و قلم نے بڑی بے رحمی سے دیگر شعبوں اور مختلف انداز میں کام کرنے والوں کے متعلق استعمال کیے ہیں۔ ضروری ہے کہ داعی کا دل جذبہ خیرخواہی سے معمور اور اصلاح کے لیے بے قرار ہو۔ ایک داعی کا بنیادی وصف جو اسے پوری دنیا کے کام کرنے والوں سے ممتاز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے اندر انسانیت کو ابدی آگ سے بچانے کی تڑپ ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک طرف وہ اس صفت کا علمبردار ہو اور پھر وہ اپنی ہی قوم کے مخالف نظریات رکھنے والوں کے تئیں بدخواہ نظر آئے اس کی زبان اپنے ہی قوم کے غلط افراد ہوں یا   مختلف آراء رکھنے والے ہوں ان کے خلاف ردعمل کی نفسیات میں ڈوبی اور غصے میں بھری تیزوتند ہو تو سمجھ لیں کہ اس کی تربیت ابھی ناقص ہے۔ دعوت اسلامی ایک مہتم بالشان عمل ہے جو انسانوں کو سیدھا انبیا علیہم السلام کے نقش قدم پر رکھ دیتا ہے۔ منتقم المزاجی داعی کی فطرت سے یکسر مغائر ہے۔ اس کا سینہ تودۂ برف کی طرح ٹھنڈا، زبان کوثر و تسنیم سے دھلی اور اس کا خوشگوار مزاج انسانیت کے لیے پرکشش ہو۔ اگر اس کے سینہ میں سب کو، ملت کے ہر ہر طبقے کو ہرحال میں یکساں طور پر ساتھ لے کر چلنے کا داعیہ پیدا نہیں ہوتا تو انسانیت اس کے قدم بقدم نہیں چل سکے گی۔بھلا دعوت اسلام کی عظیم عمارت انسانی نفسیات کے برعکس طرز کو اختیار کرکے کیونکر تعمیر ہوسکتی ہے؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad