تازہ ترین

جمعہ، 20 نومبر، 2020

سابق ریاستی وزیر آلوک کمار شاکیہ خوش طبعی کے مالک ہیں مگر۔۔۔۔۔

حافظ محمد ذاکر.مین پوری  ابھی چند روزقبل سوشل سائٹ پر سابق ریاستی وزیر آلوک کمار شاکیہ کو لیکر طرح طرح کی پوسٹیں کی گئیں،کچھ ایسی بھی پوسٹیں تھیں جس سے شاید آلوک کمار شاکیہ کو دلی تکلیف بھی ہوئی ہو گی، فیس بک پرایک شخص نے لکھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران سابق وزیر آلوک کمار شاکیہ نے اپنے زاتی طور پر ضرورت مندوں کو کچھ بھی تقسیم نہیں کیا،وجہ بیان کرتے ہوئے لکھنے والے نے لکھا کہ وزیر صاحب نہایت ایماندار ہیں جن کے پاس ضرورت مندوں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔اب لکھنے والے کا دل ہی جانے اسکا مقصدسابق ریاستی وزیر آلوک کمار شاکیہ کی تعریف یاتنقیص مراد تھی،لیکن پوسٹ پر کمینٹوں سے یہ بات واضح ہو تی ہے،لکھنے والے کی مراد تنقیص تھی،بہر حال آلوک کمار شاکیہ ایک نہایت ہی سادہ مزاج،خوش طبعی کے مالک ہیں،



اور وزرا کی طرح ان کے پاس بے پناہ دولت کے ذخیرے نہیں ہیں،آلوک کمار شاکیہ کی ملنساری عام عوام کے ساتھ نہایت عمدہ ہے،وزیر رہتے ہوئے بھی کبھی چہرہ پر غرور کے آثار نظر نہیں آئے،اور وزیروں سے عام عوام کی ملاقات ایک دشوار راہ سے گزر نے کی مانند ہوتی ہے،مگر آلوک کمار شاکیہ سے ملاقات عوام کے لئے ایک سہل اور آسان کام ہے، تمام تر سیاسی اختلاف کے با وجود آلوک کمار شاکیہ ایک خوش طبیعت کے مالک ہیں۔آلوک کمار شاکیہ کو سیاست کی دہلیز تک پہنچانے کا کام ان کے آنجہانی والد رام اوتار شاکیہ نے کیا،اور سیاست میں جو مقام اور مرتبہ حاصل ہوا وہ ملایم سنگھ یادو کی مشفقانہ نظر عنایت کے سبب ہوا،کیونکہ ملایم سنگھ یادو کے دور اول کی سیاست میں موصوف کے آنجہانی والد رام اوتار شاکیہ نے قدم بقدم شانہ بشانہ سماجوادی پارٹی کوعلاقہ کے لوگوں میں خصوصاً اپنے سماج میں پہچان کرائی،اور پارٹی کا ایک مضبوط ووٹ تیار کیا،


جو ہر صورت سماج وادی پارٹی کو ہی اپنی حمایت دیتا رہا ہے۔اسی وجہ سے پارٹی اور پارٹی کے قومی صدرنے ہمیشہ بھوگاؤں اسمبلی حلقہ سے اپنا امیدوارآلوک کمار شاکیہ کونام زد کیا ہے، جنہو نے ہمیشہ سماجوادی پارٹی کا پر چم لہرا یا اور کامیابی حاصل کی۔ مگر اس مرتبہ ہندوتو لہر میں آلوک کمار شاکیہ کو شکست کا سامنا کر نا پڑا۔ عوام کی نظر میں آلوک کمار شاکیہ کی کچھ سیاسی غلطیاں بھی ہیں جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے پہلے تو آلوک کمار شاکیہ نے سیاسی تبدیلیوں کے سبب ان لوگوں سے اپنا سیاسی ناطہ توڑا جو انکے والد آنجہانی رام اوتار شاکیہ کے بڑے ہی خیر خواہ شمار کئے جاتے تھے۔اور ان لوگوں کی قربت حاصل کی جو قانونی نظریہ سے کہیں نہ کہیں سے گناہ گار تھے۔ 


اورجیسا کہ ابھی کچھ سال قبل اپنی ہی پارٹی کے ایک سینئر نیتا کو ووٹ ڈنمپنگ اسٹنگ آپریشن میں پھنسائے جانے کا الزام بھی آلوک کمار شاکیہ پر عائد ہوا۔جس نیتا کو اسٹنگ آپریش میں پھنسایا گیا تھا وہ آلوک کمار شاکیہ کے والد کے بڑے ہی خیر خواہ دوستوں میں شمار کئے جاتے تھے۔مگر آج کے دور کی سیاست ہے ہی ایسی چیز،ٹماٹر کھا کر، گالیاں کھا کر، لاشیں بچھا کر،کہیں غیبت تو کہیں ہاں حضوری کر کے سیاست میں ترقی کی جاتی ہے۔ شاید اسی راہ پر چل کر آلوک کمار شاکیہ نے اب اپنے سچے خیر خواہوں کو نظر انداز کر دیا ہے،اور آج کی سیاست میں جن چیزوں کی یا جن لوگوں کی ضرورت ہے ایسی ہی چیزوں اور لوگوں کو اختیار کر لیا ہے۔ صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا آلوک کمار شاکیہ نے ایسے مخلص لوگوں کا بھی ساتھ چھوڑا جو اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی کے طلبگار ہو نے کے ساتھ ساتھ آلوک کمار شاکیہ کی کامیابی کی دعائیں بھی کیا کرتے تھے۔


کمنٹ میں ایک بات یہ بھی سامنے آئی کہ آ لوک کمار شاکیہ کی مسلسل کئی مرتبہ جیت نے انہیں مغروریت کے دروازے پر لاکر کھڑا کر دیا تھا،اسی وجہ سے پارٹی اور پارٹی کے کارکنان دل سے خوش نظر نہیں آتے تھے،البتہ پارٹی کی حیثیت سے ان کودیگر سماج کا ووٹ مل جاتا تھا،آلوک کمار شاکیہ پر ماضی قریب میں یہ الزام عائد ہو نے لگے تھے کہ اپنے رزرویشن سے مالی تعاون اپنے مخصوص لوگوں کو ہی منتخب کر کے دیتے تھے۔مفاد عامہ کے کاموں میں قطعی دلچسپی نہیں تھی، آلوک کمار شاکیہ پر یہ بھی الزام عائد رہا کہ وہ اپنی سیاست کے دور اول سے ہی صرف ایک سماج کی کٹھ پتلی بنے رہے ہیں۔


اور اب بھی وہ مخصوص ہاتھوں کے کھلونے بنے ہوئے ہیں۔اپنے اسمبلی حلقہ بھوگاؤں میں کچھ مخصوص لوگوں کے یہاں ہی ان کی آمدو رفت رہتی ہے۔ابھی گزشتہ سالوں میں ہندو،مسلم ایکتا کے بینر تلے ۱۱/بیٹیوں کی اجتماعی شادیوں کا پروگرام منعقد کیا گیا تھا،جس میں ۶/ بیٹیاں غیرمسلموں کی تھیں بقیہ ۵/ بیٹیاں مسلم تھیں،اس پروگرام کا قصبہ میں ایک منفرد مقام تھا،آلوک شاکیہ جی نے ایسے پروگرام میں بھی کسی کے کہنے پر شرکت نہیں کی تھی،موصوف کا اس پروگرام میں وعدے کے باوجود شرکت نہ کرنا مسل  سماج میں آج تک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔کہ آخر کس کے کہنے پر آلوک کمار شاکیہ نے اس تاریخی پروگرام میں شرکت نہیں کی تھی۔


عام عوام سے لا تعلقی ہی ان کی ہزیمت کا سبب بنی۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آلوک کمار شاکیہ کئی مرتہ اسمبلی کے رکن بنے اور ایک مرتبہ عہدہ وزارت بھی ملا،مگر دیگر وزرا کی طرح ان کی مالی حیثیت کمزور رہی ہے،شاید اسی وجہ سے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کر نے میں ناکام رہتے ہوں۔ البتہ ان کی دیانتداری اور ملنساری کے چرچہ عام ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad