تازہ ترین

جمعرات، 6 اگست، 2020

وقت بڑا بلوان ہوتاہے۔

تحریر: منصور قاسمی، ریاض سعودی عرب
٥ /اگست بروز منگل کو ہندو ہردے سمراٹ اور ملک کے وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے ٥٠٠سال پرانی بابری مسجد کے سینے میں رام جنم بھومی کی بنیاد رکھ دی، ہندوؤں نے جشن چراغاں کیا، خوشی کے شادیانے بجائے، جگہ جگہ مٹھائیاں بانٹی گئیں، اکثریتی طبقہ کو لگ رہا تھا کہ آج ہی ہم نے ہندوستان فتح کیا۔دوسری طرف اقلیتی طبقہ (مسلمانوں) میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، کوئی روزہ رکھنے کی اپیل کررہا ہے، کوئی صبر کی تلقین کررہا ہے، کوئی ظالموں اور طاغوتوں کے لئے بددعا ئیںکررہا ہے تو کوئی ہدایت کی دعا ئیںکررہا ہے، کوئی حکمت عملی کی صلاح دے رہا ہے تاکہ کوئی صلاح الدین پیداہو اور مندر پھر سے مسجد میں تبدیل کردے، مسلم پرسنل لاء بورڈ نے لیٹرپیڈ جاری کر کے کہا ہے کہ ''بابری مسجد، مسجد تھی اور ہمیشہ مسجد رہے گی، غاصبانہ قبضہ سے حقیقت ختم نہیں ہوتی،،۔

یہ دیکھنا بڑا دلچسپ لگ رہا ہے، کانگریس جس نے سیکولرزم کا چولا پہن کر ہمیشہ دونمبری سیاست کی، جس نے ١٩٤٩ میں مسجد کے اندر مورتیاں رکھوائیں، جس نے مسجد کا دروازہ کھلوایا، جس نے پوجا پاٹ کی اجازت دی، اور جس نے مسجد کو منہدم کرانے میں اہم رول ادا کیا،آج شیلا نیاس کے وقت ماہیء بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے؛ لیکن بی جے پی کانگریس کو چند قطرہء آب ڈالنے کو تیار نہیں،اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ٩٠ کی دہائی میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی رام جنم بھومی کو ایشو بنا کر ایک طاقتور پارٹی بن کر ہندوستانی سیاست میں نمودار ہو رہی تھی؛جس کی قیادت سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشن اڈوانی کررہے تھے، اور ان کے شانہ بشانہ مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ،ونے کٹیار وغیرہ کررہے تھے، آج بھومی پوجن میں مدعو تک نہیں کئے گئے۔دنیا جانتی ہے کہ لال کرشن اڈوانی ہی وہ شخص ہے؛ جس نے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو بیدار کرنے کے لئے سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی تھی، چھ ہزار کلو میٹر تک جاری رہنے والی اس یاترا کو بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے سمستی پور میں روک کر کے اڈوانی کر گرفتار کروا دیا تھا، اس رتھ یاترا کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں تین ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے جبکہ ڈوانی ہندوؤں کے ہیرو بن گئے تھے، وقت وقت پر واجپئی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ،اشوک سنگھل، اپنے آتشی بیان سے ہندوؤں کے لہو گرماتے رہتے، سب کا ایک ہے نعرہ ہوتا '' مندر وہیں بنائیں گے،،پھر ٦دسمبر ١٩٩٢ کو لاکھوں کار سیوک (رضاکار) ایودھیا میں جمع ہو گئے،اڈوانی، اوما بھارتی، اورمرلی منوہر جوشی ان کوجوش دلاتے رہے، اوما بھارتی تو گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہی تھی ''ایک دھکا اور دو،بابری مسجد توڑ دو،، جس کے بعد مشتعل ہجوم نے سولہویں صدی کی اس بابری مسجد کو گرا دیا جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے بھی مانا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی، رام للا خود سے نمودار نہیں ہوئے تھے بلکہ مسجد کے اندر مورتیاں غیر قانونی طریقے سے رکھی گئی تھیں، مسجد کا توڑنا غیر قانونی تھا۔بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے رہنما مسجد منہدم کرنے کا سہرا اپنے سر تولیتے ہیں؛ تاہم خوف سے مسجد گرانے کی اخلاقی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اڈوانی جب بابری مسجد انہدام کیس میں عدالت کے سامنے حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا: بابری مسجد کے انہدام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے،اس معاملے میں ان کے خلاف لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں اور یہ سیاسی سازش ہے،، انہوں نے اپنے خلاف ثبوتوں کو بھی من گھڑت قراردیا؛حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ بابری مسجد انہدام کا کلیدی مجرم اور اصل سازشی اڈوانی ہی ہیں۔مسجد کے انہدام کے ساتھ ہی اڈوانی بھگوان بن گئے تھے اور بی جے پی طاقتور،چنانچہ پہلے ١٩٩٦ میں بی جے پی نے جز وقتی سرکار واجپئی کی قیادت میں بنائی پھر ١٩٩٨ میں باضابطہ حکومت بنا لی۔

٢٠٠٥ میں اڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا اور اڈوانی کا زوال یہیں سے شروع ہوا، انہوں نے کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی اور جناح کے متعلق رجسٹر پر لکھا''تاریخ میں ایسے تو کئی لوگ مل جاتے ہیں جنہوں نے تاریخ کے اوراق پرنشانات چھوڑے ہیں؛ لیکن ایسے کم لوگ ہیں جو حقیقت میں تاریخ تخلیق کرتے ہیں،جناح ایسے ہی چند لوگوں میں تھے،، صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا:محمد علی جناح نے جس چیز کو مقصد بنایا اسے حاصل کیا، پاکستان بنیادی طور پر جناح کی تخلیق ہے، مزید کہا:اس دور کے بڑے بڑے دانشوروں کا کہنا تھا کہ جناح ہندو و مسلم اتحاد کی علامت ہیں،،۔اڈوانی جب دورہء پاکستان سے واپس آئے تو پارٹی نے پہلے دباؤ بناکر بی جے پی صدر کے عہدہ سے دستبردار کروایا، پھر ان کو الگ تھلگ کردیا، اس کے بعد سرگرم سیاست سے دھیرے دھیرے دور کردیئے گئے اور حالات یہ بنا دیئے گئے کہ ان سے بی جے پی کے لوگ ہی ملنا جلنا نا پسند کرنے لگے، ٢٠١٩ تک آتے آتے وہ کووڈ ١٩ بن گئے، چنانچہ ٢٠١٩ کے لوک سبھا الیکشن میں مودی شاہ نے ان کا ٹکٹ کاٹ دیا،ان کی جگہ شاہ خود کھڑے ہو گئے۔ اڈوانی جس نے رام مندر کے نام اپنی زندگی وقف کردی تھی، آج بھومی پوجن میں انہیں دعوت تک نہیں دی گئی۔بادل نخواستہ اڈوانی نے آج (٥ اگست بھومی پوجن کے دن) کہا:مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ تقدیر نے ١٩٩٠ میں رام جنم بھومی تحریک کے دوران سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا کی ذمہ داری سونپی تھی، میرے دل کے اندر ایک خواب (رام مندر) تھا جو پورا ہو رہا ہے،،لیکن اس خواب کی جب تعبیر ملی اور اس کی تکمیل ہو رہی ہے تو اڈوانی کہیں بھی نہیں ہیں، یہ بھی اڈوانی کے لئے ایک تاریخی لمحہ ہے اور وہ اس کو تا عمر نہیں بھولیں گے۔

کلیان سنگھ جو ایودھیا تحریک کے پوسٹر بوائے تھے، ١٩٩١ میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بنا دیئے گئے تھے، ٢٠٠٤ میں پارٹی نے ان کو برطرف کردیا تھا جس کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی بھی بنائی، تاہم٢٠١٤ میں بی جے پی میں واپسی ہوئی،لیکن پارٹی نے انہیں حاشیے میں رکھنے کے بعد راجستھان کا گورنر بنا کرسیاسی معذور کردیا،آج جبکہ رام جنم بھومی پوجن ہے تو ان کو بھی گھاس نہیں ڈالا گیا، حالانکہ یہی وہ شخص ہے جس نے یوپی کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کے کہا تھا کہ مسجد کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچانے دیا جا ئے گا،مگر جب مسجد گرائی جا رہی تھی تو انہوں نہ روکا اور نہ کارروائی کا کوئی حکم دیا اور وہ شخص کیوںکر روکے گا جو مندر کے نام پر اقتدار پایا ہو۔بابری مسجد انہدام کی خوشی میں مرلی منوہر جوشی کے کندھے پر چڑھنے والی اوما بھارتی اور کندھے پر چڑھانے والے دونوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ رام جنم بھومی تحریک سے جتنے لوگ منسلک تھے جو مر گئے میں ان کی بات نہیں کرتا جیسے اٹل بہاری واجپئی، اشوک سنگھل وغیرہ لیکن جو بقید حیات ہیں ان کو نریندر مودی نے کوڑے دان میں پھینک کر خود مہانایک بن گئے مگر مودی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جو آج ہیرو بنے پھر رہے ہیں کل وہ بھی زیرو ہو جائیںگے اور ظالم کو کئے کی ضرور سزا ملے گی جیسا کہ رام جنم بھومی تحریک کے ہیروز کو مل رہی ہے،آج جہاں مندر کی سنگ بنیاد رکھی جا رہی ہے کل پھر سے مسجد کی بنیاد رکھی جائے گی ان شاء اللہ کیونکہ '' وقت بڑا بلوان ہوتا ہے،،۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad